تحریر۔علامہ سید جواد نقوی
دنیا بھر کے روزہ دار مسلمان عالمی یوم القدس کی مناسبت سے مظلوم فلسطینیوں
کے ساتھ اظہارِ یکجہتی اور غاصب صیہونی حکومت کے خلاف اپنی نفرت کا اظہار
کر رہے ہیں۔یہ وہ دن ہے جو امام خمینی رح کی جدت عمل سے قدس شریف اور مظلوم
فلسطین کے بارے میں مسلمانوں کی آوازوں کو ایک لڑی میں پرونے کا ذریعہ بن
گیا۔ ناجائز تسلط کے ان تہتر برسوں میں ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت
بن کر آیا ہے، ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوئی، ہر لمحہ بے
گناہوں کے خون سے، گھر بار، سڑکیں، بازار، مساجد و عبادت گاہیں، سکول و
مدارس کو رنگین کرنے کا پیامبر بن کر آیا ہے۔ ناجائز اسرائیلی ریاست کے
حکمرانوں نے ان تہتر برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے، اس کی
مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں۔ نوجوانوں کی خون میں اٹی لاشیں
اور نوحہ و ماتم کرتی ماؤں اور بہنوں کی چیخ و پکار اور نالہ و فریاد کے
مناظر دنیا کے باضمیر انسانوں کو ہرروز جھنجھوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔مغربی
حکومتوں اور یہودی سرمایہ داروں کا صیہونی حکومت کی تشکیل کا اصلی مقصد
مغربی ایشیا میں اپنے دائمی رسوخ اور موجودگی کے لئے ایک اڈا قائم کرنا اور
علاقے کے ممالک اور حکومتوں کے امور میں دخل اندازی اور ان پر اپنی مرضی
مسلط کرنے کے لئے قریب سے رسائی کے امکانات حاصل کرنا تھا۔ اسی لئے جعلی و
غاصب حکومت کو طاقت کے گوناگوں عسکری و غیر عسکری وسائل یہاں تک کہ ایٹمی
ہتھیاروں سے لیس کر دیا اور نیل سے فرات تک کے علاقے میں اس سرطان کی توسیع
کو اپنے ایجنڈے میں جگہ دی۔دنیا کے نقشے پر ناجائز وجود پانے والی ریاست کو
امام راحل امام خمینی? نے مسلمانوں کے قلب میں خنجر سے تعبیر کیا تھا اور
امت کو اس کی آزادی کی راہ جہاد کی صورت دکھائی تھی مگر بد قسمتی سے بیشتر
عرب حکومتوں نے ابتدائی مزاحمتوں کے بعد جن میں بعض قابل تعریف ہیں، بتدریج
ہتھیار ڈال دئے اور خاص طور پر اس مسئلے کے ذمہ دار کے طور پر ریاستہائے
متحدہ امریکہ کے وارد ہو جانے کے بعد انھوں نے انسانی، اسلامی اور سیاسی
فریضے کو بھی اور اپنی عربی غیرت و حمیت کو بھی بالائے طاق رکھ دیا اور
موہوم امیدیں لگا کر دشمن کے اہداف کی تکمیل میں مدد کی.جو لوگ چند فلسطینی
عناصر یا چند عرب ممالک کے حکام کی مصالحتی کوششوں کو اس اسلامی اور انسانی
مسئلے کو اس کے حال پر چھوڑ دینے کا جواز سمجھتے ہیں، وہ اس مسئلے کے ادراک
میں شدید غلطی بلکہ بسا اوقات اس میں تحریف جیسی خیانت کے مرتکب ہو رہے
ہیں۔اس پیکار کا اصلی مقصد بحیرہ روم سے دریائے اردن تک، پوری سرزمین
فلسطین کی آزادی اور تمام فلسطینیوں کی وطن واپسی ہے۔ اس عظیم مقصد کو اس
سرزمین کے کسی گوشے میں ایک حکومت کی تشکیل تک محدود کر دینا، وہ بھی اس
تحقیر آمیز شکل میں جس کی بات بے ادب صیہونی کرتے ہیں، نہ حق جوئی کی علامت
ہے اور نہ حقیقت پسندی کی نشانی۔ امر واقع یہ ہے کہ آج لاکھوں فلسطینی فکر،
تجربے اور خود اعتمادی کی اس منزل پر پہنچ چکے ہیں کہ اس عظیم جہاد کے لئے
انھوں نے کمر ہمت باندھ لی ہے، انھیں نصرت خداوندی اور حتمی فتح کا یقین
رکھنا چاہئے.اگرچہ اس لڑائی میں تمام حلال اور شرعی وسائل منجملہ عالمی
حمایت سے استفادہ جائز ہے لیکن خاص طور پر مغربی حکومتوں اور ظاہری یا
باطنی طور پر ان پر منحصر عالمی اداروں پر اعتماد کرنے سے پرہیز کرنا
چاہئے۔ وہ ہر موثر اسلامی طاقت کے وجود کے دشمن ہیں۔ انھیں انسانوں اور
اقوام کے حقوق کی کوئی پروا نہیں ہے۔ وہ خود مسلم امہ کو پہنچنے والے بیشتر
نقصانات اور اس کے خلاف انجام پانے والے جرائم کے ذمہ دار ہیں۔ اس وقت کئی
اسلامی و عرب ممالک میں جاری قتل عام، جنگ افروزی، بمباری یا مسلط کردہ
خشکسالی کے سلسلے میں کون عالمی ادارہ یا جرائم پیشہ طاقت جوابدہ ہے؟آج
دنیا عالمی سطح پر کورونا سے ہونے والی اموات کو تو گن رہی ہے لیکن کسی نے
نہیں پوچھا اور نہ پوچھے گا کہ جن ممالک میں امریکہ اور یورپ نے جنگ کی آگ
بھڑکائی ہے وہاں لاکھوں افراد کی شہادت، قید اور گمشدگی کا ذمہ دار کون ہے؟
افغانستان، یمن، لیبیا، عراق، شام اور دیگر ممالک میں بہائے جانے والے اس
خون ناحق کا ذمہ دار کون ہے؟ فلسطین میں جاری ان جرائم، غاصبانہ و تخریبی
اقدامات اور مظالم کا ذمہ دار کون ہے؟ اسلامی ممالک کے دسیوں لاکھ مظلوم
مردوں اور خواتین کو کوئی شمار کیوں نہیں کرتا؟ مسلمانوں کے قتل عام پر
کوئی تعزیت کیوں نہیں دیتا؟ لاکھوں فلسطینی ستر سال سے اپنے گھر بار سے دور
جلا وطنی میں کیوں رہیں؟ مسلمانوں کے قبلہ اول کی کیوں توہین کی جائے؟ نام
نہاد اقوام متحدہ اپنے فرائض پر عمل نہیں کر رہی ہے اور نام نہاد انسانی
حقوق کی تنظیموں کو موت آ گئی ہے۔'بچوں اور خواتین کے حقوق کے نعرے'کا
اطلاق یمن اور فلسطین کے مظلوم بچوں اور خواتین پر کیوں نہیں ہوتا۔اہم نکتہ
جو عالم اسلام کی سیاسی و دفاعی شخصیات کی نظر سے پنہاں نہیں رہنا چاہئے،
وہ مزاحمتی محاذ کودیوار سے لگانے کی امریکی اور صیہونی سیاست ہے۔ شام میں
خانہ جنگی شروع کروانا، یمن کی ناکہ بندی اور وہاں شب و روز قتل عام، عراق
میں ٹارگٹ کلنگ، تخریبی اقدامات اور داعش کی تشکیل، علاقے کے بعض دیگر
ممالک میں ایسے ہی واقعات، یہ سب مزاحمتی محاذ کو الجھا دینے اور صیہونی
حکومت کو موقع دینے کے حربے ہیں۔ بعض مسلم ممالک کے سیاستدانوں نے
نادانستگی میں اور بعض نے دانستہ طور پر دشمن کے ان حربوں کی مدد کی ہے۔ اس
خبیثانہ سیاست کے نفاذ کا سد باب کرنے کا طریقہ پورے عالم اسلام میں غیور
نوجوانوں کی طرف سے پرزور مطالبہ ہے۔ تمام اسلامی ممالک اور خاص طور پر عرب
ممالک میں نوجوانوں کو امام خمینی کی سفارشات کو نظر سے دور نہیں ہونے دینا
چاہئے۔استکبار اور صیہونیت کی بنیادی پالیسی مسلمان معاشروں کے اذہان میں
مسئلہ فلسطین کو بے رنگ کر دینا اور فراموشی کی طرف دھکیل دینا ہے۔ علاقے
میں صیہونی حکومت کی موجودگی کو معمول کی بات بنا دینا ریاستہائے متحدہ
امریکہ کی سب سے بنیادی پالیسی ہے۔ علاقے کی بعض عرب حکومتیں جو امریکہ کے
اشارے پر چلتی ہیں، اس کے لازمی مقدمات جیسے اقتصادی روابط قائم کرنے وغیرہ
کا کام انجام دے رہی ہیں۔ یہ کوششیں سرے سے بے ثمر اور بے نتیجہ ہیں۔
صیہونی حکومت اس علاقے کے لئے ایک مہلک اضافہ اور سراپا نقصان ہے جو بلا
شبہ ختم اور نابود ہو جائے گی اور ان لوگوں کے ہاتھ صرف ذلت اور بدنامی لگے
گی جنہوں نے اپنے تمام وسائل اس استکباری سیاست کے لئے وقف کر رکھے ہیں۔
بعض اپنی اس پست روش کا یہ جواز پیش کرتے ہیں کہ صیہونی حکومت علاقے کی ایک
حقیقت ہے، انھیں یہ یاد نہیں کہ مہلک اور زیاں بار حقیقتوں سے لڑنا اور
انھیں ختم کرنا ہوتا ہے۔سب کا فوری فریضہ اس خیانت کا سد باب ہے جو خود
اسلامی ممالک میں دشمن کے سیاسی اور ثقافتی ایجنٹوں کے ذریعے انجام پا رہی
ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مسئلہ فلسطین ایسا قضیہ نہیں ہے جسے مسلمان اقوام کی
غیرت، روز افزوں خود اعتمادی و بیداری فراموش ہو جانے دے گی۔ حالانکہ اس
مقصد کے لئے امریکہ اور دیگر تسلط پسند طاقتیں اور ان کے مہرے اپنا پیسہ
اور طاقت استعمال کر رہے ہیں۔سوال یہ پید اہوتا ہے کہ اس مسئلے کا حل کیا
ہے؟ ابھی تک اس اکہترسالہ زندگی میں جعلی صہیونی حکومت نے اپنے اہداف طفل
کشی، قتل و غارت، آہنی مکے اور تشدد کی مدد سے حاصل کرنے کی کوشش کی ہے اور
اس بات کو ڈھٹائی سے بیان بھی کرتے ہیں۔اسرائیلی جرائم کو ختم کرنے کا واحد
ذریعہ اس ریاست کا خاتمہ ہے۔اور ظاہر ہے ریاست کے خاتمے سے مراد یہ نہیں کہ
خطے میں یہودی باشندوں کا قتل عام کیا جائے۔ رہبر معظم نے اس کی خاطر دنیا
کو ایک منطقی اور قابلِ عمل میکانزم بتایا ہے۔: فلسطین کے اصلی باشندے چاھے
وہ مسلمان ہوں، یہودی یا عیسائی، وہ چاھے فلسطین میں ہوں یا مہاجرکیمپوں
میں یا دنیا میں کہیں بھی وہ ایک عوامی اور منظم ریفرنڈم میں حصہ لیں۔قدرتی
طور پر وہ یہودی مہاجر جنہیں اسرائیل ہجرت کرنے پر مائل کیا گیا ہے وہ اس
ریفرنڈم میں حصہ لینے کا حق نہیں رکھتے۔فلسطین کے اصلی لوگوں کے درمیان
ہونے والے ریفرنڈم کے نتیجے میں جو حکومت بنے گی وہ فیصلہ کرے گی کہ یہودی
مہاجرین فلسطین میں ہی رہیں یا اپنے آبائی وطنوں میں واپس بھیج دئے
جائیں۔جس دن تک یہ قاتل اور طفل کش ریاست ریفرنڈم کے ذریعے ختم نہیں ہو
جاتی اس وقت تک طاقتور مقابلہ اور مسلح مزاحمت اس تباہ کن ریاست کا علاج
ہے۔ایسی ریاست جو کسی کی سوچ اور تخیل سے بعید جرائم کا ارتکاب کرتی ہے کے
مقابلے کا واحد ذریعہ پر عزم اور مسلح مقابلہ ہے۔
|