''بابائے قوم کا تحفہ ''
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
''بابائے قوم کا تحفہ '' ایک ایسا سرٹیفکیٹ،جوہمیشہ متاع ِ حیات رہا۔ تحریر:۔محمداحمد ترازی
|
|
|
''بابائے قوم کا تحفہ '' ایک ایسا سرٹیفکیٹ،جوہمیشہ متاع ِ حیات رہا۔ تحریر:۔محمداحمد ترازی یہ دسمبر 1937ء کی بات ہے۔جب محمد علی جناح(جو ابھی قائد اعظم کےلقب سے مشہور نہیں ہوئے تھے)کو ایک عارضی اسٹینو گرافرکی ضرورت تھی۔قائد اعظم اُن دنوں نئی دہلی میں نواب زادہ لیاقت علی خاں کی کوٹھی '' گل ِرانا'' میں مقیم تھے۔چنانچہ اسمبلی کے اسٹینوگرافر اقبال محمد خان نے اُنہیں قائد اعظم سے ملوانے سےقبل قائد کی عادت و اطوار اور طور طریقے اچھی طرح سمجھادئیے۔وہ قائد اعظم سے ملے اورکام شروع ہوگیا۔اُس زمانے میں سرکاری دفتر ساڑھے دس بجے کھل کر ساڑھے چار بجے بند ہوتا تھا۔وہ روزانہ صبح آٹھ بجے سے دس بجے تک پابندی کے ساتھ قائد اعظم کے پاس حاضر ہوتے۔یہ اُن کے آفس جانے سے پہلے کاوقت تھا۔قائد اعظم اُنہیں بیڈ روم میں ڈکٹیشن دیا کرتے اور وہ برامدے میں اُسے ٹائپ کرتے۔ آج اُنہیں اِس آسامی پر کام کرتے ہوئے ایک ماہ ہوچکا تھا۔حسب معمول ڈکٹیشن دینے کے بعد قائد اعظم نے فرمایا۔''آج تمہیں کام کرتے ہوئے ایک مہینہ ہوگیا،کیا اجرت دی جائے۔؟'' ''اُجرت! (اُنہوں نے قدرے حیرانی سے کہا)میں تو سرکاری ملازم ہوں،گورنمنٹ سے تنخواہ پاتا ہوں۔'' قائداعظم نے سوالیہ انداز میں اُن سے پوچھا کیا''اِس کام کی تنخواہ بھی تم کو گورنمنٹ دیتی ہے۔؟ اُنہوں نے ادباً جواب دیتے ہوئے کہا''یہ کام تو عملی تربیت کے سلسلہ میں ہے،میں سرکاری ملازمت میں ترقی کے لیے شارٹ ہنڈ سیکھ رہا ہوں۔'' ) سمجھا کہ مفت میں کام لوں''Pauperقائد اعظم نے درشت لہجہ میں فرمایا۔''نہ جانے کیا کہہ رہے ہو،یہ کوئی اسکول تو نہیں اور تم نے کیا مجھے کنگال( اُنہوں نے عرض کی :''یہ بات نہیں ،سرکاری ملازمت کے قواعد اِس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ میں اُجرت پر کوئی اور کام کروں۔'' قائد اعظم:''یہ کسی ملازمت کے قواعد نہیں ہوسکتے کہ فرصت کے اوقات میں کوئی کام کرواور بھوکے مرو!کیا تنخواہ ہے تمہاری سرکاری ملازمت میں۔؟ ''چونسٹھ روپے مہینہ''اُنہوں نے جواب دیا۔ قائد اعظم نے حیرت سے فرمایا۔''چونسٹھ !سارے مہینے کی۔۔۔کیا بکتے ہو۔'' ''جی '' یہ بکواس نہیں حقیقت ہے۔''اُنہوں نےجواباً عرض کی ۔ قائداعظم:''عجیب بات ہے!دیکھو،سالہا سال سے میں یہاں آتا ہوں اور سرکاری ملازم ہی میرا یہ کام کرتے رہے ہیں جو تم کرتے ہو۔جب مہینہ پر اُن کو سو روپے دئیے جاتے تو Unpractical Type of وہ کہتے یہ آپ کیا دے رہے ہیں۔ذرا زیادہ دیجئے۔تم کیسے سرکاری ملازم :جب میں کہتا ہوں کہ کیا دوں ،تو کہتے ہو کہ کچھ نہیں۔تم کچھ بے عملے( )سےمعلوم ہوتے ہو۔اگر تم سو روپے لینے کے لیے تیار نہیں تو کل سے مت آنا۔میں کوئی کنگال تو نہیں جو مفت کام لوں۔'' fellow چنانچہ بادل ناخواستہ اُنہیں رخصت ہونا پڑا۔حالانکہ اُن کی بیگم نے اُن سے کہا بھی کہ مسلم لیگ کے صدر کو ناراض کرنا اور دفعتاً اُن کی خدمت کو ترک کرنا ٹھیک نہیں۔ویسے بھی محنت کی کمائی تو حلال ہوتی ہے ،لے لینے میں کیا حرج ہے۔مگر اُنہوں نے یہ بات نہیں مانی اور قائد اعظم کے پاس جانا چھوڑ دیا۔تین چار دن کے بعد صنوبر خاں (اسمبلی ریسٹورینٹ کے ٹھیکیدار) اُن کے پاس آئے۔اور کہنے لگے ''بھئی ،آپ نے مسٹر جناح کو کیوں ناراض کر آئے۔؟پھر''صنوبر خاں نے سو روپے کا نوٹ اُن کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا''لو یہ نوٹ لو ،اور کل صبح سے پھر جانے لگو۔'' مگراُنہوں نے کہا''میں ایک پیسہ بھی لینے کو تیار نہیں،صنوبر خاں صاحب ،آپ کیسی بات کرتے ہیں۔کوئی سرکاری نوکر اُجرت پر کسی دوسرے کا کام نہیں کرسکتا۔'' ''بالکل غلط آدمی ہیں آپ''صنوبر خاں نے نوٹ جیب میں رکھتے ہوئے کہا۔''خیر ،کل ذرا اپنی شکل تو دکھا آنا،اُن کو،بہت بے چین تھے تمہارے بغیر۔''چنانچہ اگلے روز صبح وہ قائد اعظم کے بیڈ روم میں جا پہنچے۔قائد اعظم بستر پر بیٹھے چائے پی رہے تھے۔آپ کو دیکھا تو فرمایا ''ہیلو ! تم آگئے،بہت اچھا کیا، کئی خطوں کے جواب دینے ہیں، لکھو ۔۔۔ لکھو۔''اوراُنہوں نے لکھنا شروع کردیا۔ یوں قائد کی خدمت کا یہ سلسلہ ایک بار پھر شروع ہوگیا۔ قائد کی صحبت میں اپنے مشاہدے کو بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ ''قائد اعظم خط ''الف''سے ''یے'' تک لکھاتے۔یہاں تک کہ آخر میں اپنا نام ''ایم،اے جناح'' بھی بولا کرتے۔قائد کا تلفظ صحیح اور لہجہ ٹھیٹھ انگریزی تھا۔جس جس خط کا جواب لکھواتےمیرے حوالے کرتے جاتے۔بعض خط بہت تھڑد کلاس ہوتے تھے،جن پر اگرمیر بس چلتا تو پھاڑ کر پھینک دیتا۔مگر اِسے قیادت عظمیٰ ہی کہیئے کہ وہ ہر خط کا جواب دیتے اور بعض اوقات ایسا دیتے کہ میں اُس کو ٹائپ کرکے بار بار پڑھتا اور اُس خط سے ملا کر دیکھتا،جس کا وہ جواب ہوتا تھا کہ کہیں غلط تو نہیں چھپ گیا۔''اُن کا یہ بھی کہنا تھاکہ'' اُن دنوں مسلم لیگ کے چندے براہ ِراست قائد اعظم کے پاس آتے تھے اور وہ ہر چندہ کی رسید اپنے دستخط سے چندہ بھیجنے والے کو بھیجا کرتے تھے،خواہ چندہ ایک روپیہ ہی کیوں نہ ہو۔کہتے ہیں ایک مرتبہ قائد سے میں نے اِس درد سری کی وجہ دریافت کی تو فرمانے لگے کہ'' مسلمان قوم چندہ جمع کرنے والوں سے بہت بدظن ہے، مسلمانوں کے اکثر لیڈر غالباً چندہ خور ہوتے ہیں،میں نہیں چاہتا کہ یہ بدظنی آل انڈیا مسلم لیگ کے باب میں اب بھی رَوا رہے۔'' اِس دوران کئی بار اُجرت کا سوال بھی چھڑا۔مگرہر بار اُن کاایک ہی جواب تھا کہ ''کوئی سرکاری نوکر اُجرت پر کسی دوسرے کا کام نہیں کرسکتا۔''قائد اعظم نے بارہا ناراضگی کا اظہار فرمایا۔اور یہ تک کہہ دیا کہ ''تمہارا بلا اُجرت کام کرنا مجھے ایک آنکھ نہیں بھاتا۔''قائد نے اُنہیں یہ پیشکش بھی کی کہ ''کیوں نہ تم سرکاری نوکری چھوڑ کر میرے ساتھ بمبئی چلو۔''لیکن دیوان ِحافظ سے قرعہ فال نفی نکلا۔اِس لیے وہ قائد اعظم کے ساتھ بمبئی نہ جاسکے ۔مگر 1940ء تک وہ روزانہ صبح قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوتے رہے، خطوں کے جواب لکھتے رہےاور برآمدے میں بیٹھ کر اُسےٹائپ کرتے رہے۔اِس دوران اُن کی سرکاری نوکری بھی چلتی رہے اور وہ ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے سپلائی سیکرٹری کے پرسنل اسسٹینٹ مقررکردیے گئے ۔ جب نئی ذمہ داریوں کی وجہ سےاُن کے لیے اِس سلسلے کو مزیدجاری رکھنا مشکل ہوگیا۔تو اُنہوں نے قائد اعظم سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا۔قائد اعظم بہت خوش ہوئے اور فرمایا''مجھے معلوم تھا تم ترقی کرو گے۔میرے لیے کوئی اور آدمی تلاش کردو۔''چنانچہ قائد اعظم کو اپنا متبادل فراہم کرنے کے بعد جب وہ رخصت ہونے لگے تو قائد اعظم نے اُن کا شکریہ ادا کیا اور فرمایا۔''دیکھو تم کئی سال سے میرا کام کرتے رہے ہو،مگر تم نے کبھی کوئی اُجرت منظور نہیں کی،میں چاہتا ہوں کہ تم کو کوئی تحفہ دوں۔''مگر اُنہوں نے قائد اعظم کی یہ پیش کش منظور نہیں کی۔جس پرقائد اعظم نے فرمایا''تمہیں تحفہ لینا ہوگا۔خواہ وہ کتنا ہی قیمتی ہو۔بتاؤ کیا لو گے۔؟''قائد اعظم کے اصرار کو دیکھ کر اُنہوں عرض کی ''اگر آپ تحفہ دینے پر مصر ہیں تو ایک سرٹیفکیٹ دے دیجیئے جو میرے پاس یاد گار رہے گا۔'' ''سرٹیفکیٹ !وہ تو میں نے آج تک کسی کو نہیں دیا۔''قائد اعظم نے جواب دیا۔'' اگر آپ تحفہ دینے پر بصد ہیں تو آپ کو سرٹیفکیٹ ہی دینا ہوگا۔'' اُنہوں نےبھی ضد کی ۔ قائد اعظم نے اُنہیں نگاہ اُٹھا کر دیکھا اور کہا''عجیب بات ہے ،خیر لکھو۔'' ''آپ اپنے ہاتھ سے لکھیئے''اُنہوں نےقائد اعظم سے مودبانہ گزارش کرتے ہوئے کہا ۔ ''کیا مشکل ہے،ایک تو سرٹیفکیٹ دوں،اور پھر خود اپنے ہاتھ سے لکھوں۔''قائد اعظم نے کہا۔ ''اگر آپ یہ نہیں کرسکتے تو میں سمجھوں گا کہ آپ تحفہ دینا نہیں چاہتے۔''وہ بولے۔ ''کیا بک رہے ہو! اچھا کل صبح دفتر جاتے ہوئے اِدھر ہوتے جانا،رات کو شاید تمہارا سرٹیفکیٹ لکھ رکھوں۔'' قائد اعظم نے فرمایا۔ اگلے روز وہ قائد اعظم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔قائد اعظم نے اُنہیں دیکھا اور لکھنے کی میز کی جانب اشارہ کرتے ہوئے فرمایا''وہ رکھا ہے تمہارا سرٹیفکیٹ''اُنہوں نےایسے لپک کر سرٹیفکیٹ اُٹھالیا،جیسے وہ دنیا کا سب سے قیمتی تحفہ ہو۔ قائد اعظم نے مسکراکر اُنہیں دیکھا اور فرمایا''پڑھو، ٹھیک ہے نا۔''اُنہوں نے پڑھنے کی کوشش کی مگرمارے خوشی کے اُنہیں ایک لفظ بھی دکھائی نہیں دے رہا تھا۔قائد اعظم نے پھر اُن سے پوچھا''ٹھیک ہے نا،یا تم چاہتے ہو کہ میں اِس میں کچھ اضافہ کروں۔'' انہوں نے عرض کیا ''جی بالکل ٹھیک ہے۔اُس سے کہیں زیادہ ،جس کا میں مستحق ہوں۔'' ''ایسا نہیں ہے۔اچھا خدا حافظ جب تک پھر ملاقات نہ ہو۔اور ہاں جب کبھی تم مجھ سے ملنا ضروری سمجھو،بلا تامل چلے آنا۔''قائد اعظم نے اُنہیں کھلی اجازت دیتے ہوئے ارشاد فرمایا۔جس کا اُنہوں نے کئی مرتبہ فائدہ اٹھایا اور قائد نے بھی ہمیشہ اپنا قول نبھایا ۔ یہ تھےمجاہد حسین۔جو 1910ء میں جے پور کے ایک متوسط گھرانے میں شیخ اعجاز حسین کے گھر پیدا ہوئے۔جنھوں نے اپنی بچپن کی منگیترکو پانے کے لیےمیرٹھ کالج میں ایم اے اور ایل ایل بی کی تعلیم ادھوری چھوڑ دی اور وکیل بنے کے خواب کو قربان کرکے امپریل سیکرٹریٹ میں ساٹھ روپے ماہ وار پراِس لیے کلرکی اختیار کرلی کہ شادی کے لیے اُن کی منگیتر''صبح مجاہد'' کے گھر والوں نے سرکاری نوکری کی شرط عائد کردی تھی۔مجاہد حسین نے دوران ِکلرکی ٹائپنگ اور شارٹ ہنڈ سیکھی اور اِس فن میں ایسا کمال حاصل کیا کہ بیگم شائستہ اکرام اللہ جیسی شخصیت کو یہ کہنا پڑا کہ ''ہندوستان بھر میں صرف مجاہد حسین ہی ٹھیک اور صحیح ٹائپ کرنا جانتے ہیں۔''مجاہد حسین نے ہی بیگم شائستہ اکرام اللہ کا ''پی ایچ ڈی ''کا مقالہ ٹائپ کیا تھا۔ جس کی ایک کاپی مجاہد حسین کواپنے دستخط کے ساتھ دیتے ہوئے اُنہوں نے لکھاتھا کہ''برصغیر ہندوستان کے بہترین شارٹ ہندٹائپیسٹ کو'' اِسی طرح خود قائد اعظم محمد علی جناح جیسے عظیم رہنما بھی مجاہد حسین کی شارٹ ہنڈ کے معترف وقدردان تھے۔ مجاہد حسین دسمبر 1937ء سے جون 1940ء تک بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ بلامعاوضہ منسلک رہے۔ یہ چیز بظاہرقائد اعظم کی عظمت و کردار کے منافی معلوم ہوتی ہے کہ وہ کسی شخص سے کام لے کر اُس کا معاوضہ ادا نہ کریں۔مگر یہ اعزاز صرف مجاہد حسین کو ہی حاصل ہے کہ اُنہوں نے قائد کی بلا معاوضہ خدمت انجام دی اورتحفہ میں اُن کے ہاتھ سے لکھا ہوا تعریفی سرٹیفکیٹ حاصل کیا۔اِس قیمتی ترین تحفہ کو مجاہد حسین نے ہمیشہ اپنی متاع ِحیات بنائے رکھا۔ مجاہد حسین نے1933ء میں لوئر ڈویژن کلرک کی حیثیت سے سرکاری نوکری کا آغاز کیا۔1940ء میں محکمہ سپلائی سیکرٹری کے پرسنل اسسٹینٹ بنےاور1944ء میں اُنہیں حکومت ِہند کے محکمہ سپلائی میں انسپکٹر بنادیا گیا۔قیام پاکستان کے بعد مجاہد حسین محکمہ انکم ٹیکس میں اسسٹینٹ رجسٹرار تعینات ہوئے۔1963ء میں ملازمت سے سبکدوشی کے وقت وہ وزات ِ قانون میں جائنٹ سیکرٹری کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے تھے۔ مجاہد حسین کی کامیابی میں اُن کی ذاتی محنت،کام سے لگن اور ایمانداری و ذمہ داری سے فرائض کی انجام دہی کار فرما رہی۔اُن کی اِس کامیابی میں اُن کی بیگم ''صبح مجاہد'' کی کوششوں کا بھی بہت عمل دخل رہا۔جن تحرک پر اُنہوں نے قانون کا امتحان پاس کرکے اپنے بچپن کے دیرینہ خواب کی تعبیر حاصل کی ۔ اُنہوں نے مسلسل سولہ سولہ گھنٹے کام کیا۔اُنہیں اِس بات کے اعتراف میں کبھی کوئی جھجک محسوس نہیں کی کہ محنت،اُصول اور فرائض کو پوری ذمہ داری سے سرانجام دینا ایک انگریز سیکرٹری سے سیکھا،مگر زندگی کا جو سلیقہ اُنہیں قائداعظم کے اسٹینو گرافر کی حیثیت سے حاصل ہوا ،اُس نے ہمیشہ کے لیے اُن کی راہوں میں روشنیاں بکھیر دیں۔مجاہد حسین نے دو بیٹے اور ایک بیٹی یاد گار چھوڑے۔بین الاقوامی شہرت یافتہ پاکستان کے معروف انگلش کرکٹ کمنیٹیٹر''چشتی مجاہد'' مجاہد حسین کے سب سے بڑےصاحبزادے ہیں۔ (کتاب :۔''روحوں کے رشتے''کے باب '' رازِ درونِ پردہ'' سے ماخوذ،از :۔صبح مجاہد۔مجاہد حسین۔طبع دوم 1978ء،مشہور آفسٹ پریس کراچی)
|