رشتوں میں بھروسہ اورموبائیل میں نٹ ورک نہ ہو تو ہم گیمز
ہی کھیلنا شروع کر دیتے ہیں سچ ہے نہ یہ میرے لوگو!مگر میں تو یہ کہوں گا
کہ موبائیل چھرڑ دو اس سے پہلے کہ موبائیل ہمیں چھعڑ دے۔ہنسی والی بات لگ
رہی ہو گی مگر یہ بڑی سنجیدہ بات ہے اگر ہم سمجھنا چاہیں تو!موبائیل کو ہم
نے رحمت کے بجائے زحمت بنا دیا جونک کی طرح ہم نے اس کو اپنے سے چپکا دیا
ہے۔موبائیل فون کی حثیت درحقیقت اس تلوار و نشتر کی ہے جس کا جائز و ناجائز
استعمال فون کے مالک کے اختیار میں ہے۔جدر نظر جائے جسے دیکھو بچہ ہے کہ
بڑا،مرد ہے کہ عورت،امیر ہے کی غریب ہر ایک کے ہاتھ میں یا کان کے ساتھ لگا
ہوا کھلونا۔کھلونا ہی تو ہے جو ہر کوئی ہر طرح سے اس کے ساتھ کھیلتا
ہے۔اگرچہ مثبت تبدیلیاں بھی آئی اس کے ساتھ،فاصلے کم ہوئے،بزنس اس کی وجہ
سے تیز ہوا،گھنٹوں کا کام منٹوں میں اور منٹوں کا کام سیکنڈوں میں ہوا۔جہاں
کھڑے ہوں وہاں سے رابطہ ممکن ہے۔جب ایسی سہولیات میست ہوں تو کون اس کو
تصرف میں نہ لائے۔ہر طبقہ ہر شعبہ سے وابستہ لوگ اس سے مستفید ہو رہے
ہیں،خاص کر نوجوان لڑکے لڑکیوں کا تو جز،فیشن بن چکا ہے۔ناشتہ بھلے نہ ملے
موبائیل میں بیلنس چائے۔موبائل فون نے انقلاب برپا کر دیا تو مگر انسانی
زندگیوں میں زہر بھی گھول دیا۔موبائیل ضرورت نہیں مجبوری بنا دیا ہم لوگوں
نے،جو ڈوبے تو ڈوبتے ہی چلے گئے۔نوجوان نسل خاص کر اپنوں سے دور ہوتی جا
رہی،برائیوں میں اضافہ ہوتا جا رہا۔جہان بچوں کو چپ کرانے کے لئیے فون میں
وڈیو لگا کے دی جاتی ہوں،وہاں اس کے مثبت اثرات کی کیا بات کی جائے،منفی
اثرات اتنے ہیں کہ مثبت کی طرف نظر ہی نہیں جاتی۔یہ دور ٹیکنالوجی کا دور
ہے،ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے مگر اس بات کا خیال مدِ نظر رکھ کے
استعمال کیا جائے کی یہ ہماری ضرورت ہے ضرورت کے تحت اس کا استعمال کیا
جائے والدین کچھ کنٹرولنگ تو رکھیں،نوجوان نسل اس کو فیشن سنجھ کے وقت کا
ضیائع نی کرٰیں کہ اپنا ضیائع کر بیٹھیں۔
خریت مرہون ہو کے رہ گئی ہے فون کی
آج کل کوئی کشش ہوتی نہیں ہے خون کی
|