عیدالفطرکا روز سعید اہم اسلامی تہوار ہے جو پوری دنیا
میں رمضان کے اختتام پر یکم شوال کو بڑے جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔یہ دن
اس خوشی میں منایا جاتا ہے کہ رمضان کے جو روزے ہم پر فرض کئے گئے تھے، اﷲ
تعالیٰ نے اس کوپورا کرنے کی ہمیں توفیق بخشی اور اس کی برکتوں سے مالا مال
کیا۔ رمضان کا مقصد اپنے اندر تقویٰ کی صفت پیدا کرنا اور ایک مہینے میں
ایسی تربیت حاصل کرنا ہے جس کا اثر سال کے باقی دنوں میں بھی نظر آئے۔عید
کا مقصد بے جا خوشی اور خرافات نہیں بلکہ یہ دن خدا کے شکر اور عبادت کا
ہے۔اپنے خالق سے اپنا تعلق مضبوط بنانے کادن ہے۔اﷲ تعالی ٰسے روحانی رشتہ
استوار کرنے کا دن ہے۔عید کا دن اپنے اندر خاص مقصد رکھتا ہے۔اس دن صرف نئے
نئے ملبوسات زیب تن کرنا کافی نہیں بلکہ دل ودماغ بھی صاف رکھنا ضروری
ہے۔عید دسترخوان سجانے کا نہیں بلکہ کردار سنوارنے کا نام ہے۔ہمیں اس دن بے
جا دولت لٹانے کے بجائے کسی خاندان کو معاشی طور پر خودکفیل بنانے کی فکر
کرنا چاہئے۔ صرف عید ہی کے دن نہیں بلکہ پورے سال ہمیں غریبوں کی فکر کرنے
کی ضرورت ہے۔جب تک ہم عید کا تہوار غریبوں کے ساتھ مل کر نہیں منائیں گے،
اس وقت تک ہم عید کی حقیقی خوشیوں سے محروم رہیں گے۔عید کا یہ دن ہمیں خوشی
کا موقع فراہم کرنے کے ساتھ اخوت اور اجتماعیت کی تربیت دیتا ہے۔خود
احتسابی اور شکر گزاری کی دعوت دیتا ہے۔ ایک مسلمان پورا ماہ رمضان اﷲ کی
رضا اور اس کے احکامات کی روشنی میں بھوک و پیاس کی مشقتیں برداشت کرتا
ہے،اپنی نفسانی خواہشات کو دباتا ہے تو پھر عیدالفطر کے دن اسے جو طبعی
خوشی ہوتی ہے اس کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتا۔ اسی طرح رات کو تراویح اور
قیام الیل کے ساتھ ساتھ جب اﷲ کا عاجز و مسکین بندہ رمضان میں صدقات و
خیرات کرکے فارغ ہوتا ہے تو وہ ایک خاص لذت اور فرحت محسوس کرتا ہے اور
شکرانے کے طور پر’’ دوگانہ‘‘ ادا کرتا ہے۔حضور نبی کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ
وسلم نے پہلی نماز عید (عیدالفطر) سن2 ھجری میں ادا کی اور پھر اسے کبھی
ترک نہیں فرمایا، لہذا یہ نماز واجب کے درجہ میں ہے اور بعض علماء احناف کے
نزدیک سنت موکدہ ہے۔عید الفطر کے دن کی اہمیت و فضیلت بارے متعدد احادیث
موجود ہیں اور قرآن مجید کی آیات میں بھی اس کی جانب اشارہ موجود ہے۔ حضرت
ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ اپنی عیدوں کو تکبیروں سے زینت بخشو،
حضور اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جس شخص نے عید کے دن300 مرتبہ
سبحان اﷲ و بحمدہ پڑھا اور مسلمان متوفی روحوں کو اس کا ثواب ھدیہ کیا تو
ہر مسلمان کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل ہوتے ہیں، جب وہ مرے گا تو اﷲ
تعالیٰ اس کی قبر میں ایک ہزار انوار داخل فرمائے گا۔ ایک حدیث میں نبی
کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص ثواب کی نیت کرکے دونوں
عیدوں میں جاگے اور عبادت میں مشغول رہے گا اس کا دل اس دن نہ مرے گا جس دن
سب کے دل مر جائیں گے ۔ حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اس روز سعید کے
بارے میں فرمایا’’ یوم اکل و شرب و بعال‘‘ آج کا یہ دن کھانے پینے اور
ازدواجی مسرتوں کا دن ہے۔یکم شوال یعنی عیدالفطر کے دن کوئی انتہائی پرہیز
گاری دکھانے کے لئے روزہ رکھنا چاہے تو شریعت میں اس کی اجازت نہیں دی جائے
گی۔ اور یہ روزہ حرام اور ناجائز ہوگا جس کا توڑنا ضروری ہے۔ عید الفطر
اجتماعیت کا مظہر اور علامت و نشانی ہے۔ یہ تہوار عدل و مساوات اور اتحاد و
یکجہتی و امن و سلامتی کا پیغام دیتا ہے،خاندان اور برادری کی بنیادپر
فوقیت اور بے جا برتری کی نفی کرتا ہے، عید کی دوگانہ نماز ادا کرتے وقت
مسلمان ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے ہیں یہاں ادنی و اعلیٰ اورآقا و غلام کے
درمیان کوئی فرق نہیں رہتا، ایک امام کی اقتدا میں سارے نمازی ایک ہی طرح
سے نماز ادا کرتے ہیں۔ دوسری قوموں اور دیگر اقوام و مذاہب کی طرح ہماری
عید اور ہمارا تہوار رقص و سرور ناچ اور گانا یا موج و مستی کا نام نہیں ہے
بلکہ اسلام میں عید کی بنیاد اور احساس روح کی لطافت و پاکیزگی قلب کے
تزکیہ جسم و بدن اور روح و دماغ کی طہارت، ایثار و ہمدردی، اتحاد و اتفاق
،قومی و ملی اجتماعیت و یکجہتی اور انسانیت و مساوات، عاجزی و انکساری اور
صلاح و تقوی پہ قائم ہے۔ عید صرف ظاہری اور علامتی خوشی و مسرت اور رواجی
شادمانی کا نام نہیں بلکہ مذہبی تہور ملی شعار اور عبادتوں کے بدلے کا دن
ہے۔ یہ انعام کی رات اور اﷲ سے اپنی پوری پوری مزدوری اور انعام لینے کی
رات ہے۔ اس رات اﷲ تعالیٰ بندوں کو انعام سے نوازتا ہے۔ اور فرشتوں سے سوال
کرتا ہے کہ بتاؤ جس مزدور نے پوری مزدوری کی اور اپنا حق ادا کردیا اس کو
کیا انعام ملنا چاہیے۔عید سعید کی بے شمار مصلحتیں اور مقاصد ہیں اس عید پر
اﷲ تعالیٰ نے خاص طور پر اور تاکید کے ساتھ مسلمانوں پر یہ ذمہ داری عائد
کی ہے کہ وہ اپنی خوشیوں میں غریبوں کو ضرور شریک کریں۔ روٹھے ہوؤں کو
منائیں، بچوں سے پیار کریں۔ بڑوں سے تعظیم و اکرام سے پیش آئیں اور خاص طور
پرغربت و افلاس کے ماروں کو تلاش کرکے گلے سے لگائیں۔عید الفطر کی نماز ادا
کرنے سے قبل فطرانہ ادا کرنا ضروری قرار دیا گیا ۔لیکن دیکھا گیا ہے کہ بعض
لوگ عین نماز عید کی ادائیگی سے قبل فطرانے کی رقم غریب و نادار لوگوں کو
دیتے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ضرورت مندوں کو عید سے قبل فطرانے کی
رقم ادا کرنے کی کوشش کریں تاکہ لوگ عید کی خوشیوں سے مستفید ہو سکتے ہیں
۔عید کے دن اﷲ تعالیٰ اپنے انعامات کی بارش کرتا ہے اور صدقہ فطر کی بدولت
رمضان میں ہونے والی کوتا ہیوں کو معاف کردیتا ہے ایک حدیث میں آتا ہے کہ
روزہ زمین و آسمان کے درمیان معلق رہتا ہے جب تک کہ صدقہ فطر ادا نہ کیا
جائے۔ خدا کرے عید کے اس پیغام کو ہم سمجھیں اور اپنی خوشیوں میں سب کو
شامل کریں۔ اﷲ تبارک و تعالیٰ ہم سب کو ان تمام باتوں پر عمل کرنے کی توفیق
عطا فرمائے ۔اورہمیں عید کی حقیقی خوشی نصیب فرمائے۔
|