سیاست، سوشل میڈیا اور اخلاقیات کی پامالی

وطن عزیز کی سیاست میں عدم برداشت ، گالم گلوچ ، الزام تراشی ، کردار کشی اور اخلاقیات کی پامالی کوئی نئی بات نہیں پاکستان کی سیاسی تاریخ اس طرح کے افسوسناک واقعات سے بھری پڑی ہے جس میں سیاستدانوں نے ایک دوسرے کی مخالفت میں اخلاقیات کی تمام حدوں کو پھلانگ کر کردار کشی کی بدترین مثالیں قائم کیں محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف غلط زبان استعمال کی گئی محترمہ بینظیر بھٹو کی عریاں تصاویر ہیلی کاپٹر سے پھینکی گئیں مخالفین کے خلاف غلط زبان استعمال کی گئیں الزامات لگائے گئے مگر آج سوشل میڈیا پر اخلاقیات کا جس طرح جنازہ نکالا جارہا ہے یہ صورتحال پہلے سے کہیں زیادہ سنگین ہے پہلے تو محض پرنٹ میڈیا ہوتا تھا مگر اس وقت اخبارات کے بھی اصول اور ضوابط ہوتے تھے جس کی وجہ سے اس طرح کی کوئی بات پردے میں کی جاتی تھی لفظوں کے استمال میں احتیاط کی جاتی تھی عزت نفس کا خیال رکھا جاتا تھا مگر آج ٹیکنالوجی کے دور میں الیکٹرانک میڈیا اور خاص طور پر سوشل میڈیا میں آنے والی جدت نے جہاں پوری دنیا کو سمیٹ کر انگلیوں کی پوروں تک محدود کر دیا ہے اور بہت سی آسانیاں پیدا کر دیں ہیں مگر مواصلاتی فاصلے کم ہونے کے باوجود دلوں میں فاصلے بڑھا دئے ہیں رابطے بھی بڑھ گئے ہیں فاصلے بھی بڑھ گئے ہیں لوگ قریب تو ہوتے ہیں مگر ساتھ نہیں ہوتے۔ پہلے اختلاف میں احترام کا عنصر موجود تھا اختلاف اور نفرت میں فرق تھا لوگوں میں سردی گرمی بھی ہوجاتی تھی سیاسی لڑائیاں بھی ہوتی تھیں تنازعات بھی جنم لیتے تھے مگر اس کے باوجود گنجائش ہوتی تھی واپسی کے دروازے بند نہیں ہوتے تھے برداشت ہوتی تھی مگر آج سوشل میڈیا کے دور میں صورتحال مختلف ہے. کوئی نہیں جانتا معلوم سوشل میڈیا کے کسی بھی فورم پر بنائے گئے اکاؤنٹ کے پیچھے کون ہے تصویر کس کی ہے نام کس کا ہے حقیقت کیا ہے بظاہر کیا نظر آرہا ہے اور پس پردہ مقاصد کیا ہیں اور پھر اس سے بھی آگے سوشل میڈیا پر ہر شخص دانشور ہے ہر شخص صحافی ہے ہر شخص وکیل ہر شخص جج ہے ہر شخص تجزیہ کار ہے ہر شخص سیاستدان ہے اور ہر شخص عالم دین ہے کوئی قانون سکھاتا اور کوئی فتوے دیتا نظر آتا ہے کوئی حب الوطنی کے سرٹیفكیٹ دیتا دکھائی دیتا ہے اور جس کا دل چاہتا ہے جس کو غدار قرار دے دیتا ہے۔

یہ بات درست ہے کہ سوشل میڈیا کے فورمز پر لوگ مختلف معاملات پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہیں رائے کا اظہار شعور اور ایک زندہ معاشرے کی علامت ہوتا ہے مگر رائے دینے اور رائے ٹھونسے میں فرق ہوتا ہے بدقسمتی سے ہم اس فرق کو نظر انداز کر بیٹھے ہیں یہی وجہ ہے ہر شخص انفرادی طور پر اور کسی سیاسی جماعت سے وابستگی کی صورت میں اجتماعی طور پر اس بات پر بضد دکھائی دیتا کہ وہ جو کچھ کہہ رہا ہے یا اس کا لیڈر جو کہہ رہا ہے وہی حق اور سچ ہے اور جو اسے نہیں مانتا وہ باطل ہے غدار ہے جھوٹا ہے یہاں تک کہ بعض اوقات اسے دین سے بھی خارج کر دیا جاتا ہے اس کی سب سے اہم وجہ ہماری سیاسی جماعتیں اور ہمارے سیاستدان ہیں اور پھر ریاست کو بھی اس سے بری الزمہ قرار نہیں دیا جاسکتا کیونکہ تربیت ہی کردار کی بنیاد ہوتی ہے مگر ہماری بنیاد کمزور ہے تو کردار کیسے مضبوط ہوسکتا ہے کسی نے کبھی بھی اس حساس مسئلے کو سنجیدگی سے نہیں لیا کسی نے بھی آج تک اپنے سوشل میڈیا کارکنوں کی اخلاقی تربیت پر غور نہیں کیا کیونکہ ان کا مقصد ایک باکردار معاشرہ نہیں بلکہ ہر قیمت پر اپنے مخالفین کی کردار کشی ہوتی ہے اور نوجوانوں کو استعمال کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنے ہوتے ہیں تو ایسے میں کوئی جماعت کس طرح اپنے کارکنوں کی اخلاقی تربیت کا خطرہ مول لے سکتی ہے یہی وجہ سوشل میڈیا پر ہمیشہ اودھم مچا رہتا ہے ہمیشہ جنگ کا ماحول رہتا ہے گالم گلوچ تو ایک عام سی بات ہے بات اگر لفظی جنگ تک رہتی تو بھی قابل برداشت تھی مگر بات بہت آگے بڑھ چکی ہے مختلف ایپ استعمال کر کے ایسی غیر اخلاقی ویڈیوز کا سلسلہ چل نکلا ہے کہ جن کے بارے میں کبھی تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا سر کسی کا دھڑ کسی کس آواز کسی کی اور کردار کسی کا نہیں معلوم یہ سلسلہ کہاں پر جاکر رکتا بے۔

یاد رکھئے بہت کچھ بگڑ چکا ہے مگر سب کچھ نہیں بگڑا اب بھی وقت ہے صورتحال کو کنٹرول کیا جاسکتا ہے معاملات کو بہتر کیا جاسکتا ہے مگر اس کے لیے سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کو ذات کے خول سے نکل کر ملک اور قوم کے لیے سوچنا ہوگا اور خاص طور ان نوجوانوں کے متلعق سوچنا ہوگا جنہوں نے آگے چل کر ملک کی باگ ڈور سنبھالنی ہے وقت کی اہم ضرورت ہے سیاسی کارکنوں کی اخلاقی تربیت کی جائے اختلاف اور نفرت میں فرق واضح کیا جائے سیاستدانوں کو اس طرح کا لب و لہجہ استمال کرنے سے گریز کرنا چاہئے جس سے نچلی سطح پر اشتعال پیدا ہو اس طرح کا رویہ نہیں اپنانا چاہئے جس سے سوسائٹی میں نفرت کو فروغ ملے معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہو کیونکہ عدم برداشت اور نفرت کی یہ آگے جس طرف سے بھی جلائی جائے گی نقصان اس ملک کا ہوگا پوری قوم کا ہوگا اور ہم سب کا ہوگا یقیناً کوئی بھی شخص نہیں چاہئے گا کہ اس ملک کا نقصان ہو حکومت اپوزیشن سمیت پوری سیاسی قیادت کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہوتی ہے لیکن اگر اختلاف کو نفرت میں بدل دیا گیا تو نہ صرف پورا معاشرہ بدصورت ہوجائے گا بلکہ ہم نفرت کی ایک ایسی دلدل میں دھنس جائیں گے جس سے نکلنے کے لیے کئی نسلوں کو قیمت چکانی پڑے گی۔
 

 

Mazhar Iqbal Khokhar
About the Author: Mazhar Iqbal Khokhar Read More Articles by Mazhar Iqbal Khokhar: 57 Articles with 37592 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.