ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

سیاست کا گورکھ دھندا بھی بڑا عجیب و غریب بلکہ عجیب و امیر ہے کیو نکہ غریب یا عام آدمی کا مرکزی سیاست تو کیا گلی محلے کی سیاست میں بھی کوئی کردار نہیں رہا۔ پاکستان ہو یا دنیا کا کوئی بھی ملک آج کل سیاست میں منافقت نہ ہو تو کرسی ڈولتی نظر آتی ہے۔ محدود مدت کی یادداشت کے عارضے کا شکار بیچارے عوام بھی اب ان قلابازیوں کے عادی ہو چکے ہیں۔ بزرگوں سے سنتے آئے ہیں کہ سیاست عبادت کا دوسرا نام ہے لیکن ورطہ حیرت میں ڈوب میں جاتے ہیں کہ عبادت کس قدر ملاوٹ کا شکار ہو چکی ہے۔ جیسی عوام ویسے حکمران کے مصداق شاید ہم اسی قابل ہیں۔ پاکستان کے بیشتر سیاستدان ایک دوسرے کے تعلق دار یا زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر ’’اِک دوجے‘‘ سے یاد اﷲ ضرور رکھتے رہے ہیں۔ سیاسی شخصیات اپنے کارکنوں کو ایک دوسرے سے لڑوانے کاکام بڑی تندہی سے سر انجام دیتے آئے ہیں۔ دن بھر ٹیلی ویژن چینلز اور جلسے جلوسوں میں ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے والی یہ اشرافیہ عموماََ رات کو باہم ’’شیر و شکر‘‘ پائی جاتی ہے۔ آپ جمہوریت کا ’’حسن‘‘ دیکھیں کہ ایک ہی گھر میں تحریک انصاف کے اسد عمر اور (ن) لیگ کے زبیر عمر ہیں، دونوں مختلف عہدوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں۔ آج کل سابق وزیر اعلیٰ پنجاب پرویز الٰہی عمران خان کے طرفدار اور ان کے بڑے بھائی(ق) لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین اپنے وفاقی وزیر صاحبزادے ے ذریعے ’’اصولی‘‘ طور پر (ن) لیگ کی رسی تھامے ہوئے ہیں۔ آج کل زبان زد عام ’’فرح گوگی‘‘ (ن) لیگ سے تعلق رکھنے والے ایک رکن صوبائی اسمبلی کی بہو ہیں ۔ اس طرح کی بیسیوں مثالیں ہماری سیاست میں موجود ہیں ۔مجھ جیسا کج فہم انسان اکثر یہ سوچتا تھا کہ دن کی روشنی میں اپنے ہی سگے رشتے داروں پر اخلاق باختہ الزامات لگانے والے رات کو کس طرح آمنا سامنا کرتے ہوں گے؟غالبؔفرماتے ہیں
صبح کو راز مہ و اختر کھلا
ہیں کواکب کچھ، نظر آتے ہیں کچھ

شومئی قسمت دیکھئے کہ ان سیاسی شخصیات کے پیچھے لگ کر دوست دوستوں سے باہم دست و گریباں اور گالم گلوچ کرتے نظر آئیں گے۔ رشتہ دار اپنے رشتوں میں سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر دراڑیں ڈالتے اور نوجوان بزرگوں پر کیچڑ اچھالتے ہوئے اخلاقیات کی حدود و قیود عبور کرتے دکھائی دیں گے۔ خبریں تو یہاں تک بھی سنی ہیں کہ سیاسی وابستگیوں پر گھر آئی باراتیں لوٹ گئیں۔ چند سال قبل تک پاکستان میں مذہبی و لسانی شدت پسندی عروج پر تھی جسے آج کل سیاسی شدت پسندی نے پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ اس موضوع پر ایک مفصل مضمون بعنوان ’’سیاست میں عدم برداشت کا کلچر‘‘ بھی لکھ چکا ہوں کہ ’’شاید کہ تیرے دل میں اتر جائے میری بات‘‘۔ چندر روز قبل استاد محترم شاہزاد انور فاروقی سے نوائے وقت میں ہی خصوصی گفتگو رہی ۔کہنے لگے کہ ’یار آج کل کے سیاسی حالات سے میں شدید ڈرا ہوا ہوں اور اتنا میں زندگی میں کبھی خوفزدہ نہیں ہوا۔موجودہ سیاسی ماحول پاکستان کو کس طرف لے جائے گا، کسی کو معلوم نہیں۔‘ایسے ہی خیالات وطن عزیز سے محبت کرنے والے تقریباََ سبھی سنجیدہ پاکستانیوں کے ہیں۔ جہاندیدہ شخصیات کے یہ خدشات بلا جواز نہیں بلکہ آنے والے دنوں کی جھلک دکھا رہے ہیں۔ تحمل مزاج ، بردبار اور معاملہ فہم بزرگ سیاستدانوں کی موجودہ حالات میں خاموشی جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہے۔ کئی چہرے ایسے ہیں جو معاملات کو سلجھاؤ کی طرف لے جا سکتے ہیں لیکن وہ بھی خدا جانے کس مصلحت کے تحت خاموش ہیں۔ کارکنوں کی کارکنوں سے لڑائی تو عرصہ دراز سے جاری ہے تاہم یہ لڑائی اب مرکزی رہنماؤں کی بازاروں اور ایئرپورٹس میں پٹائی تک پہنچ چکی ہے۔ شاید اس لڑائی کے سیاسی رہنماؤں کے گھرو ں تک پہنچنے کا انتظار کیا جا رہا ہے۔

اس وقت سوشل میڈیا ایک بہت بڑے بلکہ سب سے بڑے پروپیگنڈہ ٹول کے طور پر استعمال ہو رہا ہے۔دھڑا دھڑ جعلی معلومات، کردار کشی پر مبنی مواد، جعلی تصاویر اور جعلی وڈیوزپھیلائی جا رہی ہیں اور یہ کام سیاسی جماعتوں کی باقاعدہ سرپرستی میں کیا جا رہا ہے۔ ایک دو روز سے سوشل میڈیا پر کچھ اخلاق باختہ وڈیوز کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ ٹیکنالوجی کا یہ دور ’’سیاسی جغادریوں‘‘ کے ہاتھوں استعمال ہو کر کیا گل کھلائے گا؟اﷲ جانے۔ ایک بات تو حتمی ہے اور وہ یہ کہ حالات سدھار کی جانب بڑھتے دکھائی نہیں دے رہے ۔ شاید جب کبھی ’’اچھے دن‘‘ آئے تو اس وقت تک سیاسی الزامات، لڑائی جھگڑے، مغلظات، کھینچا تانی،اقتدار کی جنگ ، طاقت اور دولت کا حصول ہمارے معاشرے سے اخلاقیات، بھائی چارے، مذہبی، سماجی، لسانی ہم آہنگی سمیت دیگر کئی اقدار کے جنازے اٹھا چکے ہوں گے۔ اس وقت ہمارے پاس پشیمانی کے علاوہ کچھ نہیں بچے گا۔ قدرت ہمیں آخری مواقع فراہم کر رہی ہے کہ ہم اپنا قبلہ درست کر لیں۔

Faysal Azfar Alvi
About the Author: Faysal Azfar Alvi Read More Articles by Faysal Azfar Alvi: 7 Articles with 4251 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.