ابھی حال ہی میں 75ویں ورلڈ ہیلتھ اسمبلی جنیوا میں منعقد
ہوئی ہے جس میں دنیا بھر سے صحت کے حکام نے عوام کی جانی سلامتی اور شعبہ
صحت میں درپیش چیلنجز سے نمٹنے پر جامع تبادلہ خیال کیا ہے۔اس موقع پر
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے دنیا کو ایک مرتبہ پھر متنبہ کیا کہ
اگرچہ بہت سارے ممالک نے انسداد وبا کی پابندیاں اٹھا لی ہیں مگر کووڈ۔19
کی وبائی صورتحال بدستور جاری ہے ۔یہ امر تشویشناک ہے کہ تا حال ڈبلیو ایچ
او کے پاس وبا کے باعث 6 ملین سے زائد اموات کی اطلاعات ہیں، لیکن تنظیم کے
تازہ ترین اندازوں سے پتہ چلتا ہے کہ اموات کی اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ
ہے اور تقریباً 15 ملین اموات کا تخمینہ ہے۔ڈبلیو ایچ او کے سربراہ ٹیڈروس
ایڈاہانوم گیبریسس کے مطابق" بہت سے ممالک میں تمام پابندیاں ہٹا دی گئی
ہیں اور زندگی وبا سے پہلے جیسی نظر آتی ہے،تو کیا وبا ختم ہو چکی ہے؟
نہیں، یہ یقینی طور پر ختم نہیں ہوئی ہے"۔
اس کا مطلب یہی ہے کہ اگرچہ دنیا کی 60 فیصد آبادی کو ویکسین لگ چکی ہے
لیکن وبا کا مکمل خاتمہ صرف اُسی صورت میں ممکن ہے جب دنیا کے تمام ممالک
کو وبا سے پاک اور وائرس کے پھیلاؤ سے محفوظ کر دیا جائے گا۔توجہ طلب بات
یہ ہے کہ کووڈ۔19کے نئے کیسز تقریباً 70 ممالک میں ایک ایسے وقت میں بڑھ
رہے ہیں جب ٹیسٹنگ کی شرح میں کمی آئی ہے اور اکثر علاقوں میں اموات کی
تعداد بھی بڑھ رہی ہے، خاص طور پر ایسے خطوں میں جہاں ویکسینیشن کی شرح کم
ترین ہے۔حقائق کے تناظر میں وائرس نے واقعی دنیا کو ہر موڑ پر حیران کیا
ہے، یہ ایک ایسے طوفان کی مانند ہے جس نے مختلف روپ دھارتے ہوئے معاشروں کو
بار بار تباہی سے دوچار کیا ہے، اور دنیا ابھی تک اس کے نئے روپ یا اس کی
شدت کا اندازہ لگانے سے قاصر ہے۔وائرس ٹرانسمیشن کی شرح میں اضافے کا مطلب
ہے زیادہ اموات، بالخصوص غیر ویکسین شدہ لوگوں کو وائرس میں آنے والے
تغیرات کے سبب زیادہ خطرے کا سامنا رہتا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ کم
آمدنی والے ممالک میں تقریباً 1 بلین لوگ ویکسین سے محروم ہیں جبکہ 57
ممالک نے اپنی آبادی کے 70 فیصد کی ویکسینیشن مکمل کی ہے،جو تقریباً تمام
بلند آمدنی والے ممالک ہیں۔
دوسری جانب ، جب زیادہ تر ممالک نے انسداد وبا کی پابندیوں میں نرمی لائی
ہے اور وائرس کے ساتھ زندگی گزارنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں، چین آج بھی
وبا کی روک تھام کے لیے زیرو کووڈ پالیسی پر ثابت قدمی سے عمل پیرا ہے۔کچھ
بیرونی میڈیا ادارے چین کی اس پالیسی کے سبب بھاری سماجی اور معاشی قیمت کا
حوالہ دیتے ہوئے زیرو کووڈ پالیسی کی پائیداری پر سوال اٹھاتے ہیں۔تاہم،
چین اقتصادی ترقی کو برقرار رکھتے ہوئے وائرس پر قابو پانے کے لیے پرعزم
ہے۔یہ حکمت عملی ملک میں حکومت کی جانب سے کمزور گروہوں کی جامع دیکھ
بھال،قیادت پر عوام کے پختہ اعتماد اور ملک کے مستقبل پر غیر متزلزل یقین
کا نتیجہ ہے۔
ذاتی مشاہدات کی روشنی میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ انسداد وبا میں نرمی دنیا
کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک کے لیے ہرگز موزوں نہیں ہے، جہاں 60 سال یا
اس سے زائد عمر کے 267 ملین بزرگ شہری ہیں، ملک میں 260 ملین افراد ایسے
ہیں جن کی صحت کی بنیادی صورتحال کسی وائرس سے لڑنے کی متحمل نہیں ہے اور
اس وقت بزرگوں اور بچوں کے لیے ویکسینیشن کی شرح بھی کافی زیادہ نہیں
ہے۔فرض کیا کہ اگر باقی دنیا کی طرح چین بھی وائرس کے ساتھ رہنے کی پالیسی
اپناتا ہے تو کیا خطرناک نتائج برآمد ہو سکتے ہیں ؟ اس حوالے سے دنیا کا
ممتاز طبی جریدہ" نیچر میڈیسن" کہتا ہے کہ اگر چین موجودہ زیرو کووڈ پالیسی
ترک کر دیتا ہے تو کووڈ۔19 کے باعث ملک میں 1.5 ملین سے زائد اموات کا
سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔اسی طرح معروف جریدے"لانسیٹ" میں شائع ہونے والی ایک
اور تحقیق کے مطابق زیرو کووڈ پالیسی کا تسلسل چین بھر کی مختلف کمیونٹیز
میں ایک مدافعتی قوت کے ساتھ ساتھ مختلف نوعیت کی کمزوریوں پر قابو پانے
میں انتہائی معاون ہے۔اسی پالیسی کے ہی ثمرات ہیں کہ چین کے مختلف علاقوں
بشمول بیجنگ ،شنگھائی میں وسیع پیمانے پر ٹیسٹنگ، قرنطینہ، عارضی لاک ڈاؤن
اور کلوزڈ لوپ مینجمنٹ کے تحت، وبا کی حالیہ اومیکرون لہر سے بھی کامیابی
سے نمٹا جا رہا ہے اور مسلسل بہتری کے آثار دکھائی دے رہے ہیں۔یہاں چین کی
اس کامیاب پالیسی کو سراہنے کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ 1.4 بلین آبادی کے
حامل ایک ترقی پذیر ملک کے طور پر، چین دنیا میں کووڈ۔19 انفیکشن اور اموات
کی شرح کو سب سے کم رکھنے میں کامیاب رہا ہے، جو ملک کی زیرو کووڈ پالیسی
کی تاثیر کا واضح ثبوت ہے۔
|