یتی نرسنگھانند کا کھلے عام اپنی غلطیوں کا اعتراف کرکے
معافی مانگنا یہ بتاتا ہے جو چیز ہمارے خواب و خیال سے پرے ہو وہ بھی ممکن
ہے۔ ایک زمانے میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف پروین توگڑیا کی زبان بہت
تیز ہوا کرتی تھی لیکن مودی جی تحفظ ہٹانے سے وہ کند ہوگئی ۔ فی الحال
پروین توگڑیا کی ’نہ گھر کا ہے اورنہ گھاٹ کا‘ ۔ سنگھ پریوار کے باہر لوگ
اس سے نفرت کرتے ہیں اور سنگھی حقارت سے دیکھتے ہیں۔ اپنی نفرت و عناد کی
آگ میں وہ خود جل رہا ہے۔ عذاب کی اس پہلی اور ہلکی قسط کے باوجود وہ اپنے
موقف پر اڑا ہوا ہے اور موقع بہ موقع مسلمانوں سمیت سنگھ پریوار پر بھی زہر
اگلتا ہے۔ توگڑیا کے بعد ہندوتوا کے افق پر یتی نرسنگھانند نمودار ہوا۔اس
نہایت زہریلے سانپ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف ناقابلِ تصور باتیں کہیں
مگر علی الاعلان نسل کشی کی دعوت دینے والے یتی نرسنگھانند گری نے اچانک
عوامی زندگی سے کنارہ کشی کا اعلان کرکے اپنی پرانی غلطیوں کے لئے معافی
مانگ لی ۔ دنیا کی عدالت اسے معاف کرے نہ کرے لیکن اللہ کے یہاں توبہ کا
دروازہ ہمیشہ کھلا رہتا ہے اور بعید نہیں کہ وہ مشرف بہ اسلام ہوکر اس دنیا
سے جائے۔ بڑے بڑے دشمنانِ اسلام دین رحمت کی آغوش میں پناہ لے چکے ہیں تو
یتی نرسنگھا نند کیا چیز ہے ۔ علامہ اقبال تو یہاں تک فرما چکے ہیں؎
ہے عیاں یورشِ تاتار کے افسانے سے
پاسباں مِل گئے کعبے کو صنَم خانے سے
مستقبل میں وہ پاسباں بنے گا یا پھر سے صیاد کا آلۂ کار بن جائے گا یہ
کوئی نہیں جانتا کیونکہ انسان کے ظاہر میں پوشیدہ باطن نظر نہیں آتا۔ اس
کے باوجود اپنی (گھناونی) عوامی زندگی چھوڑکر نئی زندگی (جو اس سے مختلف یا
متضاد ہو) شروع کرنے کا عزم قابلِ مبارکباد ہے ۔ باطنی تبدیلیاں چونکہ ظاہر
کا لبادہ اوڑھ کر نمودار ہوتی ہیں اس لیے نرسنگھانند کے اندربرپا ہونے والے
انقلاب کا اندازہ ظاہری واقعات کی مدد سے لگانا ایک مجبوری ہے۔ اس کا
مذکورہ ویڈیو جتیندر تیاگی عرف وسیم رضوی کی جیل سے رہائی کے موقع پر جاری
ہوا ۔ موجودہ دور میں یہ ناممکن ہے کہ یتی نرسنگھا نند بغیر بتائے جتندر
تیاگی کے استقبال کی خاطر گیا ہو لیکن جس وقت یہ وفد وہاں پہنچا تو وہ نکل
چکا تھا ۔ جتندر تیاگی کا انتظار نہ کرنا اس بات کی علامت ہے کہ جن مفادات
کے حصول کی خاطر اس بدنصیب نے اپنے آبائی دین رحمت کو چھوڑ دیا تھا وہ
توقعات پوری نہیں ہوئیں۔ ممکن ہے کہ جتندر تیاگی کو جیل کی تنہائی میں اپنی
غلطی کا احساس ہوا ہو اور وہ تائب ہوگیا ہو ؟ واللہ اعلم ،ویسے اس کے تعلق
سے آنے والی خبریں اس کی تردید کرتی ہیں ۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ جب تک جتندر تیاگی نے وسیم رضوی کی حیثیت سے دنیا بھر
کی بدعنوانی کی اس کا بال بیکا نہیں ہوا لیکن ہندو مت اختیار کرنے کے
بعدمودی ،یوگی اور دھامی کی سرکاروں کے باوجود اسے چار ماہ جیل کی چکی
پیسنی پڑی۔ بزدل تیاگی کو میڈیا سے بات نہ کرنے کی شرط پر ضمانت ملی ہے اس
لیے وہ خوف کے مارے منہ چھپاکر رفو چکر ہوگیا۔ دیگر ذرائع سے اس کے بارے
میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وہ بھی یتی کی مانند سنیاس لینا چاہتا ہے۔
جتندر تیاگی کے اس فیصلے نے مختلف اکھاڑوں کے بیچ اختلاف پیدا ہوگیا ہے کچھ
تو اس کا یہ حق تسلیم کرتے ہیں مگر باقی کو اعتراض ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی
کتابوں میں اس کی نذیر تلاش کرنے کا بہانے سے ٹال مٹول کیا جارہا ہے۔اصل
سوال سنیاس لینے یا نہ لینے کا نہیں بلکہ بدعنوانی سے جو دولت جمع کی گئی
ہے اس کو لوٹانے کا ہے۔ جتندر تیاگی نامی مرتد مسلمانوں کی املاک کوسنیاس
کا چولہ اوڑھ کر نگل جانا چاہتا ہے۔ اس سارے ناٹک کامقصود چوری کے مال پر
غاصبانہ قبضہ باقی رہنا ہے کیونکہ ایک سنیاسی سے اس کی مسروقہ جائیداد چھین
کر بی جے پی ہندو رائے دہندگان کو ناراض نہیں کرسکتی۔ ۔
تیاگی کی بے رخی سے بددل ہوکر یتی نرسنگھا نند نے قطع تعلق کا اعلان کرتے
ہوئے کہا کہ’’ وہ (تیاگی) اور ہم یہاں تک ساتھ تھے‘‘۔ یعنی اب آگے یہ ساتھ
نہیں رہے گا ۔اس موقع پر یتی نے اعتراف کیا کہ ’’ میری وجہ سے وہ (جتندر
تیاگی) چار ماہ سے زیادہ جیل میں رہے، حالانکہ وہ مجرم نہیں تھے۔ انہوں نے
صرف سچ کہا۔ میں خود کو اس کا ذمہ دار سمجھتا ہوں‘‘۔ اس بیان کے اندر یتی
کی جتندر تیاگی کو چھڑانے میں ناکامی کا اعتراف موجود ہے۔ ممکن ہے یتی نے
سوچا ہو فی الحال جو کچھ جتندر تیاگی کے ساتھ ہوا ہو وہی معاملہ مستقبل میں
خود اس کے ساتھ بھی ہوسکتا ہے بلکہ اگر سرکار بدل جائے تو اور بھی بڑی
آزمائش آسکتی ہے۔ اس لیے اب عوامی زندگی (یعنی سیاست ) سے کنارہ کشی
اختیار کرکے اب اپنی باقی زندگی دھرم کرم میں گزارنا بھلائی ہے ۔ یتی کے
اندر آنے والی تبدیلی کا اشارہ اپریل 19, 2022 کو دئیے گئے بیان سے ملتا
ہے جس کہا گیاتھا ’’جو بھی ہندو اسلام کے جہاد سےلڑنے کی سوچے گا یا اس کے
بارے میں بات کرے گا ، اس کا انجام جتیندر نارائن سنگھ تیاگی جی جیسا ہی
کردیا جائے گا ۔یہ طے ہے۔ کیوں؟ کیونکہ ہندوؤں نے دکھایا ہے کہ ہندو کتوں
سے بھی بدتر ہیں، ہندو کوؤں سے بھی برے ہیں، ہندو بندروں سے بھی بدتر
ہیں۔‘‘
ہماچل پردیش کے اؤنا کی ’ اکھل بھارتیہ سنت پریشد‘ کے سہ روزہ دھرم سنسد
میں یہ بیان دیا گیا ۔ اس تبدیلی کے پیچھے دھرم سنسد س قبل ہماچل پردیش
پولیس کی جانب سے منتظمین کو بھیجے جانے والے نوٹس کا بڑ اہاتھ ہے۔ اس
تنبیہ میں لکھا گیا تھا کہ اگر دھرم سنسد میں کسی بھی برادری اور ذات کے
خلاف نفرت انگیز تقاریر کی گئیں تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔ انتظامیہ
بھی آسانی سے اس پر راضی نہیں ہوا بلکہ سپریم کورٹ کی ڈانٹ پھٹکار کر بعد
اسے یہ کرنا پڑا تھا ۔ عدالت عظمیٰ نے 17؍ اپریل کو اونا میں منعقد ہوئی
دھرم سنسدکے حوالے سے ہماچل پردیش حکومت کو نوٹس جاری کرکے پوچھا تھا کہ
ایسے معاملات کے لیے پہلے سے جاری کردہ ہدایات کی تعمیل کے لیے کیا اقدامات
کیے گئے ہیں؟ اس کے بعد 27؍ اپریل کو اتراکھنڈ کے روڑکی میں منعقد ہونے
والی دھرم سنسد کے لیے ریاستی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے عدالت نےکہا تھا
کہ اگر اشتعال انگیز تقاریرپر لگام نہیں لگی تو اعلیٰ حکام کو ذمہ دار مانا
جائے گا کیونکہ درخواست گزار قربان علی کے وکیل کپل سبل نے انتظامیہ پر
اشتعال انگیزی کو روکنے کے لیے ضروری اقدامات نہیں کرنے کا الزام لگایا تھا
۔ 22 اپریل کو عدالت نے دہلی میں 19 دسمبر 2021 کو منعقدہ ہندو یوا واہنی
کے پروگرام پر پولیس کے جواب کو مسترد کرکے نیا حلف نامہ داخل کرنے کی
ہدایت دی تھی کیونکہ اس نےسدرشن ٹی وی کے اینکر سریش چوہانکے کو کلین چٹ دے
دی تھی۔
عدالت کے اس کڑے رخ کی وجہ سے انتظامیہ نے دھرم سنسد پر جوشکنجہ کسا تو اس
کا اثر یہ ہوا کہ دسمبر 2021 کی ہری دوار سنسد میں مسلمانوں کی نسل کشی کا
اعلان کرنے والے یتی نرسنگھا نند کا غم وغصہ مسلمانوں کے بجائے ہندو سماج
اور ہندوتواوادی سرکار کے خلاف ہوگیا۔ جتندر تیاگی کو گرفتار کرنے کا کام
دراصل ہندو سماج نے نہیں بلکہ سرکار نے کیا تھا ۔ ویسے گرفتاری تو یتی
نرسنگھا نند کی بھی ہوئی تھی مگر اسے جلد ضمانت مل گئی اور جتندر تیاگی کو
طویل تر وقت جیل میں گزارنا پڑا ۔ اس معمولی سی گرفتاری نے ان ہندوتوا کے
ویر بہادروں کی ہیکڑی نکال دی جو وطن عزیز کے اندر مسلمانوں کی نسل کشی کا
اعلان کرتے ہیں اور ملت کے دانشور حضرات امریکہ کی ’جینوسائڈ واچ‘ کا حوالہ
دے کر اس پر ایمان لے آتے ہیں ۔
یتی نرسنگھانند جیسے نام نہاد ہندو دھرم گرو ہوں یا جتندر تیاگی جیسے ابن
الوقت ، ان سب کی دلیری سرکاری سرپرستی کے مرہونِ منت ہے۔ جہاں ڈبل انجن
سرکار ہوتی ہے یہ شیر بن جاتے ہیں اور جب حکومت ان کو ٹیشو پیپر کی مانند
استعمال کرکے پھینک دیتی ہے تو عقل ٹھکانے آجاتی ہے۔ یتی نرسنگھانند نے
خواب میں بھی نہیں سوچا ہوگا کہ انہیں جیل جانا پڑے گا یہی وجہ ہے کہ جب
یتی ضمانت پر باہر آئے تو سب سے پہلے انہوں نے نسل کشی کے اعلان سے گریز
کرتے ہوئے ہندووں کو مسلمانوں سےتحفظ کی خاطر اسلحہ رکھنے کی ترغیب دی ۔ اس
پر بھی شور ہوا ورضمانت رد کرنے کا مطالبہ کیا گیا تو یتی نے اگلی دھرم
سبھا میں ہندووں کو زیادہ بچے پیدا کرنے پر ابھارا گیا۔ سادھو سنتوں کے
ایسے مطالبات کا کوئی اثر نہیں ہوت کیونکہ عام لوگوں کو زیادہ بچے پیدا
کرنے کی تلقین کرنےوالےخود برہما چاری بنے رہتے ہیں ۔ جتندر تیاگی طویل
گرفتاری نے یتی نرسنگھانند کو مایوس کردیا اور سرکار پر برسنے کے بعد
بالآخر عوامی زندگی سے سنیاس لے لیا ۔ اس موقع پر اپنی ماضی کی غلطیوں کا
اعتراف کرکے معافی مانگنا خوش آئند بات ہے۔ ایسے میں غالب کا مشہور شعر
یاد آتا ہے(حالانکہ یتی نے قتل کے بجائے صرف ارادہ کیا تھا)؎
کی مرے قتل کے بعد اس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا
|