"یوم تکبیر "جب قوم نے دشمن کو اسکی زبان میں جواب دیا

یوم تکبیر پاکستانی تاریخ کا وہ باب ہے کہ جس پر ہر محب وطن پاکستانی فخر محسوس کرتا ہے۔ اس دن قوم کو یہ اطمینان میسر آیا کہ اب وہ وقت نہیں رہا کہ کم ظرف دشمن منہ اٹھا کر اسکی سرحدوں میں گھس جائے۔
یوم تکبیر ! وہ دن کے جس نے امت مسلمہ کی خوشیوں کو دوبالا کردیا کہ جس دن فلسطین کے مسلمانوں نے کہا کہ آج ہم اکیلے نہیں رہے۔ وہ دن کہ جس کے برپا ہونے پر ریاست پاکستان کو اسلامی دنیا کا قلعہ باور کرایا گیا۔ وہ دن کہ جس کے باعث دشمن کی نیند حرام ہوئی۔ وہ دن کے جس کے بدولت آج ریاست خداداد پاکستان کا دفاع ناقابل تسخیر ہوا۔ آج کے دن قوم کے غموں (مشرقی پاکستان کی علحیدگی)کا مداوا ممکن ہوا۔ آج کے دن قوم کو یہ احساس ہوا کہ اس کے پڑوس میں موجود کم ظرف دشمن اب اسکی سرحدوں کو میلی آنکھ سے نہیں دیکھ سکے گا کہ جسکے رہنما اور سیاسی قیادت اس ریاست کے ازلی دشمن ہیں اب وہ بےدھڑک حملہ کرنے کے قابل نہیں رہے۔

متعصب بھارتی قیادت نے اول دن سے پاکستان کے وجود کا انکار کیا ہے۔ بھارتی قیادت کا مسلمانوں سے بغض اول دن سے عیاں ہے اور اس آگ میں جلتے ہوئے اس نے نہ کبھی ریاست پاکستان کو تسلیم کیا بلکہ اسکو ہر بار اندرونی اور بیرونی سطح پر کمزور کرنے میں اپنا معاشی، سیاسی و معاشرتی کردار ادا کیا ہے۔ اسکا اظہار اس نے کبھی معاہدوں کی خلاف ورزی،جنگ،پاکستان میں ہونے والے اندرونی فسادات کا نگہباں بن کر کیا ہے۔ بھارتی قیادت کی نفرت کی بنیاد یہی ہے کہ وہ ایک آزاد اسلامی ریاست کا وجود برداشت نہیں کرسکتی اسکی وجہ اسکے "اکھنڈ بھارت" کے جیسے مذموم مقاصد کا اس ریاست کے وجود کے باعث نہ مکمل ہونا ہے

آج کشمیر تنازع اپنی شدت کےساتھ دنیا کو اپنے اوپر ہونے والے مظالم کے حوالے سے آگاہ کررہا ہے مگر مجال ہے جو عالمی امن کے "علمبرداروں" کے کان پر جوں بھی رینگ جائے۔ بھارتی ریاست کا مسلم دشمنی پر مبنی بل بھی بھارت میں مسلمانون کیلئے جگہ تنگ کرنے کی ایل کڑی ہے۔اقلیتوں کے حقوق پر آسمان سر پر اٹھانے والے آج بھارت میں ہونے والے مظالم پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ اس دوغلے پن کو قائداعظم(رح) نے اپنی مومنانہ بصیرت اور اپنے سیاسی تجربے کی روح سے پہچانا اور پاکستان کے لیئے عملی جدوجہد کا آغاز کیا۔بدقسمتی سے ریاست پاکستان اپنی آزادی کے چند عرصے بعد ہی سیاسی قیادت کے بحران سے دوچار ہوئ اور مفاد پرست حکمران طبقے نے اسکو اپنے مفادات کی بھینٹ چڑھا کر اسکو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جس کا خمیازہ پچھلی کئ دہائیوں سے اس ملک کے باشندہ بھگت رہے ہیں۔ ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاطت کا حلف اٹھانے والی سیاسی قیادت نے ہر بار ان کا سودا کیا ہے جسکا مظہر مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی شکل میں قوم کو دیکھنا پڑا۔

بات انیس سو اڑتالیس کی کشمیر تنازع کے باعث ہونے والی جنگ سے لے کر کارگل کے محاذ پر ہونے والی جنگ کے حوالے سے ہو ہر بار بھارت نے جنگ کی ابتداء کی اور خطے کے امن و استحکام کو سبوتاژ کرنے میں پہل کی۔ موجودہ حالات اور بھارت کی دشمنی کے تناظر میں دیکھا جائے تو ایٹمی میزائیل کا تجربہ کرنا پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ثابت ہوا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اس ملک خداداد کی ایک ایسی عظیم خدمت سرانجام دی ہے کہ جب تک دنیا کے نقشے پر پاکستان کا وجود باقی ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا نام بھی باقی رہے گا۔ ملک خداداد کی حفاظت کا ذمے اس مرد مومن نے اٹھایا اور اسکو پورا کیا چنانچہ اس تجربے کی بدولت پاکستان دفاعی سطح پر آج ناقابل تسخیر ہے۔ حکمران طبقہ آج بھی یہ مانتا ہے کہ یہ منصوبہ صرف انکی بدولت مکمل ہوا مگر حقیقت میں یہ منصوبہ ریاست کے ایک عام شہری نے اپنی زندگی داو پر لگا کر مکمل کیا۔ اس امر سے یہ بات واضح ہے کہ اقوام کی ترقی کی راز اسکی وحدت میں پوشیدہ ہے۔کوئی ادارہ یا فرد واحد تب تک کوئ خدمت سرانجام نہیں دے سکتا جب تک ان میں وحدت کا عنصر موجود نہ ہو۔ تمام قومی ادارے اس ملک کی خدمت کیلئے اور اسکی بقا و سلامتی کے ضامن ہیں۔ ریاست کے ہر شہری کا یہ فرض ہے کہ وہ اسکی ترقی و خوشحالی میں اپنا کردار ادا کرے اور تمام ادارے یکساں طور پر اس کام کو سرانجام دیں۔

یوم تکبیر اس بات کا اعلان ہے کہ یہ نعرہ اسلام اور ملک دشمن عناصر کے سینوں میں چھپی نفرت کا قلع قمع کرنے کیلئے ہے یہ اس ذات کی بڑائ کا اعلان ہے کہ جس نے اقوام کو رنگ ،نسل، قبیلے کی بنیاد پر ترقی نہیں دی ہے۔ اس ملک خداداد کا مقصد ہی یہ ہے کہ یہاں دین اسلام کا مکمل نفاز عمل میں لایا جائے اور اس کو لاحق خطرات کا سامنا تن، من، دھن قربان کر کے کیا جائے۔ آج اس مقصد کو بھلانا اور اپنے فرائض سے بھاگنا ان شہداء کے لہو سے غداری ہے کہ جنہوں اپنے خون سے اس وطن کی آبیاری کی۔
عہد کریں اس ملک کی ترقی میں اپنا کردار رب کے وضع کردہ اصولوں کے تحت کریں گے اور اسکو دنیا میں اسکا کھویا ہوا مقام حاصل کرنے میں مددگار ثابت ہونگے۔

 
Syed Mansoor Hussain
About the Author: Syed Mansoor Hussain Read More Articles by Syed Mansoor Hussain: 32 Articles with 22723 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.