وطن سے محبت ایک فطری جذبہ ہے ۔وطن سے محبت رکھنے
والے کسی انعام کی خواہش نہیں رکھتے۔وطن کی محبت وہ حلال نشہ ہے جس سے ہر
چھوٹا بڑا سرشار ہو کر جان پر کھیل جاتا ہے ۔یہ پاکیزہ جذبہ قدرت کی طرف سے
عطا ہو تا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ چند ہفتوں سے وطنِ عزیز میں جو تماشہ
دیکھنے کو مِل رہا ہے اسے ہر پاکستانی تشویش کی نظر سے دیکھ رہا ہے ۔ خصوصا
جب سابقہ وزیر اعظم نے 25 مئی کو حقیقی آزادی لانگ مارچ کا اعلان کیا اور
پھر اسی دن ان کا قافلہ صوبہ خیبر پختونخوا سے اسلام آباد کی طرف چل پڑا تو
پاکستانیو ں کے دل دھڑکنے لگے اوہر کوئی اس انتظار میں تھا کہ اس لانگ مارچ
کا نتیجہ کیا نکلتا ہے ؟ ایک طرف عمران خان جیسا ضدی شخص ، دوسرے طرف رانا
ثنا اﷲ جیسا ازلی کڑپینچ، معاملہ بڑا ٹیڑھا نظر آرہا تھا کیونکہ اصل میں
نقصان تو ہر صورت میں غریب عوام کا ہوتا ہے ۔ مگر اﷲ کا لاکھ لاکھ شکر ہے
کہ سانپ بھی مر گیا لاٹھی بھی نہ ٹوٹی ۔ عمران خان نے لانگ مارچ ختم ہونے
کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ میں حکومت کو چھ دن کی مہلت دیتا ہوں کہ وہ
اسمبلیاں تحلیل کرنے اور الیکشن کا اعلان کرے ورنہ چھ دن کے بعد بیس لاکھ
لوگوں کو پھر اسلام آباد لاونگا ‘‘ بہت سارے لوگ عمران خان کے اس اعلان کو
تجسّس کی نظر سے دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ پتہ نہیں اصل معاملہ کیا ہے ؟
اب تک جو معلومات ہمارے علم میں آئی ہیں ‘ وہ یہ ہیں کہ حکومتِ وقت نے جب
لانگ مارچ سے نبٹنے کے لئے پورے ملک میں رکاوٹیں کھڑی کر دیں اور راستے بند
ہو گئے تو مقتدر طبقہ کے کان کھڑے ہو گئے اور وہ عمران خان اور حکومتی
اقدامات کی ہر ادا ،ہر قدم کو نوٹ کرنے لگے ۔ عدلیہ بھی حرکت میں آگئی اور
حالات کو معمول پر لانے کے لئے عقل کے گھوڑے دوڑانے لگے ۔
عمران خان نے ابھی دریائے سندھ پر بنے پل کو عبور ہی نہیں کیا تھا کہ اسے
مقتدر حلقوں کی طرف سے پیغامات آنے لگے کہ ہاتھ ہولا رکھیں ، معملات درست
کرنے کے لئے بات چیت ہو رہی ہے ۔ مگر عمران خان اسلام آباد کے ڈی چوک تک
پہنچنے اور مکمل گارنٹی کے ساتھ معاہدے کے خواہشمند تھے ۔ چناچہ انہیں
اسلام آباد پہنچنے تک رسائی کو آسان بنا دیا گیا ، یوں وہ ڈی چوک پہنچ گئے
۔البتہ ڈی چوک پہنچنے سے قبل مقتدر ثالثوں نے حکومت اور عمران خان کے
درمیان ایک معاہدہ تشکیل دے دیا جس پر دونوں فریقین راضی ہو ئے ۔ دراصل
شہباز شریف پہلے ہی الیکشن کرانے پر راضی تھے مگر اتحادیوں کی ضد انہیں
ایسا کرنے سے روک رہی تھی ۔ اب جب صورتِ حال ہی ایسی پیدا ہو گئی کہ ’’ نہ
جائے ماندن نہ پائے رفتن ‘‘تو غیر رضامند دلہن کی طرح ’ قبول ہے، قبول ہے ‘
کہنا پڑا اور ایک معاہدہ پر دستخط کر کے خاکی لفافہ میں بند کرکے محفوظ جگہ
پر رکھنا پڑا جس میں جون کے پہلے ہفتہ میں الیکشن کے شیڈول کا باقاعدہ
اعلان کیا جائے گا، البتہ عمران خان کو اس بات پر راضی کر دیا گیا کہ وہ اس
معاہدے کا ذکر لانگ مارچ ختم ہونے کے اعلان کے ساتھ نہیں کریں گے کیونکہ اس
طرح اعلان کرنے سے عوام کو یہ پیغام جائے گا کہ حکومت ہار گئی اور عمران
خان جیت گیا ۔ جبکہ موجودہ حکومت اور ان کے اتحادیوں کا یہ مطالبہ تھا کہ
انہیں فیس سیونگ ضرور دیا جائے ۔یہ مطالبہ ان کا مان لیا گیا۔ سو عمران خان
نے ان کا فیس سیونگ والا مطالبہ مان لیا اور حکومت نے عمران خان کا الیکشن
کرانے کا مطالبہ مان لیا ۔
،
لیکن جو بھی ہوا ،اچھا ہوا ۔ اگر ایسا نہ کیا جاتا اور معاملہ طول پکڑتا تو
یقینا عوام کا بہت نقصان ہو تا، معیشت پہلے سے دگر گوں ہے اور دونوں کی
لڑائی میں معیشت بالکل بیٹھ جاتی ۔ انگریزی کا محاورہ ہے کہ ’’ All is well
if end is well ‘‘ اگر اختتام اچھا ہے تو سب کچھ اچھا ہے ۔ الیکشن ہوں گے
تو پتہ چل جائے گا کہ عوام کس کو اقتدار سونپنا چا ہتی ہے ؟ جمہوریت کا
بنیادی اصول ہی یہی ہے کہ وہ نظام جو عوام کی ذریعے ہو ، جو عوام کے لئے ہو
۔۔ اب یہ عوام کا فرض ہے اور عوام کی ذمّہ داری ہے کہ وہ اسی سال یعنی
2022میں ہونے والے انتخاب میں سوچ سمجھ کر ووٹ ڈالیں تاکہ ایسی حکومت بر سرِ
اقتدار آئے جو ان کے مشکلات کم کر سکے اور ملک میں ترقی و خوشحالی کا دور
لوٹ آئے۔۔۔۔
|