سیاسی چشم بصیرت

۵ جنوری ۸۲۹۱ءکو دنیائے فانی میں ایک ایسے شخص کی ولادت ہوئی جس نے پاکستان میں جمہوری و سیاسی گروہ میں انقلاب برپا کردیا۔اس شخصیت نے بیرسٹر کی تعلیم حاصل کی، کچھ وقت وکالت کے ساتھ ساتھ سندھ لاءکالج میں درس و تدریس کا عمل بھی جاری رکھا۔ ذہانت و متانت کے مالک ہونے کے ناطے انھوں نے ایک سیاسی جماعت میں شمولیت کرکے باقائدہ سیاست میں قدم رکھا ۔ ۔۔۔۔وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انہیں احساس ہوا کہ پاکستان کی ترقی اور عوامی مسائل کیلئے ایک نیا پلیٹ فارم بنانا چاہئے، اسی خیال نے انہیں پاکستان پیپلز پارٹی کو بنانے کا مسمم ارادہ کرلیا اور اسکے منشور کو عوامی فلاح و بہبود اور ملکی تحفظ کو شامل کرتے ہوئے ترتیب دیا ۔ اس لیئے اس کے منشور میں شامل تھا کہ عوام کو روٹی، کپڑا اور مکان سے آراستہ کردیں گے کیونکہ زندگی گزارنے کیلئے یہ تینوں چیزیں لازم ملزوم ہیں اور پاکستان کو دفاعی لحاظ سے انتہائی مضبوط ریاست بنادیں گے۔۔۔۔۔۔اس قد آور، ذہین، مدبرانہ سوچ کے مالک نے اپنی اولادوں میں سیاست کیلئے اپنی ایک بیٹی کو چن لیا اور اس کی تعلیم و تربیت اور سیاسی بصیرت کیلئے اپنی تمام ترتوجہ مرکوز کرلیں۔۔۔۔۔۔اس شخصیت کی جرات و شجاعت،عقل و فہم، مدبرانہ سوچ، حب الوطنی اور سیاسی بصیرت آج تک سیاستدانوں کیلئے مشعل راہ بنی ہوئی ہے۔ اس سیاستدان کے دور حکومت میں ایک ایسے تاجر نے شمولیت اختیار کی جسے بانی پیپلز پارٹی کسی طور پر پسند نہیں فرماتے تھے ، اس کی وجہ بانی کے قریبی دوستوں نے بتایا تھا کہ یہ تاجر اس تحریک میں قطعی مخلص نہیں بلکہ اپنے مال و متاع کو وسیع کرنے میں مصروف عمل رہتا ہے ،اس تاجر کے کئی شہروں کاروبار ہیں اور کئی زمینیں اور دیگر املاک بھی بنالی ہیں۔۔۔۔۔بانی پیپلز پارٹی کو اپنی جماعت کے ان بے مخلص عہدیداروں سے ہمیشہ ناتلافی نقصان اٹھانا پڑاہے لیکن ایسے بھی جیالے تھے جو اپنی جانوں کی قطعی پروا نہیں کرتے تھے۔۔۔۔ تاریخ گواہ ہے کہ بانی پیپلز پارٹی پر تمام پاکستانی شیدائی تھے اور انہیں قائد اعظم کے بعد ایک بہت بڑے لیڈر کی شکل میں دیکھتے تھے اور دیکھتے ہیں۔۔۔۔ اس سیاسی تنظیم کے مفاد پرستوں نے با لآخراس عظیم لیڈرکو بھی نہ چھوڑا اور دھوکے میں ہی رکھا ،کچھ ایسے بھی تھے جو سامنے چاپلوسی، منافقت کے فن سے پارٹی اور پارٹی کے کارکنوں کے درمیان شگاف ڈالتے تھے اور مخلصوں کو قریب نہ آنے دیتے تھے۔۔۔۔ بحرحال یہ لیڈر بھی ایک انسان تھا جو اپنوں ہی کے ڈنگ سے ڈس گیا۔۔۔ آمریت نے اسے قید سلاسل کیا اور کئی الزامات تھوپ ڈالے لیکن اس عظیم لیڈر نے نہ اپیل کی اور نہ وطن چھوڑا البتہ صحیح ، سچی سیاست اور جمہوریت کو بچانے کیلئے پھانسی کو قبول کرلیا اور ہمیشہ کیلئے امر ہوگیا۔۔۔۔۔۔ بانی پیپلز پارٹی کی شہادت کے بعد اس کی لخت جگر، چہیتی بیٹی نے اپنے باپ کی کمان سنبھالی اور پارٹی کے شیرازے کو پھیلنے نہ دیااورپارٹی کے مشن کو آگے بڑھانے کیلئے سیاست کے میدان میں عمل پزیر ہوئیں اور اس وقت کے ڈکٹیٹر کے سامنے آہنی دیوار بن گئیں۔۔۔۔۔۔۔اس بیٹی نے اپنے باپ کی سرپرستی میں سیاست کی مصلحتیں پہلے ہی سیکھ چکی تھیں جو سیاسی عمل میں بہت مدد گار ثابت ہوئی ۔۔۔۔۔ پاکستان کا المیہ رہا ہے کہ اس میں کئی بار غیر جمہوری حکومتوں یعنی آمر حکومتوں نے پاکستان میں تقریباً اکیس سال سے زائد عرصہ تک حکومت کی ہیں۔۔۔کہتے ہیں کہ نام کا زندگی میں بہت اثر ہوتا ہے اسی لیئے اسلام نے با معنی اور اچھی نام رکھنے کی تاکید کی ہے۔۔۔بےنظیر وہ نام ہے جس کی کوئی نظیر نہیں ملتی اور حقیقت میں بےنظیر نے ثابت بھی کرکے دکھا دیاہے۔۔۔ بےنظیر بھٹو اپنے باپ کی طرح نڈر، ہمدرد، غریب پرور اور صوفیائے کرام سے بہت زیادہ عقیدت رکھنے والی خاتون تھی۔۔۔۔ شہید بےنظیر بھٹو نے کئی سال جلا وطنی کے گزارے لیکن پھر بھی اپنے کارکنوں اور عوام سے رابطہ میں رہیں ،بےنظیر بھٹو نے کبھی بھی عورت ہونے کے ناطے اپنے آپ کو کمزور نہیں سمجھا وہ بہت محنتی، جفاکش، باہمت والی لیڈر بھی تھیں۔۔۔بادشاہی دور میں بادشاہ کو برباد کرنے والے نا اہل وزراءاور مشیروں ہی ہوتے تھے جو غلط پالیسی، غلط مشوروں سے بادشاہ کو اکسا کر برباد کرتے تھے ۔۔۔۔یہی حال جمہوری حکومت میں بھی اگروزراءاور مشیر وںنااہل،خودغرض، لالچی، کرپٹ ہوں تو وہ جمہوری حکومت نہیں رہ پاتی اور آمر غالب آجاتے ہیں۔۔۔بےنظیر بھٹو کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوا۔آپ کی تین بار حکومت بنی لیکن غلط فیصلوں سے سیاسی اتحاد اور سیاسی استحکام نہ بن سکا۔۔۔ جن سے انہیں اتحاد دیرپا رکھنا چاہئے تھا ان سے ان کے وزراءاور مشیر وں نے اپنی ذات کے اندر سوچتے ہوئے سیاسی پارٹیوں سے طویل الحاق نہ رکھا جس سے مسلسل سیاسی انارکی پھیلتی رہی، یہ حقیقت ہے کہ شہید بےنظیر بھٹو نے بھی اپنے ہی لوگوں پراندھا اعتماد کرکے جلد بازی میں غلط فیصلے کرڈالے تھے جس کی وجہ سے سیاسی استحکام نہ بن سکا۔مانا کہ وہ خود ایسا نہ چاہتی تھیں لیکن دباﺅ کے سبب انہیں ایسا کرنا پڑتا تھا۔شہید بےنظیر بھٹو کے دور حکومت میں ان کے بھائی کو شہید کردیا گیا اور وہ قاتلوں تک پہنچ نہ پائیں، آخر ایسی بھی کیا بندشیں تھیں کہ ریاست کے سربراہ ہونے کے باوجود انہیں بے نقاب نہ کرسکیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر باہر کا دشمن کوئی حملہ کرتا ہے تو واضع ہوجا تا ہے لیکن اندرون خانہ سازش بہت کم عیاں ہو پاتی ہے اسی لیئے کہا جاتا ہے آستین کا سانپ۔۔۔۔کراچی میں جب بےنظیر بھٹو کئی سالوں بعد جلا وطنی گزار کے آئیں تو آپ کے جلوس میں دھماکا ہوا فرض کیا کہ وہ دھماکا اس وقت کے سربراہ یا دیگر مخالف پارٹی نے کرایا تھا تو ذہن اس بات کو تسلیم نہیں کرتا کہ آپ کے شوہر نے ابھی تک سانحہ کی حقیقت کیوں نہیں پہنچے۔۔۔؟؟ کیا یہ شہید بینظیر بھٹو کا سانحہ صرف معمہ بن کر رہ جائیگا۔۔ ۔۔صدر آصف علی زرداری آدھی حکومت کرچکے ہیں اور آدھی حکومت رہ گئی ہے۔۔۔وہ جیالے جو اس پارٹی اور بھٹو خاندان پر مرمٹنے کی قسم کھاتے تھے کہا ں چلے گئے ، قاتلوں کی پکڑ میں صدر صاحب کا ساتھ کیوں نہیں دیتے ، کیوں پیپلز پارٹی کو دھڑوں میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ یہ ذمہ داری ان کارکنوں پر زیادہ آتی ہے جو بھٹو صاحب سے لیکر شہید بینظیر بھٹو تک وزارت کے مزے لوٹتے رہے ہیں اور اپنی چودراہٹ چمکاتے رہے ہیں، اگر پیپلز پارٹی کے کارکن واقعی بھٹو صاحب اور محترمہ سے مخلص ہیں تو اس سانحہ کے پیچھے پوشیدہ چہروں کو ضرور بے نقاب کریں تب ہی مانا جائے گا کہ پیپلز پارٹی کے کارکن اس پارٹی سے مخلص ہیں ورنہ یہ بات سامنے آئے گی کہ پیپلز پارٹی اب وہ پارٹی نہیں رہی جو بانی پیپلز پارٹی شہید ذوالفقار علی بھٹو نے بنائی تھی اور جس کا مشن غربت کا خاتمہ اور ملکی ترقی تھا۔بھٹو صاحب اور محترمہ کی یاد میں سیمینار، جلسے جلوس منعقد کرکے اب عوام کو مزید دھوکا نہ دیں بلکہ عمل کرکے دکھائیں کہ پیپلز پارٹی کے ہر کارکن، ذمہ داران نے اس ملک و قوم کی بہتری کیلئے عملی اقدام کیئے ہیں اور اپنی دولت کو ملکی ترقی کیلئے پیش کریں تو انشاءاللہ پیپلز پارٹی پاکستان کی واحد جماعت ہوگی جو ہر چپہ چپہ پر نظر آئے گی ۔ دیکھتے ہیں کیا جیالے، ہر پاکستانی کواچھا معاشرہ، اچھی معیشت،ابھرتا کاروبار، بہتر اور سستی تعلیم و صحت، بلا امتیاز روزگار، مہنگائی کا خاتمہ، آزادی صحافت میسر کریگی ، کیونکہ یہی خواب تھا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کا۔۔۔ شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کا خواب کچھ اس طرح تھا ۔۔۔۔۔سب سے پہلے قرض معاف کرانے والے تمام ممبران اسمبلی سے واپس لیں، ٹیکس چوروں کو بلا امتیاز سزا دیں، کمیشن (دلالی)کا خاتمہ کریں، صنعتوں کو استحکام دیں، سرکاری و نیم سرکاری اداروں کو بہتر بنائیں، روزگار بڑھائیں، جعل سازی و لینڈ مافیہ کا خاتمہ کریں، دفاعی صلاحیتوں کو بڑھائیں، پاکستان میں موجود قدرتی وسائل سے استفادہ کریں، بیرون ملک سے قرض نہ لیں، اپنی عیش و تعائش کا خاتمہ کریں، عوامی اور حکومتی سطح پر سادگی اپنائیں،انتظامیہ کے سسٹم کو سدھاریں،جرائم کے کنٹرول میں سختی برتیں، زرعی اجناس کو بڑھانے کیلئے جدید خطوط پر استوار کریں، وڈیروں کو پابند کریں کہ سہولت سے ناجائز میں نہ لائیں، اسمال انڈسٹریز کو تقویت پہنچائیں، برآمدات کو بڑھائیں ، درآمدات کو گھٹائیں، پاکستان کی شاہراﺅں کو وسیع کو مضبوط بنائیں ، پل ، انڈرگراﺅنڈ پل کی تعمیر بڑھائیں، پانی کے ذخائر کیلئے ڈیم بنائی اور اس کی تقسیم منصفانہ رکھیں،اپنی توانائی کو اس قدر بڑھائیں کہ دوسروں کو فروخت کرنی پڑے، طالبعلموں سے سیاست کا خاتمہ کریں، لائبریری اور تحقیقی لیباٹریاں بنائیں، انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ادارے بنائیں جہاں تعلیم مفت دی جائے، تعلیم اور صحت کو کاروبار نہ بننے دیں۔۔۔۔۔ کیا موجودہ حکومت جو پیپلز پارٹی کی حکومت ہے ان خوابوں کو عملی جامعہ پہناسکے گی یا صرف نعروں پر ہی اکتفا کرتی رہے گی ۔ یاد رکھیں پیپلز پارٹی کے مخالفوں نے ان کے دو عظیم لیڈر چھین لیئے ہیں لیکن اب اگر پیپلز پارٹی نے ایسا پاکستان نہ بنایا جو شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو دیکھنا چاہتے تھے تو یہ عوام تو عوام پیپلز پارٹی کے مخلص جیالے بھی موجودہ حکومت کو کبھی بھی معاف نہیں کریں گے۔
Jawed Siddiqui
About the Author: Jawed Siddiqui Read More Articles by Jawed Siddiqui: 310 Articles with 246349 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.