اپنے گزشتہ کالم میں ہم نے
پاکستان کی جوہری صلاحیت کے بارے میں صیہونی میڈیا کے متعصبانہ رویئے کا
کچھ تذکرہ کیا تھا کہ وہ کیسے پاکستان کے ''اسلامی بم''کو ٹارگٹ کئے ہوئے
ہے اور کیسے اس پرامن پروگرام کو دنیا کی سلامتی کیلئے سب سے بڑا خطرہ قرار
دیتا ہے اور ہمارے چند اینکرز بھی پروپیگنڈے کے اس طوفان میں بہہ کر
پاکستان کو ہی ایٹمی مجرم قرار دیتے نظر آتے ہیں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ جب
سے پاکستان نے ایٹمی طاقت ہونے کا اعلان کیا ہے ہم مسلسل عالمی طاقتوں کے
زیرِ عتاب ہیں آخر ہم اس سے جان چھڑا کر ملک کو ''امن''کا گہوارہ کیوں نہیں
بنا لیتے یہ کہتے ہوئے ان مغرب برانڈمفکر و ںودانشوروں کی نظر یقیناََان
اسلامی تعلیمات پر نہیں پڑتی جن میں کفار کے مقابلے میں مسلمانوں کو اپنے
گھوڑے تیاررکھنے کا حکم دیا گیا ہے ۔بہرحال آج ہم بات کو آگے بڑھاتے ہوئے
کفار کے اُن مکروہ ارادوں کا تذکرہ کریں گے جو وہ ہمارے ایٹمی اثاثوں کو
خدانخواستہ اپنے قبضہ میں کرنے یاانہیں تباہ کرنے کیلئے رکھتے ہیں ۔اگرچہ
پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے خلاف سازشوں کا آغاز تو اسی وقت ہی ہو گیا تھا
جب سے پاکستان نے اس مشن کا آغاز کیا تھا لیکن ان سازشوں میں زیادہ نظم اُس
وقت آیا جب امریکی پٹھو پرویزمشرف نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لیا چنانچہ اس
کے فوری بعد ہی نائن الیون برپا ہوگیا جس میں پرویزمشرف نے افغانستان کے
ساتھ کھڑا ہو کر ''پتھر کے دور ''میں جانے کے مقابلے میں امریکی فرنٹ لائن
اتحادی بن کر پاکستان کو ''امن و خوشحالی''کے راستے پرڈال دیا ۔امریکہ
کاساتھ دیتے ہوئے پرویزمشرف نے قوم سے خطاب میں یہ بھی کہا کہ ''دہشتگردی
کے خلاف جنگ میں پاکستان نے امریکہ کا ساتھ دینے کا جو فیصلہ کیا ہے اس کے
دوررس اثرات مرتب ہوں گے کشمیر کامسئلہ حل ہوجائےگا،ملک کی معیشت مضبوط
ہوگی،قومی سلامتی کی صورتحال مثالی ہوگی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کے
ایٹمی اثاثے ہمیشہ کیلئے محفوظ و مامون ہو جائیں گے۔جبکہ آج ہم دس سال بعد
جب پیچھے مڑکر دیکھتے ہیں تو ہمیں صورتحال اسکے بالکل برعکس نظر آتی ہے اور
اب نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ شیطانی اتحاد ثلاثہ نے اپنے طے شدہ منصوبے
کے تحت بڑی شدومد سے پاکستان کو ناکام ریاست ثابت کرنے کیلئے پروپیگنڈہ
شروع کردیا ہے تاکہ اس کو جواز بناکر اقوامِ متحدہ کے ذریعے مشترکہ کنٹرول
پر پاکستان کو مجبور کیا جائے ۔اس سازش کا دوسرا حصہ حال ہی میں امریکہ کی
طرف سے ڈالا جانیوالا وہ دباﺅ ہے جس کے تحت پاکستان کومجبور کیا جارہاہے کہ
وہ ایف ایم ٹی سی(fazael material kit of treaty)پردستخط کردے جس کے تحت
مذکورہ ملک آئندہ ہتھیاروں میں استعمال کرنے کیلئے ایٹمی موادکی تیاری نہیں
کرسکتایعنی دوسرے لفظوں میں اس معاہدے کا مقصد ایٹمی پروگرام کو سیزکرنا ہے
۔دلچسپ بات یہ ہے کہ اس معاہدے کا نام پہلی مرتبہ 1957ءمیں سننے میں آیا
لیکن آج تک اس پر کسی بھی ایٹمی طاقت نے دستخط نہیں کئے 1993ءمیں پاکستان
نے موقف اختیارکیا کہ اگر اس معاہدے میں تین شرائط شامل کرلی جائیں تو یہ
ایک جاندار اور قابلِ عمل منصوبہ بن سکتا ہے(1) تمام ممالک اپنا ایٹمی میٹر
یل شو کرائیں ۔(2)تمام ممالک پہلے سے موجودایٹمی مواد میں خاطرخواہ کمی
کریں ۔(3)یہ معاہدہ امریکہ سمیت تمام ممالک پر برابری کی سطح پر لاگو ہنا
چاہئے۔لیکن امریکہ نے ان شرائط کو معاہدے میں شامل نہیں کیا جس کے بعد
پاکستان نے بھی اس معاہدے میں کوئی دلچسپی نہیں لی ۔اب ایک طویل عرصے کے
بعد ایک بار پھر اس معاہدے کو زندہ کرکے پاکستان کو اس پر دستخط کرنے پر
مجبور کیا جارہا ہے تو ماہرین بجاطورپراس کا واحدمقصد پاکستان کو جکڑنا ہی
قرار دے رہے ہیں ۔یہاں پر بین القوامی قوتوں کے تعصب کو ملاحظہ فرمائیں کہ
بھارت جسے آجکل امریکہ بہادر جنوبی ایشیا کا تھانیدار بنانے کا منصوبہ
رکھتا ہے پر اس معاہدے پر دستخط کرنے کے باوجود اس پر اس کا کوئی اثر نہیں
ہوگا کیونکہ اس کو این ایس جی(nuclear suplier group)نے دیگر ممالک کے ساتھ
ایٹمی مواد کے تبادلے کی کھلی چھوٹ دے رکھی ہے جو کہ سراسر غیر قانونی ہے
لیکن بھارت نے اس غیرقانونی اجازت کے پیشِ نظر امریکہ،فرانس اورروس کے ساتھ
ایٹمی معاہدے کر بھی رکھے ہیں ۔اس سلسلے کی تیسری بڑی سازش کا انکشاف گزشتہ
دنوں امریکی ٹی وی چینل NBCنے اپنی ایک رپورٹ میں کیا جس کے مطابق امریکی
فوج اور انٹیلی جنس ایجنسیاں پاکستان میں ایک بحرانی کیفیت پیدا کرکے
پاکستان کے ایٹمی اثاثوں پر قبضے کے مشن پر کام کررہی ہیں جس کیلئے باقاعدہ
مشقوں کا آغازبھی کردیا گیا ہے۔قارئینِ کرام یہ تمام حالات اس بات کا تقاضا
کررہے ہیں کہ ہمیں قومی سلامتی کیلئے قومی یکجہتی کی جتنی ضرورت آج ہے شائد
اس سے قبل کبھی نہ تھی اور اگر اب بھی ہم نہ سنبھلے تو ہماری ذلت و رسوائی
کے مقابلے میں تحت الثرٰی کی پستیاں بھی ہیچ ہوں گی ۔مقامِ شکر ہے کہ گزشتہ
دنوں نیشنل سٹریٹجک کمانڈ کے اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ پاکستان
کبھی بھی FMCTپر دستخط نہیں کرے گا کیوں کہ ایسا کرنا اس کیلئے خودکشی کے
پروانے پر دستخط کرنے کے مترادف ہو گا ۔دوسری جانب قومی سلامتی کے اداروں
کے سابقہ و موجودہ اعلیٰ ترین عہدیداروں کا یہ کہنا بھی اگرچہ خوش آئند ہے
کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثوں تک پہنچنا دنیا میں کسی کے بس کی بات نہیں حتیٰ
کہ اس پر کام کرنے والے سائنسدان بھی اگر چاہیں تو اسے نقصان نہیں پہنچا
سکتے کیوں کہ اس کا سسٹم ایک خودکار طریقے سے تبدیل ہوتا رہتا ہے جس کی کسی
کو بھی خبر نہیں ہوتی لیکن ان سب باتوں کے باوجودہمیں اس وقت صوبائیت،نسلیت
اور سٹیٹس کو کے بتوں کو توڑ کر ایک قوم بننا ہوگاجیساکہ نپولین نے کہا تھا
کہ ''اتحاد جنگ کا بہترین ہتھیار ہے ''یاد رکھیں اگر ہم نے اتحاد کی قوت کو
پالیااور امریکہ نے اب اگر ایبٹ آباد طرز کے کسی مس ایڈونچر کی کوئی حماقت
کی تو جنوبی ایشیا میں امریکہ کے پاکستان کے ساتھ اس آخری معرکے کا فاتح
پاکستان ہی ہوگا۔ ختم شُد |