افغان عوام کیلئے ہندوستانی امداد اور کابل میں ہندوستانی سفارتخانہ کھولنے کی پیشکش


افغان حکومت کی جانب سے ہندوستانی حکومت کو کابل میں دوبارہ سفارتخانہ کھولنے کی پیشکش کی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق قطرمیں طالبان کے سیاسی دفترکے ترجمان سہیل شاہین کا کہنا ہیکہ افغانستان میں کام کرنے والے تمام غیرملکی سفارتکاروں کو مکمل تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے۔بہت سے سفارت خانے کابل میں کام کررہے ہیں اورانہیں بھرپورسیکورٹی فراہم کی گئی ہے۔ہندوستانی سفارت خانے اورسفارتکاروں کوبھی سیکورٹی فراہم کی جائے گی۔سہیل شاہین نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ہندوستان کابل میں دوبارہ سفارتخانہ کھولے گا تو اس کے سفارتکاروں کومکمل سیکوریٹی فراہم کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہندوستان کوقومی اورباہمی مفادات کے بنیاد پرطالبان حکومت سے تعلقات قائم کرنا چاہئیں اورسابق افغان حکام سے روابط نہیں رکھنے چاہئیں۔سہیل شاہین نے یہ بھی کہا کہ اگرہندوستان افغانستان میں جاری منصوبے مکمل کرنا چاہے گا یا نئے منصوبے شروع کرنا چاہے گا تو اس کا خیرمقدم کرینگے۔یہاں یہ بات واضح رہے کہ ہندوستان کی جانب سے بڑے پیمانے پر کھانے پینے کا سامان اور ادویات افغانستان بھجوائی گئی ہیں جو خوش آئند اقدام ہے کیونکہ گذشتہ سال اگسٹ میں طالبان اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کے حالات انتہائی سنگین نوعیت اختیار کرگئے ہیں، امریکہ کی جانب سے افغانستان کے اثاثے اور اسے دی جانے والی امداد پر روک لگادی گئی ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق 2؍ جون جمعرات کو ہندوستانی وزارت خارجہ کی پریس ریلیز کے مطابق ایک وفد کابل کے دورے پر ہے، جو انسانی امداد کے تحت ہونے والے اقدامات کا جائزہ لے گا اور طالبان کے سینئرحکام سے بھی ملاقات کرے گا۔ بتایا جاتا ہے کہ ہندوستانی وفد کے ارکان ممکنہ طور پر ان متعدد علاقوں کے دورے بھی کرینگے جہاں ہندوستانی حکومت کی جانب سے امدادی سرگرمیاں جاری ہیں۔افغانستان میں انسانی بنیادوں پر امدادی سامان کی ضروریات کے تحت ہندوستان نے افغانستان کے عوام کیلئے امدادی سامان کی فراہمی کا دائرہ کار وسیع کرنے کا بھی فیصلہ کیا ہے۔افغانستان کو بھجوائی گئی اشیاء میں 20ہزارمیٹرک ٹن گندم، 13ٹن ادویات، پانچ لاکھ کورونا ویکسین کی خوراکیں اور موسم سرما کے کپڑے شامل ہیں۔اس کے علاوہ ہندوستان کی جانب سے مزید سامان اور ادویات بجھوانے کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے ۔ ہندوستان کی جانب سے انسانی ہمدردی کی بنیاد پرکی جانے والی امدادکو افغانستان میں سراہا جارہا ہے۔ جیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے کہ افغان طالبان حکومت ہندوستانی حکومت کو کابل میں سفارت کھولنے کی پیشکش کی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ہندوستانی حکومت طالبان حکومت کی پیشکش پر غور و خوص کرنے کے بعد حتمی فیصلہ کریگی کہ آیا کابل میں سفارت خانہ کھولنا بہتر رہے گا یا نہیں ۔ البتہ حکومت ہند کی جانب سے افغان عوام کی امداد کا سلسلہ مستقبل میں بھی جاری رکھنے کے امکانات ہیں۰۰۰

ملک کی تعمیر و ترقی اور خوشحالی میں حکمراں کا اہم رول
کسی بھی ملک کی تعمیرو ترقی ا ور خوشحالی اُس ملک کی بہترین قیادت کی مرہونِ منت ہوتی ہے۔ عوام کی بہتر صحت ،خواندگی کے فروغ اور روزگار کے مواقع فراہم کرنا ایک اچھے حکمراں کی پہچان ہے۔ گذشتہ چند برسوں کے دوران ترکی کی ترقی و خوشحالی کیلئے موجودہ صدر رجب طیب اردغان کی ناقابلِ فراموش خدمات سمجھی جارہی ہے ۔ ترک عوام ہی نہیں بلکہ عالمی قیادت بھی انہیں خراجِ تحسین پیش کرتی ہے۔ یہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر مسلمان ترک صدر رجب طیب اردغان کواپنا رہنما و ہمدرد تصور کرتے ہیں۔ اسلاموفوبیا کے حوالے سے رجب طیب اردغان، مہاتر محمد سابق وزیر اعظم ملیشیااور عمران خان سابق وزیر اعظم پاکستان کی قیادت پر مسلمانوں کو ہمت و حوصلہ ملا تھا لیکن دشمنانِ اسلام یا انکے اپنے آستین کے سانپوں نے مہاتر محمد اور عمران خان کو اقتدار سے بے دخل کرکے خوش فہمی میں مبتلا ہیں۔ جس طرح اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اور مختلف مواقع پران رہنماؤں نے آواز اٹھائی اس سے دشمنان اسلام اور عالمی طاقتوں کو سوچنے پر مجبور کردیا تھاکہ اسلام اور مسلمانوں کے تشخص کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف آواز اٹھانے والے مسلم حکمراں ابھی موجود ہیں ۔مہاتر محمد تووزارتِ عظمیٰ کے عہدہ سے ہٹنے کے بعد خاموشی اختیار کرگئے لیکن عمران خان اقتدار کی لڑائی کے لئے کمربستہ ہیں کیونکہ اقتدار پر فائز رہ کرہی بہترین خدمات انجام دے سکتے ہیں اور عالمی سطح پر بھی اپنے مطالبات منوائے جاسکتے ہیں۔ الحمد ﷲ صدر ترک رجب طیب اردغان اپنے ملک ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر بھی مضبوط دکھائی دیتے ہیں۔ رجب طیب اردغان نے ملک میں عوام کی صحت و تندرستی کیلئے بھی نمایاں خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ترکی میں تمباکو نوشی کے خاتمے کیلئے جاری جدوجہد کے حوالے سے بتاتے ہو ئے کہا کہ اِن ڈور سگریٹ نوشی پر پابندی لگانے سے لے کر ان مصنوعات پر بھاری ٹیکس عائد کیے جا رہے ہیں ،صدر اردغان نے دارالحکومت انقرہ کے صدارتی محل میں31؍ مئی کو تمباکو نوشی کے عالمی دن کے موقع پر نوجوانوں سے خطاب کے دوران کہا کہ ’’اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ ترک حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی بدولت ملک میں سگریٹ کے استعمال میں نسبتاً کمی آئی ہے۔‘‘انہوں کہا کہ’’جیسا کہ ہمیں معلوم ہے، دنیا نے حالیہ برسوں میں کورونا وائرس جیسی وبا اور اس کے سنگین نتائج کا سامنا کیا ہے۔ تاہم، تمباکو کی وبا صحت کیلئے سب سے بڑا عالمی خطرہ پیش کرتی ہے۔‘‘صدر کا مزید کہنا تھا کہ دنیا بھر میں 7 ملین اور ترکی میں ایک لاکھ لوگ تمباکو کے ذریعے لاحق ہونے والی بیماریوں سے ہر سال مر رہے ہیں، لیکن بدقسمتی سے، ہم ابھی تک اس وبا کے خلاف جنگ میں مطلوبہ سطح پر نہیں پہنچ سکے۔انہوں نے بتایا کہ ترکی کی صحت اور نوجوانوں کی پالیسیاں تمباکو، شراب اور منشیات جیسی مصنوعات سے لڑنے پر مرکوز ہیں جو انسانی جسم کیلئے نقصان دہ ہیں۔آج مسلم معاشرہ کس جانب رواں دواں ہے اس کا اندازہ ہر صاحب بصیرت کو ہے۔ امتِ مسلمہ کے خلاف سازشیں تو ہر دور میں ہوتی رہی ہیں لیکن موجودہ دور میں جو حالات پیش آرہے ہیں اور سوشل میڈیا والکٹرانک میڈیا کے ذریعہ جو زہر دشمنانِ اسلام کی جانب سے پھیلایا جارہا ہے اس کے خلاف امتِ مسلمہ کو اُٹھ کھڑے ہونے کی ضرورت ہے۔ ہم مسلمان اپنے ادب و اخلاق اور بہترین کردار کے ذریعہ عملی نمونہ پیش کرتے ہوئے دشمنانِ اسلام کی سازشوں کا ناکام بنانے کی کوشش کریں۔

فلسطینیو ں پراسرائیلی ظلم کے خلاف متحدہ آواز کی ضرورت
آج عالمِ اسلام کی قیادت کے دعویدارحکمراں اپنے ملکوں میں اسرائیلیوں اور دشمنانِ اسلام کی عزت افزائی اور جی حضوری میں پیش پیش نظرآرہے ہیں۔ فلسطینی عوام پر ظلم و زیادتی کرنے والے اسرائیلیوں کے خلاف خاموشی اختیار کی جارہی ہے۔ رمضان المبارک میں بھی اسرائیلی درندہ صفت فورسز نے مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے والے روزہ دارمسلمانوں کو نشانہ بنایا۔ نہتے فلسطینیوں پر گولیاں چلائی گئیں اور انہیں حراست میں لیا گیا۔ سینکڑوں انتہا پسند اسرائیلی شہریوں نے گذشتہ روز مسجد اقصیٰ پر دھاوابول دیا اور عبادت کرنے والے فلسطینیوں کو تشددکا نشانہ بنایا۔ذرائع ابلاغ کے مطابق انتہا پسند اسرائیلیوں نے مسجد میں اسرائیلی جھنڈے لہرائے اور فلسطینیوں کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔بتایا جاتا ہے کہ اسرائیلی شہریوں نے عبادت کے لئے آئے ہوئے افراد کو تشدد کا نشانہ بھی بنایا جس کے خلاف فلسطینیوں نے احتجاج کیا۔تاہم مقبوضہ بیت المقدس میں یہودی مارچ کے موقع پراسرائیلی فورسزاورفلسطینیوں میں جھڑپ مسجد اقصیٰ کے قریب واقع دمشق گیٹ پر ہوئی، اسرائیلی فورسز کی جانب سے کارروائی کی گئی اور متعدد افراد گرفتار کیے گئے۔فلسطینی ریڈکریسنٹ سوسائٹی نے اسرائیلی فورسزسے جھڑپوں میں 79 فلسطینیوں کے زخمی ہونے کی تصدیق کی۔اس کے علاوہ اسرائیلی فورسزکی جانب سے درجنوں فلسطینیوں کوگرفتاربھی کیا گیاہے۔ واضح رہے کہ1967 کی جنگ کی یاد میں اسرائیل کی جانب سے ہرسال یہودی مارچ کا انعقادکیاجاتا ہے،گزشتہ سال یہودی مارچ میں کشیدگی کے باعث اسرائیل اورغزہ میں 11 روزہ جنگ ہوئی تھی، حماس نے گزشتہ ہفتے خبردارکیا تھا کہ یہودی مارچ مسجد اقصیٰ کے احاطے سے نہ گزرے۔مسلم ممالک کی اعلیٰ قیادت کو چاہیے کہ وہ اسرائیلیوں کی جانب سے مسجد اقصیٰ میں عبادت کرنے والے فلسطینیوں کو ہمیشہ نشانہ بنانے سے روکنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر آواز اٹھائیں۔خصوصی طور پر اہم موقعوں پر فلسطینی مسلمانوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور انہیں عبادت سے روکنے کی بھرپور کوششیں ہوتی ہیں۔ اسرائیلی فورسز درندگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایک طرف فلسطینیوں کو ہلاک و زخمی کرتے ہیں تو دوسری جانب انہیں گرفتار بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے خلاف عالمی سطح پر متحدہ احتجاج اور اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کرنے کی ضرورت ہے ، لیکن آج مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے کی کوشش میں لگے دکھائی دے رہے ہیں جس کی مثال متحدہ عرب امارات ہے۰۰۰

متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تجارتی معاہدے
متحدہ عرب امارات اور اسرائیل میں آزاد تجارت معاہدے پر دستخط ہوگئے جو دونوں ممالک کے تعلقات میں تاریخی پیشرفت سمجھی جارہی ہے۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق اسرائیلی وزیر معیشت اور صنعت اورنا باربیوا اور ان کے اماراتی ہم منصب عبداﷲ بن طوق المری نے کئی ماہ کے مذاکرات کے بعد اس معاہدے پر دستخط کیے۔واضح رہے کہ اسرائیل کا کسی بھی عرب ملک کے ساتھ یہ پہلا فری ٹریڈ معاہدہ ہے۔دونوں ممالک کے درمیان تجارتی حجم 2ارب ڈالر سے بڑھنے کا امکان بتایا جارہا ہے جب کہ معاہدے کے تحت 96 فیصد مصنوعات پرکسٹم ڈیوٹی ختم کی جائیگی۔اس موقع پر اسرائیل میں متحدہ عرب امارات کے سفیر محمد محمود فتح علی عبداﷲ الخجا نے کہا کہ یہ معاہدہ ایک بے مثال کامیابی ہے، دونوں ممالک کے تاجروں کو مارکیٹوں تک کم ٹیرف میں تیز تر رسائی ملے گی جس سے دوطرفہ تجارت میں اضافہ ہوگا۔یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اسرائیل اورمتحدہ عرب امارات کے درمیان باضابطہ تعلقات 2020 میں قائم ہوئے تھے۔

کویت پارلیمنٹ کااسرائیل کے خلاف قابلِ تحسین اقدام
کویت پارلیمنٹ نے ایک قانون منظور کیا ہے جس میں اسرائیل کے ساتھ تجارت کو قابل سزا جرم قرار دیا گیا ہے۔گذشتہ سال کویت پارلیمنٹ کی جانب سے اسرائیل کے خلاف منظور کیا گیا قانون قابلِ تحسین اقدام ہے۔ واضح رہے کہ پارلیمنٹ نے جو قانون منظور کیا ہے اس کے مطابق جو کویتی تاجر اسرائیل کے ساتھ تجارت کرے گا اسے ایک سال سے تین سال تک قید کی سزا دی جا سکے گی۔یہ بل کویت کی پارلیمنٹ کے اراکین عدنان عبدالصمد، ڈاکٹر علی القطن، احمد الحمد، ڈاکٹر حشام الصالح اور خلیل الصالح نے پیش کیا۔قانون میں کہا گیا ہے کہ جو کویتی تاجر دنیا کے کسی بھی خطے سے یہودی ریاست اسرائیل کے ساتھ یا اسرائیل کے کسی ادارے یا نجی کمپنی کے ساتھ بالواسطہ یا بلاواسطہ لین دین کرے گا اس پر یہ قانون لاگو ہو گا۔قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں کو پانچ ہزار کویتی دینار کا جرمانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ اسرائیل کے ساتھ کسی بھی طرح کی یکجہتی کا اظہار بھی قابل سزا جرم تصور کیا جائے گا۔کویت ہمیشہ سے ہی فلسطین کی آزادی کی حمایت کرتارہا ہے ۔اس طرح دیگر اسلامی و عرب ممالک کی جانب سے بھی فلسطینیوں پرکئے جانے اسرائیلی مظالم کے خلاف کارروائی کی جانی چاہیے، خصوصی طور پر مسجد اقصیٰ میں عبادت کے دوران مسلمانوں کے ساتھ جو درندگی کا مظاہرہ صیہونی کرتے ہیں یہ سلسلہ ختم ہونے کی ضرورت ہے۔

Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 210239 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.