مودی سرکار اپنی عمر کے آٹھ سال کی تکمیل پر ائیر کنڈیشن
کے اندر جشن چراغاں منارہی ہے اور عوام ملک میں جاری بجلی کے بحران سے تپ
رہے ہیں۔ ایسے میں راہل گاندھی نے مرکزی حکومت کی آٹھ سالہ کارکردگی پر
تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ وزیراعظم نریندر مودی نےاپنے دور اقتدار کے دوران
خراب حکمرانی کو فروغ دیا ہے جس کی وجہ سے ملک کا عام آدمی آج طرح طرح کے
مسائل سے جوجھ رہا ہے۔راہل گاندھی کے مطابق مودی حکومت کے دور میں عوام بے
حد متاثر ر ہے۔ ملک کا عام آدمی بجلی کے شدید بحران کے علاوہ بے روزگاری،
کسانوں کی بدحالی اور مہنگائی جیسی مشکلات کا شکار ہے۔ مودی حکومت ان نمٹنے
میں بے بس ثابت ہو ئی ہے۔راہل گاندھی نے فیس بک اور ٹوئٹر پوسٹ میں کہا کہ
’’بجلی کا بحران، نوکریوں کا بحران، کسان بحران، افراط زر کا بحران۔
وزیراعظم مودی کے آٹھ سال کی خراب حکومت کا یہ خلاصہ ہے۔ اس سے یہ سیکھا
جاسکتا ہے کہ ایک وقت دنیا کی سب سے تیزی سے بڑھتی معیشتوں میں سے ایک رہی
ہماری معیشت کو کیسے برباد کیا جاسکتا ہے۔
ان سنگین مسائل کے باوجود ملک کا صنعت کار طبقہ عیش کررہا ہے کیونکہ اس نے
برسرِ اقتدار سیاسی جماعت کو چندہ دے کر رام کررکھا ہے۔ مودی سرکار نے تو
اسے قانونی حیثیت دے دی ہے۔ اس کے نتیجے میں ان سرمایہ داروں کو بلواسطہ
اور بلا واسطہ بہت ساری سرکاری مراعات ملتی رہتی ہیں ۔ اس کے باوجود یہ لوگ
بڑی چالاکی سے اپنے دیوالیہ پن کا اعلان کرکے سرکاری قرض نگل جاتے ہیں اور
ٹیکس بھی ادا نہیں کرتے ۔ ان کی ایک بڑی تعداد ملک سے فرار ہوجاتی ہے اور
سرکار اپنے بلند بانگ دعووں کے باوجود کسی کو واپس لانے میں کامیاب نہیں
ہوتی۔ سرکارتو صنعت و حرفت کی سرپرستی کرتی ہ مگر ملک کی آبادی کا بڑا حصہ
اب بھی زراعت سے منسلک ہے۔ ملازمت کی عمر کے لوگوں کی نصف سے زیادہ تعداد
زراعت کرتی ہے لیکن جی ڈی پی یعنی قومی پیداوار میں زراعت کا تناسب سن 2014
سے 2019 تک کم و بیش 17فیصد ہی تھا جو خاصہ کم ہے ۔
اس تلخ حقیقت کے پیش نظر ملک میں ہر کوئی زرعی شعبہ کے اندر اصلاحات کا
معترف تھا ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر مودی سرکار نے کورونا کے دوران بغیر کسی
سے مشورہ کیے اور کسان رہنماوں کو اعتماد میں لیے تین متنازع قوانین منظور
کردیئے۔ ان مارکیٹ نواز قوانین میں سرمایہ داروں کا فائدہ اور کسانوں کے
ساتھ ساتھ عام لوگوں نقصان پنہاں تھا۔ اس کے بعد کسانوں کی آمدنی دگنی کرنے
کا فریب دے کر اقتدار پر فائز ہنے والے مودی کے خلاف ان قوانین کے سبب
موجودہ آمدنی میں کمی کے خوف سے احتجاج شروع کردیا ۔ کسانوں کے احتجاج کو
ناکام کرنے کی خاطر حکومت نے طاقت کا بے دریغ استعمال کیا اور جب اس سے بات
نہیں بنی تو مذاکرات کی بھول بھلیوں میں الجھایا گیا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں
ہوئے ۔ ایوانِ پارلیمان میں خود وزیر اعظم کے ذریعہ اس کا تمسخر بھی ان کے
حوصلے پست نہیں کرسکا اور بالآخر انتخابی نقصان سے بچنے کے لیے حکومت نے
ہار مان کر مذکورہ قوانین واپس لے لیے ۔ یہ اس سرکار کی سب سے بڑی ہار تھی۔
یہ حسن اتفاق ہے جن کسانوں کو قوم دشمن قرار دیا جارہا تھا کورونا کی سنگین
صورتحال میں انہوں نے ہی معیشت کو سنبھالا اور پہلے سال (2020 )قومی جی ڈی
پی میں زراعت کا حصہ 18 فیصد سے زیادہ ہوگیا اور اگلے سال( 2021)بھی 20
فیصد تک پہنچ گیا ۔ کسان اگر مودی کےجھانسے میں آجاتے تو ان کے لیے پانچ
کلو مفت اناج فراہم کرنا بھی مشکل ہوجاتا۔ کورونا کی وبا کے دوران صحت عامہ
کے شعبے میں ’وشوگرو‘(عالمی رہنما) بننے کا خواب دیکھنے والوں کی پول کھل
گئی۔ یہ ایک فطری بات تھی کیونکہ وزیر اعظم مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد
بیت الخلا کی تعمیر کے سوا کوئی قابلِ ذکر کام نہیں کیا۔ وہ بھول گئے غریب
لوگ بھی بیمار ہوتے ہیں ۔ انہیں ایسا لگتا تھا کہ انتخابی کامیابی کے لیے
سردار ولبھ بھائی پٹیل کا سب سے اونچا مجسمہ تعمیر کردینا کافی ہے لیکن
کورونا نے احساس دلایا کہ ایسا نہیں ہے۔ دوسری لہر کے دوران آکسیجن کی کمی
نے جس طرح کی تباہی مچائی وہ حکومت کی کوتاہ اندیشی کے سبب تھی۔ پہلی لہر
کے دوران اگر اس کا اندازہ لگا کر بندو بست کرلیا جاتا تو اس صورتحال کو
ٹالا جاسکتا تھا لیکن وزیر اعظم تو اس وقفہ میں کبھی رام مندر کا سنگ بنیاد
رکھ رہے تھے تو کبھی بہار و بنگال میں انتخابی مہم چلانے مصروف تھے ۔
سرکار کی اس مجرمانہ غفلت کی قیمت بالآخر عام لوگوں نے چکائی کیونکہ وزیر
داخلہ بیمار ہوئے تو ایمس اور میدانتا جیسے بڑے نجی اسپتالوں میں داخل
ہوگئے مگر غریب در بدر ٹھوکریں کھاتا رہا ۔یہ کس قدر حیرت کی بات ہے کہ
پچھلے کئی سالوں سے 2019 تک صحت کا بجٹ قومی بجٹ کا تقریباً 3.5 فیصد ہوا
کرتا تھا۔ وبا کے دوران اس میں اضافہ ہونا چاہیے تھا مگر پہلے سال
(2020)اسے گھٹا کر 3.2 فیصد کردیا گیا اور وبا کے دوسرے سال (2021)مزید کم
کرکے 2.6 فیصد کردیا گیا۔ پچھلی حکومتوں کی طرح مودی سرکار نے بھی صحت کے
شعبے کو یا تو نظر انداز کیا اس کی ترجیح پرائمری درجے کے بجائے اعلیٰ یا
تیسری سطح کی طبی سہولیات کی فراہمی پر مرکوز تھیں ۔ یہ نہایت مہنگا امریکی
ماڈل مجموعی طور پر عوامی صحت کو بہتر بنانے میں ناکام ہوجاتا ہے لیکن
چونکہ سرمایہ داروں کے لیے مفید ہے اس لیے اسی پر کام ہورہا ہے۔
وزیر اعظم نریندرمودی کو کسانوں سے کیے جانے والے وعدے تو یاد نہیں آتے
لیکن صنعت کاروں کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ ابھی حال میں اترپردیش حکومت
کےذریعہ ریاست میں صنعتی سرمایہ کاری کے لئے منعقدہ تیسری اہم تقریب میں
انہوں نے سرمایہ کاروں کو اترپردیش کے اندر کامیاب اور محفوظ سرمایہ کاری
کا بھروسہ دلاتے ہوئے کہا کہ مرکز اور ریاست کی حکومتیں، پالیسی، فیصلہ،
نیت اورمزاج سے ترقی کے ساتھ ہیں۔مودی جی نے یہ تو واضح نہیں کیا کہ ان کی
سرکار کس کی ترقی کے ساتھ لیکن چونکہ خطاب ملک کے معروف سرمایہ داروں سے
تھا اس لیے ظاہر ہے انہیں کی ترقی مراد ہے۔ اپنی عادت کے مطابق سبز باغ
دکھاتے ہوئے وہ بولے اترپردیش میں جدید ایکسپریس وے کا طاقتور نیٹ ورک بن
رہا ہے۔ اترپردیش ڈیفنس جکشن بننے والا ہے۔ بین الاقوامی سطح پر اترپردیش
کو دنیا سے جوڑنے میں جیور ائیر پورٹ ایک پل کا کردار ادا کرے گا۔ اترپردیش
میں بڑھتی سرمایہ کاری ریاست کے نوجوانوں کے لئے نئے روزگار کے مواقع لے
کرآئے گا اور مستقبل کے جدید ہندوستان کی ترقی کے راستے میں یو پی کو سب
سے مضبوط بنیادی ستون بن جائے گا ۔
اچھے دنوں کی ان اچھی اچھی باتوں کے پسَ پشت اترپردیش کے پچھلے انتخاب میں
بی جے پی کے نشستوں میں کمی اور ایس پی کے ارکان اسمبلی کی تعداد میں اضافہ
کارفرما ہے۔ ان حقائق کی پردہ پوشی کے لیےانہوں نے کہا کہ یوپی کی عوام نے
37سال بعد کسی حکومت پر دوبارہ اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے اسے اقتدار سونپا
ہے۔ اس لئے وہ اعتماد کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ اترپردیش ہی 21ویں صدی میں
ہندوستان کے ترقی کو رفتار دے گا۔ ان کے مطابق اگلے 10سالوں میں یہ اچھے
دنوں کا خواب شرمندۂ تعبیر ہوجائےگا ۔ اس مقصد کے حصول کی خاطر وزیر اعظم
کے ساتھ اس تقریب میں وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ اور وزیر دفاع راجناتھ
سنگھ کے علاوہ ملک کے معروف سرمایہ دار گوتم اڈانی، بڑلا گروپ کے کمار
منگلم بڑلا اور ہیرانندانی گروپ کے نرجن ہیرانندانی نے بھی موجود تھے ۔ ان
لوگوں کی موجودگی سے 80ہزار کروڑ روپئے کی سرمایہ کاری کے ترقیاتی پروجکٹوں
کا خواب بیچا گیا۔
گجرات کے اندر ہر سال مودی جی اس طرح کے تماشے اور بلند بانگ دعویٰ کیا
کرتے تھے ۔ اس سے اخبارات اور ٹیلی ویژن میں تعریف و توصیف تو خوب ہوتی مگر
زمینی سطح پر کوئی ٹھوس تبدیلی نہیں آتی تھی ۔ اب یہی تماشا یوپی میں بھی
شروع ہوگیا ہے کیونکہ جہاں گجرات ان کی جنم بھومی ہے وہیں اترپردیش کرم
بھومی بن گئی ہے۔ اس موقع پر وزیر اعظم مودی نے اترپردیش میں سرمایہ کاروں
کا استقبال کرتے ہوئے کہا’ ریاست کے نوجوان طاقت میں وہ قابلیت ہے جو آپ
کے سپنوں اور عزائم کو نئی اڑان اور نئی اونچائی دے گا‘۔ یعنی خواب تو
سرمایہ داروں کے شرمندۂ تعبیر ہوں گے مگر اس میں صوبے کا نوجوان آلۂ کار
بنے گا کیونکہ بقول وزیر اعظم اترپردیش کے نوجوانوں کی محنت، قابلیت، فہم،
خودسپردگی آپ (یعنی سرمایہ داروں ) کے سبھی سپنوں، عزائم کو پائے تکمیل تک
پہنچا کر رہے گی۔ وزیر اعظم نے جہاں صنعت کاروں کو اتنی ساری یقین دہانی
کرائی وہیں نوجوانوں کے تابناک مستقبل اور حسین خوابوں کی بابت ان کی زبان
سے ایک لفظ نہیں پھوٹا ۔
سچ تو یہ ہے کہ غریب طبقے کو معاشی بدحالی سے بچانے میں سرکار کو سرے سے
کوئی دلچسپی ہی نہیں ہے۔ وہ کبھی گیان واپی اور تو کبھی قطب مینار کا کھیل
کھیلتی ہے ۔ ا سے ای ڈی کے ذریعہ مخالفین کو ڈرا دھمکا کریا آئی پی ایل
کےتوسط اپنے بھگتوں بہلانے میں زیادہ دلچسپی ہے۔ ان سیاسی ہتھکنڈوں سے
معاشی صورتحال میں بہتری آنے سے رہی لیکن سرکار کو معیشت میں سدھار کے
بجائے اقتدار کے تحفظ درکار ہے۔ حکومت اگر اپنے عوام کی فلاح و بہبود سے بے
نیاز ہوکر سرمایہ داروں سے سانٹھ گانٹھ کرلے تو سرمایہ دار اس کا فائدہ
اٹھاتے ہیں۔اس طرح ملک کے امیر ترین طبقے کی دولت میں اضافہ ہونےلگتا ہے
کیونکہ ہنگامی صورت حال میں عوام پریشان ہوکر اپنی بقا کے لیے کم اجرت پر
زیادہ کام کرتے ہیں اور جو کماتے ہیں وہ خرچ کر دینے پر مجبور ہوتے
ہیں۔ماہرین کے مطابق جب بھی کسی ملک کی معیشت خراب ہوتی ہے تو اس سے غریبوں
کا طبقہ سب سے پہلے متاثر ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امیرو و غریب کے درمیان
کی کھائی مسلسل بڑھتی جارہی ہے۔ ایسے میں امیر ترین طبقے یا کمپنیوں سے
اضافی ٹیکس وصول کرکے غریبوں کی مشکلات کوکم کیا جاسکتا تھا لیکن امبانی
اور اڈانی کی مدد سے چلنے والی مودی اور شاہ کی سرکار سے یہ توقع کرنا دن
میں تارے دیکھنے کے مترادف ہے۔ اچھے دنوں کا خواب دیکھنے والے عوام اب
بلڈوزر کی تعبیر دیکھ کر حیران و پریشان ہیں۔ نوجوانوں کے لیے مودی کی
تقریر اس شعر کی مانند ہے؎
دیکھتے کچھ ہیں دکھاتے ہمیں کچھ ہیں کہ یہاں
کوئی رشتہ ہی نہیں خواب کا تعبیر کے ساتھ
|