آٹھ سال: غریب بد حال، امیر مالا مال

مودی سرکار بڑے جوش وخروش کے ساتھ اپنی آٹھویں سالگرہ منانے میں مصروف ہے۔ اس سرکار کے قیام سے قبل ملک کے عوام اچھے دنوں کا خواب دیکھ رہے تھے لیکن فی الحال ایک خطرناک بلڈوزر ان خوابوں کی تعبیر بن کر انہیں تہس نہس کررہا ہے ۔ ان آٹھ سالوں میں جو معاشی تباہی آئی ہے اس کااندازہ اس سال کی ابتداء میں منظر عام پر آنے والے ایک جائزے سے کیا جاسکتا ہے۔ اس رپورٹ کے مطابق اگر مودی جی ابتدائی دور یعنی سن 2015 اور2016 کا موازنہ سال 2020 اور 21 سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اس دوران بیس فیصد غریب عوام کی آمدنی میں تقریباﹰ 53 فیصد کی گراوٹ درج کی گئی ہے۔ یہ گراوٹ ایسی نہیں ہے کہ جسے نظر انداز کردیا جائے اور اس کے لیے پنڈت نہرو سے لے کر منموہن سنگھ کسی کو ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا ۔ یہ تو خالصتاً ہندو ہردیہ سمراٹ نریندر مودی کا کارنامہ ہے ۔ اس کارنامے کے لیے ان کا بڑا سے بڑا اندھا بھگت بھی انہیں مبارکباد دینے کی جرأت نہیں کرے گا کیونکہ اس کے اندر بھی بلڈوزر کے نیچے کچلے جانے کا خوف کہیں نہ کہیں موجود ہے ۔
سابق وزیر اعظم نرسمھاراو نے سوویت یونین کے منتشر ہوجانے پر سوشلزم سے مایوس ہوکر نوے کی دہائی میں آزادانہ معاشی پالیسی نافذ کردی ۔ اٹل بہاری واجپائی اور منموہن سنگھ نے بھی اسے آگے بڑھایا۔ اس کے بعد سے ہر برس غریب طبقے کی آمدنی میں اضافہ اور غربت میں کمی درج کی جاتی رہی ہے مگر مودی جی کی آمد کے بعد سب کچھ الٹ پلٹ گیا ۔ یعنی پہلی بار آمدنی میں کمی اور غربت میں اضافہ دیکھنے کو ملا ۔ ویسے جو مصیبت غریب رائے دہندگان پر آئی ویسا معاملہ وزیر اعظم کے دوستوں اور پارٹی کو چندہ دینے والے امیر وں کے ساتھ نہیں ہوا ۔ بی جے پی سرکار نے غریبوں کے منہ کا نوالہ چھین کر امیروں کی تجوری میں جمع کروا دیا ۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ پانچ برس کی مدت میں، بیس فیصد امیر ترین لوگوں کی آمدنی میں 39 فیصد کا اضافہ درج کیا گیا ۔ یہ بھی کوئی معمولی اضافہ نہیں ہے جسے نظر انداز کردیا جائے ۔ اوپر کے بیس فیصد لوگوں کی آمدنی میں زبردست اضافہ اور نیچے کے بیس فیصد لوگوں میں اس سے بڑی کمی دراصل امیر اور غریب طبقات کے درمیان وسیع ترین ہونے والے معاشی فرق کی غماز ہے لیکن چونکہ آئندہ انتخاب بلڈوزر کے ذریعہ کی جانے والی کھدائی سے جیتا جائے گا اس لیے اس کی کسی کو پروا نہیں ہے۔

یہ سروے شہر ممبئی کے ایک تھنک ٹینک ’پیپلز ریسرچ آن انڈياس کنزیومر ایکونومی‘ (پی آر آئی سی ای) نے کیاتھا ۔ اپنی تحقیقی سے نتائج اخذ کرنے کی خاطر اس ادارے نے پہلے دور میں 2021ء کے اپریل اور اکتوبر کے درمیان دو لاکھ گھروں کا جائزہ لیا اور پھر دوسرے مرحلے میں 42 ہزار مزید گھروں کا سروے کیاتھا ۔ اس کو ملک کا نمائندہ بنانے کی خاطر جملہ 100 اضلاع کے 120 شہروں سمیت آٹھ سو دیہاتوں کا انتخاب کیا گیا تھا اس لیے ایسی معروضی رپورٹ کو مسترد کردینا آسان نہیں ہے ۔ اوپر بیس فیصد غریب ترین اور بیس فیصد امیر ترین لوگوں کی گھریلو آمدنی کا موازنہ کیا گیا لیکن درمیانی یعنی اوسط درجہ کی حالت بھی ٹھیک نہیں ہے۔ اوسط درجے کے طبقے کی آمدنی میں بھی تقریبا 32 فیصد کی کمی آئی۔ یہ بی جے پی کے ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والامتوسط طبقہ ہے جس نے بڑے ارمانوں سے اسے ووٹ دیا تھا۔ متوسط طبقہ میں اعلیٰ بیس فیصد کا مقابلہ اگر نچلے بیس فیصد سے کیا جائے تو پتہ چلتا ہے نیچے والوں کی آمدنی سات فیصد کم ہوئی مگر اعلیٰ گروہ کی آمدنی 39 فیصد بڑھ گئی ۔ یعنی یہاں بھی تفریق کی کھائی 46فیصد گہری ہوگئی ۔ رپورٹ میں یہ انکشاف بھی ہوا کہ منموہن سنگھ کے دور یعنی سن 2005 سے سن 2016کے گیارہ برسوں کے اندر ، غریبوں کی آمدنی میں اوسطاً 183 فیصد کا اضافہ درج کیا گيا تھا اور اس کے مقابلے میں امیر ترین طبقے کی دولت میں اوسطاﹰ اضافہ صرف 34 فیصد تک لیکن اب کایا پلٹ چکی ہے ۔

سروے میں اعتراف کیا گیا ہے کووڈ انیس کی وجہ سے سن 2020 اور2021 کے دوران ہندوستان کی مجموعی گھریلو پیداوار میں سات اعشاریہ تین فیصد کی مجموعی گراوٹ درج کی گئی اور اس نے سب سے زیادہ شہروں میں بسنے والے غریبوں کو متاثر کیا۔ معاشی امور کے ماہر پروفیسر امیراللہ خان اس خیال کی تردید کرتے ہیں کہ اس ابتری کے لیے کورونا ذمہ دار ہے۔ ان کے مطابق یہ تاثر غلط ہے کہ ملک میں معاشی بحران کا بنیادی سبب کوویڈ کی وبا ہے کیونکہ اس انحطاط کی ابتدا سن 2016 میں ہی ہو گئی تھی۔ وزیر اعظم مودی کے عہدہ سنبھالنے کے وقت ہندوستان کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی سات سے آٹھ فیصد تھا لیکن 2019-20 کی آخری سہ ماہی تک یعنی کورونا سے قبل ہی یہ گر کر 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔ قومی معیشت کے زوال کی داغ بیل وزیر اعظم مودی نے کرنسی پر پابندی (نوٹ بندی) سے ڈال دی تھی اور پھر اس کے بعد جی ایس ٹی (یعنی بدنامِ زمانہ گبر سنگھ ٹیکس ) کے تحت جو نیا نظام نافذ کیا گیا ، اس نے رہی سہی کسر پوری کردی اور معیشت بحران کا شکار ہوگئی ۔ اس کے بعد جو باقی بچا تھا اس کو کورونا نے تباہ و تاراج کیا۔

ملک میں اگر کوئی دانشمند حکمراں ہوتا تو وہ کورونا جیسی قدرتی آفت سے پڑنے والے معاشی دباؤ کو کم کرنے کے لیے اقدامات کرتا اور دنیا کے بیشتر ملکوں نے ایسا کیا گیا مثلاً بے روز گاری بھتہ یا دیگر ذرائع سے غریب عوام کی مدد وغیرہ لیکن ہندوستان میں اسیّ کروڈ لوگوں کو پانچ کلو اناج کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اس طرح لوگ ووٹ دینے کی خاطر زندہ تو رہے مگر غریب سے غریب تر ہوتے چلے گئے۔ پچھلے تقریباﹰ پچیس برسوں کے دوران آمدنی میں کمی اور غربت میں اضافہ کی بنیادی وجہ بے انتہا بیروزگاری اور زبردست مہنگائی کی دوہری مار ہے۔ ان دو چکوںّ کے درمیان ملک کا غریب پس رہا ہے اور یہ تو بس ایک جھانکی ہے اور آنے والے دن مزید خراب ہو سکتے ہیں۔ گزشتہ سال شائع ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح گذشتہ 45 سالوں میں سب سے زیادہ ہوگئی یعنی 2017-18 میں یہ 6.1 فیصد تک پہنچ گئی تھی لیکن پھر سی ایم آئی ای نے سروے کر کے یہ انکشاف کیا پچھلے سال وہ شرح دگنی ہو گئی ۔ یعنی 2021 کے آغاز کے بعد سے پہلے ششماہی میں ڈھائی کروڑ افراد بے روز گار ہو گئے۔ قومی معیشت کو ہرسال کم از کم دو کروڑ نئی نوکریوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن گذشتہ ایک دہائی میں سالانہ صرف 43 لاکھ نوکریاں نکلیں۔ یہ مودی حکومت کی سب سے سنگین ناکامی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی نے مشن ’میک ان انڈیا‘ کے تحت دیسی مصنوعات کے فروغ اور ہندوستان کو برآمدات کا مرکز بنانے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کروانے کی سعی کی ۔ صنعت و حرفت یعنی مینوفیکچرنگ کے شعبے کا ہدف جی ڈی پی میں 25 فیصد تھا لیکن اس میدان میں حکومت 15 فیصد سے آگے نہیں بڑھ سکی ۔ سینٹر فار اکنامک ڈیٹا اینڈ انالسسز کی تحقیق کے مطابق گذشتہ پانچ برسوں میں اس شعبہ کی نصف ملازمتیں ختم ہوگئی ہیں۔ کورونا کے دوران اگر وزیر اعظم آئے دن ٹیلی ویژن پر آکر اوٹ پٹانگ پروچن (نصیحت) دینے کے بجائے سنجیدگی سے معیشت پر توجہ فرماتے تو یہ جی ڈی پی نفی 8تک نہیں پہنچتی لیکن اس کے لیے جو یکسوئی درکار ہے اس کا موجودہ حکومت میں زبردست فقدان ہے۔ اس کے اثرات بجٹ میں خسارے سے کیا جاسکتا ہے۔ 2010 میں یہ گھاٹا بڑھ کر ساڑھے نو فیصد تک پہنچ گیا تھا جسے منموہن سنگھ نے قابو میں کیا اور مودی نے بھی کنٹرول میں رکھا لیکن 2021 میں وہ پھر سے اسی سطح پر پہنچ گیا ہے یعنی موجودہ حکومت اپنی آمدنی سے کہیں زیادہ خرچ کررہی ہے۔
گجرات کے لوگ صنعت و تجارت کے میدان میں بہت تیز ہوتے ہیں ۔ 2013کی انتخابی مہم کے دوران میڈیا نے گجرات ماڈل کی خوب تشہیر کرکے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہاں دودھ کی ندیاں بہہ رہی ہیں کیونکہ امول ڈیری ہے ۔ وزیر اعلیٰ کے سبب ہر طرف خوشحالی کا دور دورہ ہے اور مودی کو ملک کی کمان سونپ دی جائے تو سارا ملک ترقی کی راہ پر چل پڑے گا ۔ ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ نعرہ اسی پیغام کو سب لوگوں تک پہنچاتا تھا ۔ اب آئیے برآمدات کے شعبے میں اپنے پڑوسی ملک بنگلا دیش کی حسینہ سرکار کا مودی کی حکومت سے موازنہ کرکے اس کی حقیقت معلوم کریں ۔ سن 2011 بنگلا دیش کی برآمدات میں سالانہ اضافہ 30 فیصد تھا جبکہ ہندوستان 15 فیصد پر تھا ۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ پہلے بنگلا دیش نے اس جانب توجہ نہیں دی تھی اس لیے اچانک اتنا بڑا اضافہ ہوگیا اور پھر دونوں ممالک میں کمی ہونے لگی ۔

2014 میں جس وقت مودی نے اقتدار سنبھالا تو دونوں ممالک میں بر آمدات کے اضافہ کی شرح تقریباً 5 فیصد تھی لیکن اس وقت بھی بنگلا دیش میں رفتار ہندوستان سے قدرے زیادہ ہی تھی۔ 2015 دونوں کے لیے بہت برا ثابت ہوا ۔ اس سال بنگلادیش کی شرح نفی 3 فیصد پر پہنچی تو ہندوستان کی نفی 5 پر پہنچ گئی۔ 2017میں ہندوستان 5 پر آگیا جو دس فیصد کا اضافہ تھا اور بنگلا دیش اب بھی نفی 2 پر ہی تھا ۔ اس کے بعد 2018 میں بنگلادیش نے دس فیصد کی چھلانگ لگائی اور 8فیصد پر آگیا ۔ ہندوستان اس سے اوپر11 فیصد پر تھا ۔ 2019 میں انتخابی سال آیا اور سرکار کی ساری توجہ انتخابی مہم اور سرجیکل اسٹرائیک جیسے جذباتی نعروں پر مرکوز ہوگئی نتیجہ یہ نکلا کہ بنگلا دیش تو 11فیصد پر پہنچ گیا مگر ہندوستان نفی 2 پر آگیا یعنی 13فیصد کا نقصان ہوگیا۔ یہ انحطاط کورونا کے آنے سے قبل ہوچکا تھا مگر وزیر اعظم نمستے ٹرمپ کی نوٹنکی میں مصروفِ عمل تھے اور بنگلہ دیش آگے نکل چکاتھا۔ یہ ہے آٹھ سالوں کا وہ کارنامہ جس پر فخر جتایا جارہا ہے۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1226610 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.