پاکستانی جمہوریت کا المیہ یہ ہے کہ یہ چند خاندانوں کی
یرغمال بنی ہوئی ہے۔ میں تو اسے پاکستان کی بدقسمتی پر ہی معمول کروں گا کہ
یہ چند خاندان بغیر ایثارو قربانی اور جدوجہد کے روزِ اول سے زبردستی اس کی
قسمت کے مالک بنے ہوئے ہیں اور وہ کسی بھی حالت میں پاکستان کو اپنے آہنی
پنجوں سے رہائی نہیں دینا چاہتے ۔انگریزوں کی سر پرستی اور نوازشیں ان
خاندانوں کے استحکام اور برتری کی بنیاد ہیں۔عوام نے بڑی سر توڑ کوششیں کی
کسی نہ کسی طرح سے ان خاندانوں سے گلو خلاصی ہو جائے اور پاکستان اپنے قیام
کے حقیقی مقاصد سے بہرہ ور جائے لیکن ایسا ممکن نہیں ہو سکا۔۱۹۷۰ کے
انتخابات واحد انتخابات تھے جس میں ان انگریز نواز خاندانوں کو شکستِ فاش
سے دوچار ہو نا پڑا تھا لیکن انھوں نے جس سرعت اور تیزی سے مراجعت کی وہ
خود ایک حیران کن عمل ہے ۔ وہ اسی جماعت میں جوق در جوق شامل ہو گے جس کے
ہاتھوں انھوں نے ۱۹۷۰ میں شکست کھائی تھی۔وہ من پسند شامل بھی ہوئے اور
ٹکٹیں بھی حاصل کیں اور یوں انقلابی کارکنوں کو کنجِ تنہائی میں جانا پڑ
گیا۔کارکنوں کا کام دریاں سمیٹنا،بینر لگانا،کرسیاں سجانا اور نعرے لگانا
رہ گیا۔کارکنوں کی اہمیت،افادیت ، اور طاقت کو توکسی نہ کسی طرح کم ہونے سے
ضرور بچا لیا گیاجبکہ ا نھیں پارلیمانی سیاست کی فرنٹ سیٹ سے محروم کردیا
گیا کیونکہ وہا ں پر وڈیروں ، جاگیرداروں ، سرمایہ داروں ،دولتمندوں اور
صنعتکاروں کا قبضہ ہو چکا تھا ۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ جن کے لہو کی سرخی نے
انقلاب برپا کیا تھا ثمرات سمیٹتے وقت وہی ہاتھ ملتے رہ گے اور دولتمند
اسمبلیوں کی زینت بن گے۔کارکنوں کی اہمیت کا وہ سنہری وقت ایک دفعہ ہاتھ سے
نکل گیا تو پھر لوٹ کر نہیں آیا ۔ اب تو ہر جماعت نے کارکنوں کو ٹیشو پیپر
کی طرح استعمال کرنا شروع کر دیا ہے اور استعمال کے بعد انھیں بے کار سمجھ
کر پھینکنا رسم بن کر رہ گئی ہے ۔جماعت کے دروازے تو سب کیلئے کھلے ہوتے
ہیں لیکن ٹکٹیں انہی کیلئے مخصوص ہیں جن کی جیبیں لعل زرو جواہر سے بھری ہو
ئی ہیں۔پارٹی فنڈز کے نام پرکروڑوں کا چندہ بٹورنا مقصد ِ جماعت قرار پائے
تو غریب کو ٹکٹ سے کون نوازے گا؟۔سچ تو یہ ہے کہ ان چند مخصوص خاندانوں کی
دھونس دھاندلی اور دولت مندی کی وجہ سے پاکستان میں حقیقی جمہہو ریت کا
سورج طلوع نہیں ہورہا ۔،۔
اس وقت موروثی سیاست اور خاندانی سیاست پاکستان کی پہچان بنی ہوئی ہے۔باپ
کے بعدبیٹا اور اوراس کے بعد پوتا اپنے علاقہ کا نمائندہ منتخب ہوجا تا ہے
اور نسلی اقتدار کی یہ زنجیر ٹوٹنے کا نام نہیں لے رہی۔ کمال یہ ہے کہ یہ
مخصوص خاندان صرف اس جماعت کی کشتی میں سوار ہو تے ہیں جسے اقتدار کی مسند
پر بٹھایا جانا مقصود ہو تا ہے ۔اقتدار سے محرومی کے بعد یہ خاندان نئی
اقتداری جماعت کی کشتی میں سوار ہو جاتے ہیں اور یوں ذاتی مفادات کی خاطر
جماعتیں بدلنے کا رحجان کہیں بھی رکنے کا نام نہیں لیتا۔منحرف اراکین کی
اصطلاح بھی اسی مائنڈ سیٹ سے جڑی ہوئی ہے۔عوام چارو ناچار انہی نام نہاد
پردھانوں کے چرنوں اور آستانوں پر اپنے ووٹ نچھاور کرنا اپنے لئے اعزاز
سمجھتے ہیں جو دولت مندی کی علامت ہو تے ہیں ۔ستم ظریفی کی انتہا دیکھئے کہ
عوام الناس کو یہی چند خاندان ہر دور میں وزارتی مسندوں پر جلوہ افروز نظر
آتے ہیں ۔قومی مفاد کے نام پر اپنی ذاتی خواہشوں کی تکمیل ان خاندانوں کا
واحد ایجنڈا ہو تا ہے اور وہ اس سے سرِ مو انحراف نہیں کرتے ۔ قومی سوچ اور
ملکی بقا کے نام پر اقتدار کی راہداریوں کا یہ سفر پچھلے کئی عشروں سے جاری
و ساری ہے اور کوئی جماعت اس کلچر کو بدلنے کیلئے تیار نہیں۔ اسٹیبلشمنٹ کی
تھپکی اور سر پرستی ان اقتداری خا ندانوں کی اصل طاقت ہے لہذا اسٹیبلشمنٹ
کی ہدائت سے رو گردانی نہیں کی جاتی ۔ وہ کسی غیبی اشارے کے منتظر رہتے ہیں
اور یہ غیبی اشارے ہی قوم کی بد قسمی کی بنیاد بن جاتے ہیں۔طاقت چونکہ
اسٹیبلشمنٹ کی مٹھی میں بند ہو تی ہے لہذا ان کے اشارے پر عملداری میں ہی
سب کی عافیت ہوتی ہے ۔ان کی باہمی انڈر سٹینڈنگ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے
لیکن پھر بھی ہم آئین و قانون کا ڈھنڈورا پیٹتے نہیں تھکتے۔نعرہ بازی ایک
بات ہے جبکہ حقیقت کی دنیا دوسری بات ہے۔ ۔جسے اقتدار دینا ہو تا ہے اسے دے
دیا جاتا ہے اور باقی روتے بلکتے رہتے ہیں۔کوئی نوحہ گر ہو تا ہے کہ مجھے
کیوں نکالا اور کوئی چیختے چلاتے سر پر آسمان اٹھا لیتا ہے کہ میرا جرم کیا
تھا جو رات بارہ بجے عدالتیں کھولی گئی تھیں؟۔،۔
ہر علاقہ چند مخصوص خاندانوں کی چراگاہ ہوتا ہے اور وہ عوام کو اس چراگاہ
سے آزاد نہیں ہونے دیتے ۔سیاسی جماعتیں بھی ایسے تگڑے خاندانوں کی منتیں
کرتی رہتی ہیں کیونکہ انتخابات میں ان کی کامیابی کسی سیاسی جماعت کے
اقتدار کی راہیں کھولنے کی کلید ہو تی ہے۔الیکشن میں ہر نشست اہم ہوتی ہے
لہذا وننگ امیدوار کا چناؤ ضروری ہوتا ہے۔گیلانی،قریشی،ڈو
گر،بوسان،ہاشمی،مخدوم اور اس طرح کی دستار کے حاملین ہی ٹکٹ کے حقدار پائے
جاتے ہیں ۔ہم جیسے ناتواں اور بے مایا کو کون علاقے کی نمائندگی کیلئے اپنی
جماعتی نمائندگی کا پروانہ تھمائے گا؟ پاکستان میں دولت کے بغیر الیکشن اب
ایک خواب بن کر رہ گیا ہے اور اس معیار پر صرف وہی خاندان پورے اترتے ہیں
جن کی تجوریاں مال و دولت سے بھری ہوئی ہیں ۔غریب اور کمزور عوام کا کام
دولت مندوں کی حاشیہ برداری کرنے تک محدود ہو کر رہ گیا ہے کیونکہ دولت کی
طاقت محروموں کو ہمہ وقت سر نگوں کرنے کاہنر رکھتی ہے۔ کیا یہ کلچر کبھی
بدلے گا؟کیا کسان ،مزدور اور کمزور بھی ایوانوں کی زینت بنے گا؟ کیا متوسط
خاندانوں کے سپوت بھی کبھی پارلیمنٹ کی قوت بنیں گے؟کیاایمان و دیانت کے
پیکر کبھی اس قوم کی نمائندگی کا اعزا زپائیں گے؟کیا اس قوم کے درد مندوں
کیلئے کبھی ایوانوں کے دروازے کھلیں گے؟کیاوہ لوگ جن کا مرنا جینا پاکستان
کے ساتھ ہے اور جھنوں نے اسی مٹی میں دفن ہو نا ہے ان کی ذات پر اعتماد کر
کے انھیں اس ملک کے معاملات کا امین بنانیا جائے گا؟۔ میری ذاتی رائے ہے کہ
تعلیم یافتہ ماہرین جب تک ایوانوں کا حصہ نہیں بنیں گے،صالح ، ایماندارِ صا
حبِ کردار اور معاملہ فہم لوگوں کو اس ملک کی زمامِ کار نہیں سونپی جائے گی
یہ ملک دن بدن پستی کی جانب گامزن رہے گا۔موجودہ نااہل،کرپٹ ،اور کوتاہ
قائدین سے اس ملک کا مقدر نہیں بدلنے والا ۔ملک کا مقدر بدلنا ہے تو کھیل
کے موجودہ اصول بدلنے ہوں گے ، یہ پورا نظام بدلنا ہو گا ،یہ پورا سسٹم
بدلنا ہو گا اورنئے کھلاڑی میدان میں اتارنے ہوں گے۔ صاھبِ نظر، صاحبِ
علم،صاحب فکر ، اور صاحبِ کردار افراد اکٹھے کرنے ہوں گے تب کہیں جا کر یہ
منظر بدلے گا ۔یاد رکھیں کر پشن ،لوٹ مار،بد دیانتی اور متشدد رویے ،اعلی
کردار،علمی قوت،صالحیت ،ایمانداری اور صبرو تحمل سے ہی بدلے جا سکتے ہیں
لیکن اس جانب کوئی جماعت قدم نہیں اٹھا رہی کیونکہ مخصوص خاندان ایسا نہیں
چاہتے۔ ہو گا وہی جو یہ خاندان چاہیں گے کیونکہ انھیں اپنے اقتدار کا لالچ
ہے اور لالچ تو بری بلا ہو تا ہے۔انقلاب اور تبدیلی والے بھی اپنے مفادات
کی خاطر انہی خاندانوں کی چوکھٹ پر سر جھکاتے ہیں۔جب تک وہ کھیل میں ہیں یہ
کھیل یونہی جاری و ساری رہے گا۔ قوم قرضوں کی دلدل میں پھنسی رہے گی،اس کی
معیشت وینٹیلیٹر پر ہچکولے کھاتی رہے گی اور اس کی ترقی کا سفر معکوس رہے
گا۔دائروں کا سفر سفرنہیں ہوتا ۔اسے وقت کا ضیاع کہتے ہیں اور پاکستانی قوم
کے ساتھ یہی سب کچھ ہو رہا ہے۔دعا کریں کہ صبح صادق ہمارا بھی مقدر بن
جائے۔،۔
|