ملکہ بلقیس کا تخت اور حضرت سلیمان علیہ السلام

یوں تو سبھی پرندے حضرت سلیمان علیہ السلام کے مسخر اور تابع فرمان تھے لیکن آپ کا ہُدہُد آپ کی فرماں برداری اور خدمت گزاری میں بہت مشہور تھا، اسی ہُدہُد نے آپ کو ملک سبا کی ملکہ ''بلقیس'' کے بارے میں خبر دی تھی کہ وہ ایک بہت بڑے تخت پر بیٹھ کر سلطنت کرتی ہے اور بادشاہوں کے شایانِ شان جو بھی سروسامان ہوتا ہے وہ سب کچھ اس کے پاس ہے مگر وہ اور اس کی قوم ستاروں کے پجاری ہیں۔

اس خبر کے بعد حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے نام جو خط ارسال فرمایا، اس کو یہی ہُدہُد لے کر گیا تھا چنانچہ قرآن کریم کا ارشاد ہے کہ حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا:
تم میرا یہ خط لے کر جاؤ اور ان کے پاس یہ خط ڈال کر پھر ان سے الگ ہو کر تم دیکھو کہ وہ کیا جواب دیتے ہیں۔
(پ ۱۹، النمل، ۲۸)

چنانچہ ہُدہُد خط لے کر گیا اور بلقیس کی گود میں اس خط کو اوپر سے گرا دیا، اس وقت اس نے اپنے گرد امراء اور ارکانِ سلطنت کا مجمع اکٹھا کیا پھر خط کو پڑھ کر لرزہ براندام ہوگئی اور اپنے اراکین سے یہ کہا کہ ترجمہ قرآن:
اے سردارو! بے شک میری طرف ایک عزت والا خط ڈالا گیا، بے شک وہ سلیمان کی طرف سے ہے اور بے شک وہ اللہ کے نام سے ہے جو نہایت مہربان رحم والا یہ کہ مجھ پر بلندی نہ چاہو اور گردن رکھتے میرے حضور حاضر ہو۔
(پ ۱۹، النمل، ۲۹ تا ۳۱)

خط سنا کر بلقیس نے اپنی سلطنت کے امیروں اور وزیروں سے مشورہ کیا تو ان لوگوں نے اپنی طاقت اور جنگی مہارت کا اعلان و اظہار کر کے حضرت سلیمان علیہ السلام سے جنگ کا ارادہ ظاہر کیا، اس وقت عقلمند بلقیس نے اپنے امیروں اور وزیروں کو سمجھایا کہ جنگ مناسب نہیں ہے کیونکہ اس سے شہر ویران اور شہر کے عزت دار باشندے ذلیل و خوار ہوجائیں گے اس لئے میں یہ مناسب خیال کرتی ہوں کہ کچھ ہدیہ و تحائف اُن کے پاس بھیج دوں اس سے امتحان ہوجائے گا کہ حضرت سلیمان صرف بادشاہ ہیں یا اللہ عزوجل کے نبی بھی ہیں، اگر وہ نبی ہوں گے تو ہرگز میرا ہدیہ قبول نہیں کریں گے بلکہ ہم لوگوں کو اپنے دین کے اتباع کا حکم دیں گے اور اگر وہ صرف بادشاہ ہوں گے تو میرا ہدیہ قبول کر کے نرم ہو جائیں گے۔

چنانچہ بلقیس نے پانچ سو غلام پانچ سو لونڈیاں بہترین لباس اور زیوروں سے آراستہ کر کے بھیجے اور ان لوگوں کے ساتھ پانچ سو سونے کی اینٹیں اور بہت سے جواہرات اور مشک و عنبر اور ایک جڑاؤ تاج مع ایک خط کے اپنے قاصد کے ساتھ بھیجا، ہُدہُد سب دیکھ کر روانہ ہوگیا اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں آکر سب خبریں پہنچادیں چنانچہ بلقیس کا قاصد جب چند دنوں کے بعد تمام سامانوں کو لے کر دربار میں حاضر ہوا تو حضرت سلیمان علیہ السلام نے غضب ناک ہو کر قاصد سے فرمایا:
کیا مال سے میری مدد کرتے ہو تو جو مجھے اللہ نے دیا وہ بہتر ہے اس سے جو تمہیں دیا بلکہ تمہیں اپنے تحفہ پر خوش ہوتے ہو پلٹ جا ان کی طرف تو ضرور ہم ان پر وہ لشکر لائیں گے جن کی انہیں طاقت نہ ہو گی اور ضرور ہم ان کو اس شہر سے ذلیل کر کے نکال دیں گے یوں کہ وہ پست ہوں گے۔
(پ19،النمل:36،37)

چنانچہ اس کے بعد جب قاصد نے واپس آکر بلقیس کو سارا ماجرا سنایا تو بلقیس حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہو گئی اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا دربار اور یہاں کے عجائبات دیکھ کر اس کو یقین آگیا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام خدا عزوجل کے نبی برحق ہیں اور ان کی سلطنت اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے، حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کو اپنے دین کی دعوت دی تو اُس نے نہایت ہی اخلاص کے ساتھ اسلام قبول کرلیا پھر حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس سے نکاح کر کے اس کو اپنے محل میں رکھ لیا، اس سلسلے میں ہُدہُد نے جو کارنامے انجام دیئے وہ بلاشبہ عجائبات عالم میں سے ہیں جو یقیناً حضرت سلیمان علیہ السلام کے معجزات میں سے ہیں۔

*تختِ بلقیس کیا تھا اور کس طرح آیا؟*
ملکہ سبا ''بلقیس'' کا تختِ شاہی اَسّی گز لمبا اور چالیس گز چوڑا تھا، یہ سونے چاندی اور طرح طرح کے جواہرات اور موتیوں سے آراستہ تھا، جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے بلقیس کے قاصد اور اُس کے ہدیہ و تحائف کو ٹھکرا دیا اور اُس کو یہ حکم نامہ بھیجا کہ وہ مسلمان ہو کر میرے دربار میں حاضر ہوجائے تو آپ کے دل میں یہ خواہش پیدا ہوئی کہ بلقیس کے یہاں آنے سے پہلے ہی اُس کا تخت میرے دربار میں آجائے چنانچہ آپ نے اپنے دربار میں درباریوں سے یہ فرمایا:
اے درباریو! تم میں کون ہے کہ وہ اس کا تخت میرے پاس لے آئے قبل اس کے کہ وہ میرے حضور مطیع ہو کر حاضر ہوں ایک بڑا جن بولا میں وہ تخت حضور میں حاضر کردوں گا قبل اس کے کہ حضور اجلاس برخاست کریں اور میں بیشک اس پر قوت والا امانت دار ہوں۔
(پ 19،النمل: 38،39)

جنّ کا بیان سن کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے فرمایا کہ میں یہ چاہتا ہوں کہ اس سے بھی جلد وہ تخت میرے دربار میں آجائے، یہ سن کر آپ کے وزیر حضرت ''آصف بن برخیا رضی اللہ تعالیٰ عنہ" جو اسم اعظم جانتے تھے اور ایک باکرامت ولی تھے، انہوں نے حضرت سلیمان علیہ السلام سے عرض کیا جیسا کہ قرآن مجید میں ہے:
اس نے عرض کی جس کے پاس کتاب کا علم تھا کہ میں اسے حضور میں حاضر کردوں گا ایک پل مارنے سے پہلے۔
(پ19،النمل:40)

چنانچہ حضرت آصف بن برخیا نے روحانی قوت سے بلقیس کے تخت کو ملک سبا سے بیت المقدس تک حضرت سلیمان علیہ السلام کے محل میں کھینچ لیا اور وہ تخت زمین کے نیچے نیچے چل کر لمحہ بھر میں ایک دم حضرت سلیمان علیہ السلام کی کرسی کے قریب نمودار ہو گیا، تخت کو دیکھ کر حضرت سلیمان علیہ السلام نے یہ کہا:
یہ میرے رب کے فضل سے ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا ناشکری اور جو شکر کرے وہ اپنے بھلے کو شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرے تو میرا رب بے پرواہ ہے سب خوبیوں والا۔
(پ19،النمل:40)

 

Qazi Nadeem Ul Hassan
About the Author: Qazi Nadeem Ul Hassan Read More Articles by Qazi Nadeem Ul Hassan : 155 Articles with 164264 views Civil Engineer .. View More