#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَہِ قٓ ، اٰیت 1 تا 5
اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
قٓ
والقراٰن
المجید 1
بل عجبوا ان
جاءھم منذر منھم
فقال الکٰفرون ھٰذا شئی
عجیب 2 ءاذا متنا و کنا ترابا
ذٰلک رجع بعید 3 قد علمنا ما تنقص
الارض منہم و عدنا کتٰب حفیظ 4 بل
کذبوا بالحق لما جاءھم فھم فی امر مریج 5
اللہ نے انسان کو حُکم دیا کہ ٹھہرجا اور ٹھہر کر پہلے عزت کے ساتھ پڑھی
جانے والی اِس با عزت کتاب کے با عزت کلام کو سُن لے اور اُس کے بعد آگے
بڑھ لیکن انسان نے جب رُک کر یہ کلام سُنا تو اِس کلام کو سمجھنے سے پہلے
ہی حیران ہو کر کہنے لگا کہ بَھلا یہ کس طرح مُمکن ہے کہ مرنے کے بعد جب
ہمارے جسم مٹی میں مل کر مٹی ہو جائیں گے تو اُس کے بعد ہم دوبارہ زندہ کر
دیۓ جائیں گے ، یہ تو ہمارے نزدیک بہت ہی عجیب بات ہے حالانکہ ہم جانتے ہیں
کہ زمین ہماری اجازت سے انسانی جسم کے کس حصے کو کھاتی ہے اور ہمارے حُکم
سے انسانی جسم کے کس حصے کو بچاتی ہے کیونکہ انسانی جسم کے زمین کے اندر رہ
جانے اور انسانی جسم کے زمین سے باہر آجانے والے سارے کے سارے اجزاۓ جسم
ہماری ایک محفوظ کتاب میں محفوظ ہوتے ہیں لیکن انسان تو ہمارے اِس سچے بیان
کی وسعت میں جانے کے بجاۓ اِس کے جُھٹلانے پر ہی ڈٹ گیا ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کا حرف اَول { قِٓ } اَمر حاضر کے صیغے { قِف } کا قائم مقام ہے
جس میں اللہ نے انسان کو اپنا ایک خاص حُکم سُننے کے لیۓ پہلے رُکنے کا ،
پھر رُک کر حُکم سُننے کا اور پھر حُکم کو سُننے کے بعد اِس مقام سے آگے
بڑھنے کا اختیار دیا ہے ، اگر یہ حرفِ { قٓ } اپنے اِس محلِ وقوع پر علامتِ
مَد کے بغیر ہوتا تو اِس میں صرف ایک حُکم ہوتا لیکن اِس محلِ وقوع پر یہ
حرف { قٓ } چونکہ ایک بڑی علامتِ مَد کے ساتھ آیا ہے اِس لیۓ اِس مقام پر
اللہ کے ایک حُکم { ٹھہر جا } میں ایسا حُکمِ تکرارِ اور ایسا حُسنِ تکرار
ہے جس کا مقصد انسان کو اِس تاکید کا مؤکد بنانا ہے کہ اپنا اَگلا قدم
اُٹھانے سے پہلے اللہ کا حُکم سُن اور اُس کے بعد آگے بڑھ تاکہ تُو اِس
رَستے میں آنے والی ہر ایک ٹھوکر سے بچ کر سلامتی کے ساتھ اپنی منزلِ مقصود
پر پُہنچ جاۓ ، اِس سُورت کا موضوعِ سُخن وہ یومِ معاد و حشرِ اجساد ہے جس
میں معاد سے مُراد زمین پر آنے والا قیامت کا وہ انقلاب ہے جس انقلاب کے
آتے ہی زمین اپنے پیٹ میں رہنے والی ہر وہ چیز اُگل دے گی جو اُس انقلاب سے
پہلے وہ نگل چکی ہوگی اور حشرِ اجساد سے مُراد زمین میں بکھرے ہوۓ وہ
انسانی جسم ہیں جو جسم اِس انقلاب کے نتیجے میں زمین سے باہر آنے والی
چیزوں کے ساتھ ہی زمین سے باہر آجائیں گے ، معاد و حشرِ اجساد کا یہ معاملہ
قُرآن کے بیان کیۓ ہوۓ دلائل کی روشنی میں سمجھنا جتنا آسان ہے انسان کی
مُشکل پنسد طبعیت نے اِس کو اتنا ہی مُشکل بنا دیا ہے اور پھر عُلماۓ فلسفہ
کی بے مغز بحثوں نے اِس اُلجھاۓ معاملے کو اور بھی اُلجھا دیا ہے لیکن
زندگی کے بارے میں قُرآن نے جگہ جگہ پر جو علمی و عقلی اور فکری و نظری
دلائل دیۓ ہیں اُن دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ زمین کو خالقِ زمین نے اِس کے
روزِ اَوّل سے جو اجزاۓ زندگی دیۓ ہیں وہ اِس کے روزِ آخر تک کے لیۓ دیۓ
ہیں اِس لیۓ زمین کے وہ اجزاۓ زندگی زمین میں ہمیشہ سے ہمیشہ کے لیۓ موجُود
ہیں جن اجزاۓ زندگی کی بدولت زمین خود بھی زندہ رہتی ہے اور اِن اجزاۓ
زندگی کو بھی اپنی زندگی کے ساتھ زندہ رکھتی ہے جن اجزاۓ زندگی کا زندہ
رکھنا اُس کی زندگی اور دیگر زندہ اشیا کی زندگی کے لیۓ لازم ہے ، انسان
زمین کے سینے میں چُھپے ہوۓ اپنے اِنہی دائمی اَجزاۓ زندگی کے ساتھ زمین سے
باہر آتا ہے اور اِنہی اجزاۓ زندگی کے ساتھ زمین میں واپس جاتا ہے اور
قیامت کے روز بھی وہ اپنے اِنہی زندہ اجزاۓ زندگی کے ساتھ اسی طرح زندہ ہو
کر زمین سے باہر آجاۓ گا جس طرح وہ اِس وقت زمین سے باہر آتا اور زمین کے
اندر جاتا نظر آتا ہے مگر انسان جب یہ سچی بات سُنتا ہے تو وہ زمین کے
اجزاۓ زندگی پر غور و فکر کے بجاۓ اپنے جسم کے گلے سڑے ہوۓ گوشت پوست اور
اپنے جسم کی ٹوٹی پھوٹی ہڈیوں کے وجُود میں آنے کے تصورات میں اُلجھ جاتا
ہے حالانکہ انسان کا طویل مشاہدہ اِس اَمر کا گواہ ہے کہ چیزوں کا محلِ
وقوع بدل جانے سے چیزوں کی رنگت اور ساخت بھی بدل جاتی ہے ، پھلوں کے رنگ
اور ذائقے بھی بدل جاتے ہیں اور انسانوں کے قد کاٹھ اور رنگ رُوپ بھی بدل
جاتے ہیں اِس لیۓ معاد و اجسادِ معاد کے بارے میں یہ انسانی بحث ایک بالکُل
ہی لایعنی بحث ہے کہ انسانی جسم مٹنے کے بعد بنے گا تو وہ ہُو بہُو ایسا ہی
جسم کس طرح بن جاۓ گا جیسا جسم انسان کے پاس اِس دُنیا میں اِس وقت موجُود
ہے اِس لیۓ قُرآن نے انسان کے اِس خیال کے مطابق انسانی جسم کے ایسے جسم
اور ویسے جسم کے بجاۓ صرف یہ بحث کی ہے کہ انسان جس طرح موجُودہ زندگی سے
پہلے زمین کے اجزاۓ زندگی میں موجُود رہا ہے اسی طرح موت کے بعد بھی وہ
زمین کے اِن اَجزاۓ زندگی میں موجُود رہے گا اور جس طرح اِس سے پہلے وہ
حرکت و عمل کا ایک حامل جسم لے کر زمین پر آیا تھا اسی طرح مرنے کے بعد بھی
وہ ایک نۓ جسم و جان کا حامل بن کر زمین پر آجاۓ گا ، قُرآنِ کریم نے اِس
سُورت کے اِس سلسلہِ کلام کے آغاز میں اپنے اِس دعوے کے حق میں جو پہلی
دلیل دی ہے وہ یہ ہے کہ زمین کے جسم میں جو اَجزاۓ زندگی رکھے گۓ ہیں اُن
میں سے کُچھ اجزاۓ زندگی کو زمین کھاتی رہتی ہے اور کُچھ اجزاۓ زندگی کو
زمین بچاتی رہتی ہے اور جن اجزاۓ زندگی کو زمین بچاتی رہتی ہے اُنہی اجزاۓ
زندگی میں انسانی زندگی کا وہ جوہرِ زندگی موجُود ہے جس جوہرِ زندگی نے
قیامت کے یومِ انقلاب کے نتیجے میں زمین پر آنا ہے اور انسان کو ایک نئی
زندگی کے ایک نۓ دور میں واپس لانا ہے ، ہر چند کہ انسانی زندگی کے ہر دن
کے بعد آنے والی شب میں ہر انسان پر ایک قلیل المُدتی موت اور انسانی زندگی
کے ہر دن میں ہر انسان پر ایک قلیل المُدتی زندگی بھی آتی ہے ، اگر انسان
اپنے اسی جانی تجربے اور اسی جہانی مشاہدے پر سنجیدگی سے غور کر لے تو اُس
کو موت کے بعد زندگی کا یقین حاصل ہو سکتا ہے لیکن کُفر تو نام ہی اُس
یقینی ادراک کا ہے کہ جس یقینی ادراک کے غیر یقینی ہونے کا انسان کو ذرا
بھی شُبہ نہ ہو لیکن اِس کے باوجُود بھی وہ اپنی ہٹ دھرمی کی بنا پر ہر
دلیل کو جُھٹلا کر اپنے جھوٹے انکار پر قائم رہے ، ظاہر ہے کہ اِس طرح کے
مُنکر انسان پر کوئی الہامی و غیر الہامی دلیل اثر انداز نہیں ہوتی لیکن جس
انسان کے دل میں انکار کی یہ بیماری نہیں ہوتی اُس کے لیۓ ہر شب کی نیند
اور ہر دن کی بیداری ہی موت کے بعد ملنے والی زندگی کی ایک قوی دلیل ہوتی
ہے ، بہر حال اٰیاتِ بالا کے اِس سلسلہِ کلام میں آنے والی تیسری اٰیت میں
درج کی گئی یہ خُدائی دلیل ایک حرفِ آخر دلیل ہے کہ زمین کے جن اجزاۓ حیات
کو اللہ کی طرف سے مٹانا مقصود ہوتا ہے اُن اجزاۓ زمین کو زمین اللہ کے
حُکم سے کھاتی رہتی ہے اور جن اجزاۓ زمین کو اللہ کی طرف سے خلقِ جدید کے
لیۓ بچانا مقصود ہوتا ہے اُن اجزاۓ زمین کو زمین اللہ کے حُکم سے بچاتی
رہتی ہے اور یہی وہ اجزاۓ زمین ہیں جن سے موت کی شب پر وہ صُبح زندگی طلوع
ہوگی جس کا انسان انکار کر رہا ہے !!
|