#العلمAlilmعلمُ الکتابسُورَةُالحُجرات ، اٰیت 13 تا
1اخترکاشمیری
علمُ الکتاب اُردو زبان کی پہلی تفسیر آن لائن ہے جس سے روزانہ ایک لاکھ سے
زیادہ اَفراد اِستفادہ کرتے ہیں !!
براۓ مہربانی ہمارے تمام دوست اپنے تمام دوستوں کے ساتھ قُرآن کا یہ پیغام
زیادہ سے زیادہ شیئر کریں !!
اٰیات و مفہومِ اٰیات !!
یٰایھا
الناس انا
خلقنٰکم من
ذکر و انثٰی و
جعلنٰکم شعوبا و
قبائل لتعارفوا ان اکر
مکم عند اللہ اتقٰکم ان
اللہ علیم خبیر 13 قالت
الاعراب اٰمنا قل لم تؤمنوا و
لٰکن قولوا اسلمنا و لما یدخل
الایمان فی قلوبکم و ان تطیع اللہ
و رسولهٗ لا یلتکم من اعمالکم شیئا ان
اللہ غفوررحیم 14 انما المؤمنون الذین
اٰمنوا باللہ و رسولهٖ ثم لم یرتابوا و جٰھدوا
باموالھم و انفسھم فی سبیل اللہ اولٰئک ھم
الصٰدقون 15 قل اتعلمون اللہ بدینکم واللہ یعلم
ما فی السمٰوٰت وما فی الارض واللہ بکل شئی علیم
16 یمنون علیک ان اسلموا قل لا تمنوا علی اسلامکم بل
اللہ یمن علیکم ان ھدٰکم للایمان ان کنتم صٰدقین 17 ان
اللہ یعلم غیب السمٰوٰت والارض واللہ بصیر بما تعملون 18
اے دیدہ ورو ! ہم نے تُمہاری نسل کو جن پہلے مرد و زَن سے پیدا کیا تھا اُن
میں مرد عورت سے برتر نہیں تھا اور عورت مرد سے کم تر نہیں تھی اِس لیۓ اُن
سے تُمہاری جو انسانی نسل چلی ہے اُس نسل میں بھی کوئی مرد عورت سے برتر
اور کوئی عورت مرد سے کم تر نہیں ہے ، جہاں تک تُمہاری ددھیال و ننھیال اور
سُسرال کی نسلی شاخوں کا تعلق ہے تو وہ تُمہارے لیۓ تُمہاری پہچان کا ذریعہ
ہیں لیکن اللہ کے نزدیک تُمہارے وہی اَفراد عزت دار ہیں جو اللہ کے فرمان
بردار ہیں اور جو افراد اللہ کے فرمان بردار ہیں اللہ اُن کے اعمالِ خیر سے
خبر دار ہے لہٰذا نواحِ شہر کے جن اَفراد نے اپنے ایمان کا اعلان کیا ہے
اُن پر بھی یہ اَمر واضح کر دیا جاۓ کہ ابھی تو تُم نے اپنی زبان سے صرف
قُرآن کے اُس نظامِ سلامتی کو قبول کرنے کا اعلان کیا ہے جس کا قلبی
اطمینان وہ تدریجی و ارتقائی عمل ہے جو صدقِ دل سے اللہ و رسول کے فرمان
بردار ، جان و مال کے ایثار اور جُہدِ حیات میں مُسلسل مصروفِ کار ہونے کے
بعد حاصل ہوتے ہوتے ہی حاصل ہوتا ہے اور تُم کو اپنا یہ ایمان و اطمینان
ابتدا و انتہا کے کسی مرحلے میں بھی اپنی زبان سے اللہ پر ظاہر کرنے کی
ضرورت نہیں ہے کیونکہ اللہ ارض و سما کی جُملہ باطن اَشکال کی طرح تُمہارے
باطن کے جُملہ خیالات کو بھی جانتا ہے اور اِس وقت تُمہاری شکر گزاری کے
لیۓ تُمہارے لیۓ اتنا ہی جان لینا کافی ہے کہ اللہ نے تُمہارے اعلانِ
سلامتی کے بعد تُم کو اطمینانِ دل کی راہ پر لگا دیا ہے اور وہ جس طرح اِس
ارض و سما کی تمام نادیدہ چیزوں کو بذاتِ خود دیکھ رہا ہے اسی طرح تُمہارے
باطن کے تمام پوشیدہ اعمال کو بھی بذاتِ خود ہی دیکھ رہا ہے اِس لیۓ
تُمہارے کسی عمل کے ضائع ہو جانے یا بے صلہ رہ جانے کا بھی کوئی خطرہ نہیں
ہے !
مطالبِ اٰیات و مقاصدِ اٰیات !
اِس سُورت کے خاتمہِ کلام کا یہ آخری آخری مضمون انسانی حیات کے جن ایمان
افروز حقائق پر مُشتمل ہے اُن ایمان افروز حقائق میں پہلی حقیقت یہ ہے کہ
اِن 6 اٰیات سے پہلی 12 اٰیات میں انسان کو جن دینی و رُوحانی اور اَخلاقی
و معاشرتی اَقدار کی جو علٰی تعلیم دی گئی ہے اور موجودہ اٰیات میں جو
اعلٰی تعلیم دی جا رہی ہے اُس تعلیم پر عمل در آمد کی راہ میں جو سب سے بڑی
رکاوٹ پیدا ہوتی ہے وہ رکاوٹ انسانی مزاج کی اُس خرابی کی بنا پر پیدا ہوتی
ہے جس خرابی کی بنا پر ایک انسان خود کو دُوسرے انسانوں سے برتر تصور کرتا
اور دُوسرے انسانوں کو خود سے کم تر خیال کرتا ہے اِس لیۓ انسانی مزاج کی
اُس کُہنہ خرابی کو دُور کرنے کے لیۓ قُرآن نے انسان کے سامنے انسانی تخلیق
کی یہ کُہنہ مثال پیش کی ہے کہ انسانی نسل کو جس پہلے مرد اور جس پہلی عورت
سے اللہ تعالٰی نے پیدا کیا تھا اُن دونوں انسانوں میں سے کوئی بھی انسان
اپنے دُوسرے ساتھی کے مقابلے میں برتر نہیں تھا اور کوئی بھی انسان اپنے
دُوسرے ساتھی کے مقابلے میں کم تر بھی نہیں تھا اِس لیۓ جَب سے اَب تک اور
اَب سے اَبد تک زمین کے تمام انسانوں کے لیۓ جو دائمی قانُون بن گیاہے اُس
قانُون کے مطابق اُس پہلے انسانی جوڑے سے جس طرح وہ پہلی مساوی الحقوق
انسانی نسل چلی ہے اُس کے بعد بھی ہر انسانی جوڑے کی اسی طرح کی ایک مساوی
الحقوق نسل چلتی چلی آرہی ہے جس میں کوئی انسان بطور انسان برتر بھی نہیں
ہوتا اور کوئی انسان بطور انسان کم تر بھی نہیں ہوتا ، انسان کی اِس تخلیقی
مساوات کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالٰی نے انسانی عزت کا معیار انسانی نسل کو
نہیں بنایا بلکہ عزت کا معیار انسان کے اُس مُثبت عمل کو بنایا ہے جس مُثبت
عمل کے لیۓ اُس نے اپنا یہ مُثبت قانُون بنایا ہے اِس لیۓ جس انسان کا جو
بھی مُثبت عمل ہے وہ مُثبت عمل ہی اُس کی عزت کا معیار ہے اور ہر انسان کا
وہی عمل ہی مُثبت عمل ہے جو اللہ تعالٰی کے اَحکامِ نازلہ کی اطاعت کے تابع
ہے ، اِس اَزلی و اَبدی قانُون کے مطابق جو اہلِ زمین اللہ تعالٰی کے
اَحکامِ نازلہ کے اطاعت گزار ہیں وہی اللہ تعالٰی کے نزدیک عزت دار ہیں اور
جو اہلِ زمین اللہ کے اَحکامِ نازلہ کے اطاعت گزار نہیں ہیں وہ اِس عزت کے
حق دار نہیں ہیں چاہے اُن کا رنگ اُن کی اپنی نظر میں کتنا ہی خوب صورت ہو
اور اُن کی نسل اُن کے اپنے خیال میں کتنی ہی برتر ہو ، اِن اٰیات میں بیان
کیۓ گۓ اِس پہلے فطری قانُون کے بعد جو دُوسرا فطری قانُون بیان کیا گیا ہے
وہ یہ ہے کہ قُرآن کے جس قانُونِ سلامتی کا نام اسلام ہے وہ اِس دین کا وہ
پہلا مرحلہِ سلامتی ہے جس میں ایک انسان دُوسرے انسان کو اپنی طرف سے
سلامتی دینے کا وعدہ کرتا ہے اور دُوسرے انسان سے اپنی سلامتی پانے کی یقین
دھانی چاہتا ہے جس کی پہلی عملی صورت مرد و زَن کے باہمی تعلق کی وہی صورت
ہے جس میں وہ مرد و زن کے طور پر ایک دُوسرے کو سلامتی کی ضمانت دیتے ہیں
اور ایک دُوسرے کے ساتھ مل کر سلامتی کے ساتھ ایک نسل کے بعد اپنی دُوسری
نسل چلاتے ہیں اور اِس پہلے مرحلہِ سلامتی سے سلامتی کے ساتھ گزرنے کے
نتیجے میں اُن کو جو قلبی و رُوحانی اطمینان حاصل ہوتا ہے اُس قلبی و
رُوحانی اطمینان ہی کا دُوسرا نام ایمان ہے لیکن یہ ایمان و اطمینان انسان
کے اِس اعلانِ سلامتی کے فورا بعد ہی انسانی رُوح میں داخل نہیں ہو جاتا
بلکہ انسانی ذات میں آنے والے ایک تدریجی ارتقاء ، انسانی حیات میں آنے
والے ایک تدریجی ارتفاع اور انسانی خیالات میں آنے والے ایک تدریجی انقلاب
کے بعد آتے آتے ہی آتا ہے ، قُرآن نے اپنے اِس قانُونِ تدریج کو سمجھانے کے
لیئے نواحِ مکہ و نواحِ مدینہ کے اُن عربی قبائل کے مزاج کی مثال دی ہے جن
قبائل نے قبولِ اسلام کا پہلا اعلان کرتے ہی اپنے دل میں یہ گمان قائم کر
لیا تھا کہ اللہ تعالٰی کو اُن کا یہ اعلان ہی مطلوب ہے جو انہوں نے کر دیا
ہے اور اِس کے بعد بھی انہوں نے عُمر بھر اپنے مسلمان ہونے کا یہی اعلان
کرتے رہنا ہے اور اِس اعلان کے سوا انہوں نے اور کُچھ بھی نہیں کرنا ہے ،
قُرآنِ کریم نے نواحِ شہر کے اُن سادہ دل افراد کی اِس غلط فہمی کو یہ کہہ
کر دُور کیا ہے کہ اسلام کا یہ زبانی اقرار تو قبولِ حق کا ایک ابتدائی
وعدہ ہے جو انسان کو ایثارِ جان و مال اور ہجرت و جہاد کے راستے پر ڈالتا
ہے اور جب انسان اِن اعمالِ کی مُسلسل اَنجام دہی کے بعد اِن اعمالِ خیر کا
عادی ہو جاتا ہے تو اُس کو وہ اطمینانِ قلب و جان بھی حاصل ہوجا تا ہے جس
کا نام ایمان ہے اور اِس کے بعد انسان اسلام و ایمان کے اسی زادِ راہ کے
ہمراہ اپنے اُس سفرِ حیات پر چلنے کا اہل ہو جاتا ہے جو انسان کو اُس منزلِ
مُراد تک لے جاتا ہے جو قُرآن کی وہ منزلِ مطلوب ہے جس کے لیۓ قُرآن نازل
ہواہے ، اِن اٰیات کے اِن دو مرکزی مضامین کے ضمن میں انسان کو یہ بات بھی
بتادی گئی ہے کہ انسان جو عملِ خیر کرتا ہے اُس کا بار بار اللہ کے سامنے
ورد کرنا ایک بہت ہی بے معنی عمل ہے کیونکہ اللہ جو جہان کا جاننے والا ہے
وہ انسان کے اِن اعمال کو بھی بخوبی جانتا ہے اور اِس ضمنی کلام کے ضمن میں
انسان کو یہ بات بھی یاد کرائی گئی ہے کہ جس انسان نے اِس دینِ حق کو حق
سمجھ کر قبول کیا ہے اُس کو اللہ کے رسُول کے سامنے بھی کوئی احسان جتانے
کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ جو انسان جو بھی بَھلا کام کرتا ہے وہ اپنی
بَھلائی کے لیۓ کرتا ہے جس کا اُسی کی ذات کو فائدہ ملتا ہے !!
|