بجٹ زدہ یا قحط زدہ


سال 2022-23 کا بجٹ پیش کر دیا گیا ہے۔ حسب سابق حکومت کے حامی اسے موجودہ حالات کا بہترین اور عوام دوست بجٹ قرار دے رہے ہیں ۔ان کے خیال میں ھکومت نے نا مساعد حالات کے باوجود عوام پر مراعات کی برسات کر دی ہے۔ ان کے بقول ملک ڈیفالٹ میں جا رہا تھا مگر ان کی بہتر حکمت عملی نے اسے ڈیفالٹ سے بچا لیا ہے۔جب کہ حکومت کے مخالف اسے بد ترین اور آئی ایم ایف کا بجٹ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے خیال میں ایک بہتر معیشت کو انہوں نے بد تر صورت سے دو چار کر دیا ہے۔ وہ اسے ناکام بجٹ قرار دیتے ہیں۔ حکومتی مراعات کو وہ اونٹ کے منہ میں زیرہ قرار دیتے ہیں۔ پتہ نہیں اونٹ بیچارے نے کبھی زیرہ چکھا بھی ہے کہ نہیں مگر ہر بجٹ پہ اپوزیشن اس کے منہ میں زیرہ ضرور ڈالتی ہے۔ذائقہ البتہ میرے جیسے لوگ محسوس کرتے ہیں۔ یہ ساری بیان بازی اور کشمکش ایک مخصوص کلاس کے درمیان ہوتی ہے۔ ایک وہ جو اقتدار میں ہوتے ہیں، دوسرے وہ جو اقتدار کے تمنائی ہوتے ہیں۔ ایک تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جو عوام کہلاتی ہے ۔جس کے حوالے سے یہ سارا کھیل ہوتا ہے اس کی حالت زار کی خبر تو سب کو ہوتی ہے مگر اس کی پرواہ کسی کو بھی نہیں ہوتی۔ ہر بجٹ کے بعد ان کی حالت مزید پتلی ہو جاتی ہے مگر وہ بڑی بے حس اور مجبور کلاس ہے ۔ وہ ہر سال اس جبر کا سامنا کرتے ہیں مگر کچھ کر نہیں سکتے سوائے تھوڑا بہت شور کرنے کے ، سو کرتے ہیں اور پھر سو جاتے ہیں اگلے سال کے زیرے کے انتظار میں۔

کہتے ہیں قحط بڑی بری بلا ہے۔ قط کا مطلب ہے خشک سالی، سوکھ جانا، ناپید ہو جانا، کسی چیز کا لمبے عرصے تک نہ ملناکسی سال اگر بارش نہ ہو تو فصلیں سوکھ جاتی ہیں، اناج ناپید ہو جاتا ہے ۔ لوگ دانے دانے کو ترستے ہیں۔ باشیں کم ہونے سے زمین میں پانی کم ہو جاتا ہے، ندی نالے، جھیلیں خشکی کا شکار ہو جاتی ہیں، کم پانی کی بنا پر فصل حاصل نہیں ہوتی۔سبزیاں اور پھل پیدا نہیں ہوتے۔ گندے پانی کے جوہڑ مچھر اور دوسرے کیڑوں کی افزائش کا باعث ہوتے ہیں جو بیماریوں کا سبب بنتے ہیں۔ ان حالات میں امیر غریب کا فرق مٹ جاتا ہے۔ قحط زدہ لوگ امیر بھی ہوں تو پیسے ہونے کے باوجود جو چیز ملتی ہی نہیں کیسے حاصل کریں۔ کاروبار ویسے بھی ان حالات میں کم ہی نہیں ختم ہو جاتے ہیں، پیسے کب تک ساتھ دیتے ہیں۔ غریب تو خیر غریب ہوتا ہے، وہ تو ہلکا سا جھٹکا بھی برداشت نہیں کر پاتا۔ گھروں میں بھوک اور بیماریاں ناچتی ہیں۔بھوک بذات خودسب سے بڑی بیماری ہے۔ ان حالات انسان انسان کا دشمن ہو جاتا ہے۔ اپنی بھوک مٹانے کے لئے وہ دوسرے کو مٹانے سے بھی دریغ نہیں کرتا۔ ابتری اور انارکی اس علاقے کا مقدر بن جاتی ہے،ہر ناجائز چیز جائز ہو جاتی ہے۔زندگی تلخ ہو جاتی ہے اور قحط کا شکار عام لوگ دنیا کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔

آج ملک میں مہنگائی کا راج ہے۔ میں خوردنی تیل کا پیکٹ جس میں کلو کلو کے پانچ پاؤچ ہوتے ہیں کچھ عرصہ پہلے تک سات سو سے آٹھ سو میں خریدتا رہا ہوں ۔ پچھلی حکومت کی مہربانی سے وہ پچیس سو سے زیادہ میں ملنا شروع ہوا۔ موجودہ حکومت کی کمال مہربانی ہے کہ صرف ایک ماہ میں اس کی قیمت میں ایک ہزار سے زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اب اس کی قیمت بڑھ کرچار ہزار کو چھونے جا رہی ہے۔دالیں کبھی غریب کی خوراک تھی۔ میرے بچپن میں تو جو مزدور لوگ ہمارے روائتی تنوروں سے کھانا کھاتے ،ان کو دو روٹیوں کے ساتھ دال کی پلیٹ مفت ملتی تھی۔ وقت بدلتا گیا۔ دالیں پچاس روپے کے لگ بھگ یا کچھ کم فی کلو کے حساب سے اک عرصے تک دستیاب تھیں ۔ اب دالوں کی قیمتیں تین سو روپے فی کلو سے بھی بڑھ چکی ہیں۔ برائلر کی آمد سے قبل مرغی کا گوشت ایک عیاشی ہوتا تھا۔ برائلر نے اسے عوامی رنگ دیا۔ جب تک بڑے سرمایہ دار اس بزنس میں نہیں آئے تھے مرغی کا گوشت سو روپے فی کلو کے حساب سے مل جاتا تھا۔ اب بڑھتے بڑھتے یہ چھ سو روپے کلو تک پہنچ چکا۔ برائلر مرغی جو کل تک عوامی خوراک تھی اب عیاشی میں شامل ہوتی جا رہی ہے۔پٹرول، بجلی اور گیس سب کی ضرورت ہے ۔ پٹرول ہو گا تو ٹرانسپورٹ چلی گی۔ پٹرول مہنگا تو ٹرانسپورٹ مہنگی۔ ٹرانسورٹ مہنگی تو ہر چیز مہنگی۔گیس صنعتی پہیہ چلانے کے لئے ضروری ہے، مہنگی گیس سب پہیہ روک دے گی۔صنعتیں تباہ ہو جائیں گی۔بجلی آتی ہی نہیں مگر اس کا بل بڑی ڈھٹائی سے آتا ہے اور اتنا معقول ہوتا ہے کہ لوگ سوچتے رہ جاتے ہیں کہ یہ بل آخر کس چیز کا ہے۔لوڈ شیڈنگ کا عذاب جاری ہے لوگ پریشان ہیں مگر لگتا ہے کہ اسے ختم کرنا حکومت کی ترجیحات میں شامل نہیں۔

میں ایک ریٹائرڈ آدمی ہوں ۔ ریٹائرڈ لوگوں کی سب سے بڑی ضرورت دوائیں ہوتی ہیں اس لئے کہ عمر کے آخری حصے میں نہ چاہتے ہوئے بھی کھانسی ، نزلہ، زکام ، جسم کے کسی حصے میں درد ، دل کا روگ، بلڈ پریشر ، شوگر یا کوئی دوسرا روگ ، اس عمر میں آدمی بچ ہی نہیں سکتا ۔ دوائیں ہیں کہ کچھ سہارا دیتی ہیں۔ دواؤں کی قیمتیں چند سالوں میں آسمان کو چھونے لگی ہیں۔ پنشنر پریشان ہیں کہ اس عمر میں جو تھوڑی سی پنشن ہے اسے اپنے کھانے پینے پر خرچ کریں یا صحت کی ضروریات پہ۔لگتا ہے مہنگائی کوسٹر پر رواں دواں ہے جب کہ تنخواہ اور خصوصاً پنشن میں اضافہ گدھا گاڑی پر۔ آج مہنگائی کی صورت حال سے اندازہ ہوتا ہے کہ اگر یہی حالات رہے تو قحط زدہ اور بجٹ زدہ لوگوں میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔ مہنگائی قحط کی طرح ہر چیز کو متاثر کرے گی۔جس طرح لوگ قحط میں باہر نکل آتے ہیں، اسی طرح مہنگائی انہیں باہر کھینچ لائے گی۔جب لوگوں کے گھر کا چولہا نہیں جلے گا تو ابتری پھیلے گی۔ انارکی کو ہوا ملے گی۔ امن و عامہ کی صورت حا ل جو پہلے بھی بہت اچھی نہیں، اور بگڑے گی۔چھینا جھپٹی فروغ پائے گی۔ لوگ گھروں میں محفوظ نہیں رہیں گے۔ کاش ہمارے سیاستدان اور وہ قوتیں جو آج کے سیاستدانوں کے پتلی تماشے میں مرکزی رول ادا کر رہی ہیں، یہ جان جائیں کہ ان کی بقا بھی اس ملک کے عوام کی بقا سے وابستہ ہے اور وہ سب بھول کر فقط اس ملک کا سوچیں۔حالات جس تیزی سے بگڑ رہے ہیں ان میں کسی کو یہ غلط فہمی نہیں ہونی چاییے کہ وہ ہر صورت محفوظ ہے۔

Tanvir Sadiq
About the Author: Tanvir Sadiq Read More Articles by Tanvir Sadiq: 573 Articles with 444096 views Teaching for the last 46 years, presently Associate Professor in Punjab University.. View More