پریاگ راج میں جاوید محمد کے گھر پر غیر قانونی بلڈوزر
چلا کر یوگی سرکار نے جو غلطی کی ہے اس کی اسے بھاری قیمت چکانی پڑے گی ۔
جس طرح سی اے اے مظاہرین سے وصول کیا جانے والا جرمانہ ذلیل ہوکر واپس کرنا
پڑا اسی طرح رسوا ہوکر یہ گھر دوبارہ تعمیر کرکے دینا ہوگا کیونکہ یہ بھی
اسی طرح کی بالائے قانون کی جانے والی سرکاری غنڈہ گردی ہے۔ اہانتِ رسول ﷺ
کے معاملے میں حکومت جس طرح سے لیپا پوتی کررہی ہے اس سے مسلمانوں کے اندر
پایا جانے والا غم وغصہ کم نہیں ہوپایا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نوپور کی گرفتاری
کا مطالبہ اس کی پھانسی تک پہنچ گیا ہے۔ اس کا ایک شرمناک پہلو یہ ہے
اترپردیش کے مختلف شہروں میں ہونے والے احتجاج کے خلاف کارروائی کا بہانہ
بناکر یوگی سرکار اپنے مخالفین کو ٹھکانے لگانا چاہتی ہے۔ یہ و ہی گھسی پٹی
حکمت عملی ہے جس کا استعمال کرکے امیت شاہ کی دہلی پولیس نے فساد کی آڑ
میں سی اے اے کے خلاف تحریک چلانے والے جہد کاروں کو نشانہ بنایا تھا ۔
کانپور میں ایک ہزار نامعلوم افراد اور پریاگ راج میں پانچ ہزار لوگوں پر
کارروائی کرنے کا اعلان دراصل خوف پھیلانے جابرانہ کوشش نہیں تو اور کیا
ہے؟ اس کے ذریعہ بی جے پی ان لوگوں کو سبق سکھانا چاہتی ہے جنہوں نے گزشتہ
انتخاب میں اس کو ناکامی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا ۔ اس کی 55 سیٹ گھٹا کر
ایس پی کو 70 سے زیادہ اضافی نشستوں پر کامیاب کردیا تھا ۔ یہ سراسر سیاسی
انتقام ہے۔
یوگی سرکار کے اندر اپنے مخالفین سے انتخابی میدان میں لڑ کر جیتنے کی ہمت
نہیں ہے اس لیے وہ پولیس کی مدد سے انہیں ڈرا دھمکا کر خاموش کرنے کی کوشش
کررہی ہے۔ اس بدلے کی کارروائی سے بات نہیں بنے گی ۔ یہ لوگ اور بھی زیادہ
بے خوف ہوکر لڑیں گے اور کامیاب ہوں گے ۔اترپردیش سرکار کے اس ظلم و جبرکو
آفرین فاطمہ کے ساتھ ہونے والے جابرانہ سلوک سے سمجھا جاسکتا ہے۔ آفرین
جواہر لعل نہرو یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کی منتخب اسٹوڈنٹ لیڈر تھیں اور
سی اے اے مخالف تحریک کے نمایاں چہرے کے طور پر سامنے آنے والوں میں سے
ہیں ۔ فی الحال وہ ویلفیئر پارٹی کی ذیلی تحریک فریٹرنیٹی موومنٹ کی قومی
سکریٹری ہیں۔ گزشتہ انتخاب میں ویلفیئر پارٹی نے کھل کر یوگی سرکار کی
مخالفت کی جو اس کا حق تھا۔ ایسا لگتا ہے یوگی سرکار نے حالیہ تشدد کی آڑ
میں انتقام لے کر اس کی حوصلہ شکنی کا ارادہ کرلیا ہے ۔
سرگرم سماجی کارکن آفرین فاطمہ کے قومی خواتین کمیشن کو لکھی گئی شکا یت
سےاس بات کا اس کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ انہوں نے اپنے خط میں الزام
لگایا ہے کہ ان کے والد، ماں اور بہن کو جمعہ کی رات الہ آباد پولیس نے
بغیر کسی نوٹس یا وارنٹ کے حراست لے لیا اور کسی انجان مقام پر لے گئی۔ وہ
تادمِ تحریر ان کا ٹھکانہ تلاش کرنے سے قاصر ہیں ۔انگریزی نیوز پورٹل
’مکتوب انڈیا‘ کے مطابق آفرین فاطمہ نے اپنی یہ شکایت ہفتہ کی صبح 3:15
بجے لکھی ۔ اس میں اپنے والد جاویداحمد، والدہ پروین فاطمہ اور بہن سمیہ
فاطمہ کی حفاظت کے حوالے تشویش کا اظہار کیا گیا ۔ آفرین کے مطابق پولیس
رات کے آخری پہر بغیر کسی وجہ کے ان کا گھر گرانے کی دھمکی بھی دے رہی ہے۔
یہ بغض و عناد پر مبنی انتقامی کارروائی نہیں تو اور کیا ہے؟
اس سانحہ کی تفصیل بتاتے ہوئے پروین فاطمہ نے کہا کہ ان کے والد کو جو
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی رہنما بھی ہیں، پولیس نے جمعہ کی رات 8:50
پر گھر سےحراست میں لیا ۔ دوست اور اہل خانہ جب ان سے ملاقات کے لیے
کوتوالی پولیس تھانے پہنچے تو افسران نے انہیں ملنے کی اجازت نہیں دی الٹا
ان کے پولیس تحویل میں ہونے کی تصدیق تک کرنے سے انکار کر دیا۔ اس ظلم کا
سلسلہ یہیں نہیں تھما بلکہ تین گھنٹے بعد تقریباً 12:00 بجےرات کچھ پولیس
افسران دوبارہ گھر آئے اور فاطمہ پروین کی ضعیف والدہ سمیت چھوٹی بہن کو
یہ بتائے بغیر اپنے ساتھ لے گئےکہ انہیں کہاں اور کیوں لے جایا جا رہا ہے؟
پولیس کی یہ حرکت سی آر پی سی کے سیکشن 46(4) کی واضح خلاف ورزی ہے جس میں
غروب آفتاب کے بعد گرفتاری یا نظر بندی کی اجازت نہیں ہے۔ اس طرح کی
گرفتاری یا نظربندی جوڈیشل مجسٹریٹ کے حکم کی منظوری اور وجوہات کے ساتھ
کاغذات فراہم کیے بغیرتعذیرات ِ ہند کی کھلی خلافِ وزری ہے لیکن اگر
انتظامیہ ہی اس کی پاسداری نہ کرے تو کوئی کیا کرسکتا ہے؟
ایک طرف تو بے قصور لوگوں پر ظالمانہ کارروائی کرکے یوگی انتظامیہ قانون کو
پامال کررہی ہے اور دوسری جانب اپنے پالتو میڈیا کے ذریعہ جاوید محمدکو
پریاگ راج میں تشدد کا ’ماسٹر مائنڈ‘ کہہ کر دشنام طرازی کی جارہی ہے۔
جاوید محمدکے خلاف 29 اہم دفعات کے تحت معاملہ درج کرنے کا دعویٰ کیا جارہا
ہے۔ ان کے علاوہ آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین سے وابستہ کچھ لوگوں پر نظر
رکھنے کی بات بھی ہورہی ہے۔ پریاگ راج کے ایس ایس پی اجئے کمار نے 70 نامزد
اور 5000 سے زائد نامعلوم لوگوں کے خلاف شکایت درج کرنے کا اعلان کرکے ہر
کس و ناکس کو چونکا دیا اور ساتھ ہی یہ انکشاف کیا کہ ان کے خلاف گینگسٹر
ایکٹ اور این ایس اے کے تحت کارروائی کی جائے گی۔ کیا مہذب دنیا میں احتجاج
و مظاہروں کو اس طرح کچلا جاتا ہے ۔ پہلے تو بی جے پی کے ترجمانوں نے اپنی
بدزبانی سے مسلمانوں کی دلآزاری کی اور اب انتظامیہ بزور قوت ان کے پیچھے
پڑگیا ہے۔ یہ لوگ بھول گئے ہیں کہ ظلم کی آندھی زیادہ دیر نہیں چلتی اور
اپنے ساتھ ظالموں کو اڑا کر لے جاتی ہے۔
ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے قومی صدر ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نےاپنی
جماعت کی فیڈرل ورکنگ کمیٹی کے رکن جاوید محمد، ان کی اہلیہ اور بیٹی
کوگرفتار کرنے کی شدید الفاظ میں مذمت کرتےہوئے فی الفور بلا شرط رہا ئی کا
مطالبہ کیا۔انہوں نے اس بات کی تصدیق کہ 2019 کے سی اے اے مخالف مظاہروں
میں شامل نوجوانوں، مقامی ایم ائی ایم کے کارکنوں، طلبہ اور بائیں بازو کے
جہد کاروں کو بے بنیاد الزامات کے تحت چن چن کر گرفتار کیا جارہا ہے اور
گھروں اور دوکانوں کو بلڈوزروں کے ذریعہ مسمار کر نے دھمکیاں دی جارہی ہیں
۔یوگی کے تحت اترپردیش کی پولیس تو خیر بدنام ہی لیکن رانچی کے اندر گولی
لگنے سے دو نوجوانوں کی شہادت بھی ایک نہایت تشویشناک سانحہ ہے۔ وہاں 22
سالہ محمد کیفی اور 24 سالہ محمد ساحل جاں بحق ہوگئے۔ پولیس کے سارے
الزامات کو درست مان لیا جائے تب بھی مجمع کو منتشر کرنے کی خاطر گولی
چلانے کا جواز نہیں بنتا۔ اب تو یہ بھی کہا جارہا ہے کہ گولی پولیس نے نہیں
چلائی ۔ وزیر اعلیٰ سورین نے اس کی تحقیق کے لیے ایس آئی ٹی تشکیل دی ہے
اس لیے توقع ہے کہ مجرم جو بھی ہو اس کے خلاف قتل کا مقدمہ دائر کرکے اسے
قرار واقعی سزا دی جائے گی اورپسماندگان کو معاوضہ دیا جائے گا ورنہ ان میں
اور یوگی میں فرق مٹ جائے گا۔
رانچی سانحہ پر شہیدوں کی تصاویر کے ساتھ معروف صحافی رعنا ایوب نے بجا طور
پر اجیت دوال سے سوال کیا ہے کہ ایران کے وزیر خارجہ کوجس سخت کارروائی کا
یقین دلایا گیا تھا کیا یہ وہی ہے؟ اہانتِ رسول ﷺ پر مسلمانوں کے فطری
احتجاج کے ساتھ کچھ چونکانے والی توجہ طلب خبریں بھی ذرائع ابلاغ میں آئی
ہیں ۔ ۸؍ جون کو بھیم سینا کے بانی صدر نواب ستپال تنور نے نوپور شرما کی
زبان کاٹ کر لانے والے کو ایک کروڈ روپیہ انعام دینے کا اعلان کیا۔ اس نواب
کی اور اس کے پاس ایک کروڈ روپیہ ہے بھی نہیں کی تحقیق ہونی چاہیے۔ اس کی
جانب اترپردیش انتظامیہ متوجہ کیوں نہیں ہوا؟ اسی دن جمیعت العلمائے ہند کے
سربراہ مولانا ارشد مدنی کی تصویر سمیت جمعہ کو بھارت بند کا اعلان کرنے
والا میسیج وائرل گیا ۔ مولانا نے اس کی تردید کرتے ہوئے عوام سے امن
برقرار رکھنے کی اپیل کی۔
اس اعلانِ برأت کے باوجود سہارنپور میں بعد نمازِ جمعہ کالےکپڑے اور نیلی
ٹوپی پہن کر تقریباً پچاس نوجوان فوارہ چوک جمع ہوگئے۔ چشم دید گواہوں نے
روزنامہ بھاسکر کو بتایا ان لوگوں نے نماز نہیں پڑھی بلکہ شراب پیتے رہے
اور جب نمازی مسجد سے باہر آئے تو نعرۂ تکبیر کے نعرے لگانے لگے۔ اس کے
بعد بھیڑ بڑھتی چلی گئی اور تشدد ہوگیا۔ پولیس ان لوگوں کا پتہ لگارہی ہے
لیکن اگر یہ خبر درست ہے تومسلمانوں کو ایسے شرپسند عناصر کاآلۂ کار بننے
کے بجائے انہیں پولیس کے حوالے کرنا چاہیے۔ مسلمانوں کو بدنام کرنے کی خاطر
اس طرح کی سازشوں کا انکار نہیں کیا جاسکتا۔ توہین رسالتؐ کے خلاف بعد
نمازِ جمعہ متعدد شہروں کے ساتھ دہلی کی شاہی جامع مسجد پر بھی مظاہرہ ہوا
مگر امام سید محمدبخاری نے اس احتجاج سے لاتعلقی کا اظہار کردیا۔انہوں نے
کہا کہ ’’نماز کے بعد کچھ لوگوں نے نعرے بازی کی اور پوسٹر دکھاتے ہوئے
احتجاج کیا۔ جامع مسجد سے احتجاج کا کوئی اعلان نہیں کیا گیا تھا‘‘۔ انہوں
نے بھی امن و امان بحال رکھنے کی خاطر بند اور احتجاج سے باز رہنے کا مشورہ
دیا تھا۔
دہلی کے وسطی ضلع کی ڈپٹی کمشنر پولیس شویتا چوہان نے بتایا کہ تقریباً 300
لوگوں نے پلے کارڈز کے ساتھ جامع مسجد کے باہر نعرے بازی کی ۔ پولیس نے
صورتحال پر قابو پاکر گاڑیوں کی نقل و حرکت کو یقینی بنانے کے لیے انہیں
منتشر کر دیا ۔ انہوں نے مظاہرین کے خلاف قانونی کارروائی کا اعلان کرکے
معاملہ رفع دفع کردیا۔ کسی معاملے سے اگر سیاسی فائدہ اٹھانا مقصود نہ ہوتو
اسے یوں نمٹایا جاتا ہے ورنہ ہزاروں کے خلاف مقدمہ، پوسٹر اور بلڈوزر میدان
میں لائے جاتے ہیں۔ اس طرح کا احتجاج اگرچہ بلااجازت ہو تب بھی اس کے ساتھ
نرمی کا معاملہ کیا جانا چاہیے۔ اسی کے ساتھ سہارنپور کی مانند کسی شرپسند
کو اس کا فائدہ اٹھانے کا موقع بھی ہرگز نہیں دیا جانا چاہیے۔ اتر پردیش
میں بالخصوص پولیس کے ظالمانہ رویہ کے خلاف عدالتِ عظمیٰ کو ازخود نوٹس لے
کر یوگی حکومت پر لگام لگانے کا مطالبہ بھی ڈاکٹر سید قاسم رسول الیاس نے
کیا ہے۔ امن و امان کی بحالی کے لیے یہ ضروری ہے بصورتِ دیگر مسلم جماعتوں
کو ایک فریق کے طور پر عدلیہ سے رجوع کر کے اس ظلم و زیادتی کی آگ کو
بجھانے کی سعی کرنی چاہیے۔ ورنہ بقول راحت اندوری ؎
لگے گی آگ تو آئیں گے گھر کئی زد میں
یہاں پہ صرف ہمارا مکان تھوڑی ہے
|