مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کی موجودہ امپورٹڈ، شہباز
شریف کی 11 ؍رکنی اتحادی حکومت نے اپناپہلا 95 کھرب 2؍ ارب کا عوام دشمن
بجٹ پیش کر دیا۔ بجٹ میں40 کھرب سوداور قرضوں کی ادئیگی کے لیے رکھے گئے۔
یعنی آمدنی کا آدھے سے کچھ کم حصہ سودی نظام کے تحت آئی ایم ایف جیسے
اداروں کو ادا کرنا پڑے گا۔ اس میں دفاحی اخراجات کے لیے523۱ رب روپے رکھے
گئے۔ یہ اﷲ کا شکر کریں کے مسلح افواج نے اپنے طور پر کئی ادارے قائم کیے
ہوئے ہیں جو فوجیوں کی ویلفیئر کے لیے مدد فراہم کرتے ہیں۔ ترقیاتی منصوبوں
کے لیے800؍ ارب،تعلیم کے لیے 65؍ ارب،صحت کے لیے 24؍ارب،تنخواہوں میں
15فیصداضافہ، پنشن میں5 فی صد اضافہ،40 کھرب سے زاہد خسارہ ہو گا۔حکومتی
اخراجات کے لیے5کھرب 30؍ ارب رکھے گئے۔این ایچ اے کو118؍ ارب ملیں گے۔ٹیکس
وصولی کا حدف70کھرب 255 ؍ارب رکھا گیا۔صوبوں کاحصہ35 کھرب 12 ؍ارب ہو
گا۔نان فائلر کے لیے ٹیکس کی شرع100 سے بڑھا کر 220 فی صد کر دی گئے۔1600؍
سی سی کی گاڑیوں پر ایڈوانس ٹیکس میں اضافہ کر دیا گیا۔کینولا، سورج مکھی
بیجوں اورسولر پینل پر ٹیکس ختم کر دیا گیا۔تنخواہ داروں کے لیے سالانہ
انکم ٹیکس کی حد12 لاکھ کر دی گئی۔شرع نمو کا ہدف 5 فی صد مقررکیا گیا۔40
ہزار ماہانہ آمدنی والے خاندانوں کو ماہانہ 2 ہزار امداد ملیں گے۔ یہ اور
اس جیسی امدادی اسکیموں عوام کی عزت نفس کو پامال کرتی ہیں۔ لوگ امداد حاصل
کرنے لیے لائنوں میں کھڑے کھڑے ذلیل ہوتے رہتے ہیں۔ کیوں نہ ضرورت کی اشیاء
کی قمیتیں ایسی سطح پر رکھیں جائیں کہ ضرورت مند عوام آسانی سے خرید
سکیں۔یہ صرف مہنگاہی پر کنٹرول کرکے ہی کیا جا سکتا ہے۔ خادم پاکستان آپ
فرماتے ہیں کہ کپڑے فروخت کر مہنگاہی پر کنٹرول کر وں گا۔ جناب ایسے سلطان
راہی والے سلوگن غریب عوام آپ کے تین دفعہ وزیر اعلی پنجاب اور آپ کے بڑے
بھائی کے تین دفعہ وزیر اعظم رہنے کے دوران عوام سنتے آئیں ہیں ۔آپ کی
پارٹی نون لیگ نے اتنی مدت پاکستان پر حکومت ہے۔ غریب عوام کے حالات کیوں
نہیں بدلے؟ یہ حال پیپلز پارٹی کا بھی ہے۔تحریک انصاف کے چارسالہ دور میں
بھی مہنگاہی بڑتی ہی رہی۔ اس وقت کی مہنگاہی سیاست دانوں کی کرپشن اور
بیرون ملکوں میں سرمایا کی منتقلی کی میں وجہ ہے۔ مقتدر لوگوں کی پراپرٹیاں
باہر ملک،کاروبار باہر،بچے باہر، تعلیم باہر سے، علاج باہر سے اور عوام
اسپرو کی گولیوں کے لیے گورنمنٹ ہسپاتوں کے چکر لگاتے رہتے ہیں۔ عوام کے
بچے ٹاٹ پر بیٹھ کرتعلیم حاصل کرتے ہیں۔ کراچی کے فور منصوبے کے 40؍ ارب
رکھے گئے۔ نہ پہلے کسی نے کراچی کا خیال کیا اور نہ اب یہ پیسے ملیں گے۔کے
فور منصوبہ نہ جانے کونسی صدی میں مکمل ہو گا۔ امپورٹیڈ حکومت میں شامل ایم
کیو ایم اور پیپلز پارٹی نے اس شہر پر 35 سال مل کرحکومت کی۔ کراچی
شہرپاکستان کو ستر(70) فی صد اور سندھ نوے(90) فی صد ریوینو دہنے والاپانی
،صحت ، سوریج ،ٹرانسپورٹ اور بجلی سے محروم ہے۔ کراچی میں عبدالستار افغانی
کی دو دفعہ میئر شپ اور ایک دفعہ کراچی کے سٹی ناظم نعمت اﷲ خان کے دوران
جو ترقی ہوئی تھی وہ ان کے جا نے ے بعد وہیں روک گئی۔اب جماعت اسلامی کے
امیر نعیم الرحمان نے ’’حق دو کرچی کو‘‘ مہم شروع کی ہوئی ہے۔
امپورٹیڈحکومت کے وزیر خزانہ مفتاع اسماعیل کو عوام دشمن بجٹ پڑھنے میں
دشواری محسوس ہوئی تھی۔الفاظ کی ادائیگی درست نہیں کر پائے۔مشکل الفاظ بھی
چھوڑ دیے۔ہر شعبہ پر بات کرتے ہوئے پی ٹی آئی پر تنقید کرتے رہے۔ وہی پرانی
بات ہر نئی آنے والی حکومت ،جانے والی حکومت کو ہی مورد الزم ٹھیراتی رہی
ہیں۔ایوان زیرین (پارلیمنٹ )میں سب خاموش تھے۔ نہ کتابیں پھاڑیں گئی۔ نہ
شور شرابہ ہوا۔ نہ ہی احتجاج ہوا۔بغیر ہیڈ فون لگائے بجٹ تقریر کی۔
پارلیمنٹ میں کوئی اپوزیش ہوتی تو بجٹ پر بات ہوتی۔ سب اپنے ہی تھے۔ اس لیے
فوراً بجٹ پیش کر دیا گیا۔ ایک اسلامی ملک میں نئے سینیماگھر،پروڈکشن
ہاؤسز،فلم میوز پر ٹیکس بل لکل ختم کر دیا گیا۔کم بجلی استعمال کرنے والوں
کو سولر پینل خریدنے کے لیے آسان قرضے دیے جائیں گے۔ یہ وہی بات ہے کہ نواز
شریف پورے پاکستان میں ساٹھ(60) والٹ کے بلب کی تبدیل کروا کے اس کے بدلے
انرجی سیور تقسیم کیے تھے۔ پاکستان میں کاروبار کرنے والے ہر ملکی غیر ملکی
کوانکم ٹیکس دینا پڑے گا۔ یہ اچھی بات ہے۔انسانوں حقوق اور اقلیتوں کے لیے
2.5؍ارب روپے مختص کیے گئے۔شمالی وزیرستان میں پہلی نیشنل یونیورسٹی قائم
کرنے کا کہا گیا۔ آیندہ مال سال میں مہنگاہی کی شرح 11.5رہنے کا ہدف طے
کیا۔انکم ٹیکس چورو ں پر 30؍ لاکھ جرمانے کی تجویز دی گئی۔ایوان بالا
(سینیٹ )میں بجٹ کی کاپی پیش کی گئی جس پر سوموار کو بحث ہو گی۔
سراج الحق امیر جماعت اسلامی نے بجٹ پر بات کرتے ہوئے کہا کہ سودی بجٹ قبول
نہیں۔اﷲ اور رسول کے خلاف اعلان جنگ کیا گیا ہے۔پہاڑ جتنا اضافی سود کی
ادائیگی کے لیے رکھا گیا۔ایم آئی ایم نواز اقدام پر ملک گیر احتجاج ہو گا۔
سابق وزیر اعلیٰ عمران خان جس نے سابقہ ساری حکومتوں سے زیادہ قرض لیا،
امپوٹیڈ حکومت کے بجٹ کوکوغریب دشمن قرار دے دیا۔ کہا کہ شرع سود بلند ہونے
سے معاشی ترقی رک جائے گی۔مہنگاہی 25 سے 30 فی صد ہوگی۔مہنگائی کے مارے
عوام کی شرح 44 سے 47 فی صد ہو جائے گئی۔ یہ بجٹ عام آدمی کو تباہ کر دے
گی۔وزیرخزانہ مفتاع اسماعیل اس پر مذید فرماتے ہیں کہ اب بھی آئی ایم ایف
پاکستان سے خوش نہیں۔مذید مشکل فیصلے کرنے ہو نگے۔ یعنی پاکستان کے غریب
عوام پر مذید مہنگاہی کے بم گرائے جائیں گے۔
امپورٹیڈ وزیر اعظم ٰ نے کہا تھا کہ اپنے کپڑے فروخت کر کے مہنگاہی کنٹرول
کروں گا۔عوام کا سوال ہے کہ جناب کرڑوں روپے خرچ کر کے وزیر اعظم ہاؤس کے
سوپمئنگ پول میں نہانے والا شخص کیسے اپنے کپڑے فروخت کرے مہنگاہی ختم کرے
گا؟ اس وقت تو عوام کے کپڑے فروخت کر کے جنابِ وزیر اعظم، آپ وزیر اعظم
ہاؤس کے سوپنگ پول میں نہا رہے ہیں، دوسری طرف مہنگاہی پر کنٹرول کیسے
ہوگا؟ اس وقت بجلی کی شارٹ فال 5 ہزار629 میگاواٹ ہے۔ آپ کے پاس خزانے میں
فیول کے لیے پیسے نہیں کہ بجلی گھر چلا کر اس شارٹ فال کو ختم کریں۔ پورے
ملک میں بجلی کے لوڈ شیڈنگ بدستور جاری ہے۔ عوام کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔
اب کہاجارہا کہ روس کے سفیر نے کہا کہ ریائتی نرخوں پر گیس اور پٹرول دینے
کے لیے تیار ہے۔ پہلے یہ پیکش کش سیاست کی نظر ہو گئی تھی۔بحر حال اس کے
بعد صوبے اپنے اپنے بجٹ پیش کریں گے۔ بحث کربعد آسانی سے بجٹ منظور ہوجائے
گا۔کیوں کہ ہمارے غریب عوام کے مقدر میں یہی کچھ لکھا ہے۔پچھلے پچھتر(75)
سالوں سے ہر سال ایسے ہی بجٹ پیش کیے جا تے رہے ہیں۔عوام غریب سے غریب تر
ہوتے جاتے ہیں امیرسے امیر تر ہوتے جاتے ہیں۔ کب اس ملکِ پاکستان میں میں
اسلام کا بابرکت نظام ِحکومت آئے گے۔ جب پیسا امیروں کی طرف سے غریبوں کے
طرف آئے گا۔بجٹ 2022ء۔2023ء تو عوام دشمن بجٹ ہے۔
|