شاہ جی : جان نہ سہی ،استعفیٰ ہی دیں


ملک کی موجودہ صورتحال سے متعلق گزشتہ جمعہ کو اہانتِ رسول ﷺپر ہونے والے احتجاج کے بعد بی جے پی کے سابق مرکزی وزیر سبرامنیم سوامی نے ایک دلچسپ ٹویٹ کیا ۔ انہوں نے لکھا ، ’آج باقی ماندہ ہندوستان کشمیر کی مانند نظر آتا ہے۔ اس کے بجائے ہم چاہتے تھے کہ کشمیر بقیہ ہندوستان کی طرح دکھائی دے۔ کیا وزیر داخلہ کی حیثیت سے امیت شاہ کے پاس اس کے حل کا کوئی سراغ ہے؟ آئندہ 48گھنٹوں میں اگر حالات قابو میں نہیں آتے توکیا شاہ کو وزیر داخلہ رہنا چاہیے؟ مودی سےگہار ‘۔ مبالغہ کے باوجود اس پیغام میں کشمیر کی صورتحال اور وزیر داخلہ کی کارکردگی سے متعلق ایک اشارہ ہے۔ اس کے فوراً بعد نوین تمل نامی ایک صارف نے چند الفاظ میں اصل وجہ بیان کردی ۔ اس نے لکھا،’ہم گجرات انتخاب میں مصروف ہیں‘۔ فی الحال ملک کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے ساون کے گدھے کی مانند عصرِ حاضر کے سیاستدانوں کو انتخاب کے سوا کچھ بھی سوجھتا ۔ اس لیے کہ اقتدار میں رہنے کی خاطرانتخابی کامیابی نہ صرف ضروری بلکہ کافی اور شافی ہے تو پھر دیگر مسائل کو کیوں قابلِ التفات سمجھا جائے؟

کشمیر فائلز فلم کے ذریعہ جھوٹ پھیلا کر مرکزی حکومت نے ملک بھر میں سیاسی فائدہ حاصل کیا اور اگنی ہوتری نے فلم کی لاگت سے دس گنا منافع بھی کمایا لیکن ان دونوں نے کشمیری پنڈتوں کی حالت تیس سال پہلے سے بدتر کردی ۔ کشمیر فائلز کے ذریعہ پھیلائے جانے والے جھوٹ کا قلع قمع کرنے کے لیے ہریانہ کے آر ٹی آئی کارکن پی پی کپورکو جموں و کشمیر پولیس اور صوبے کے لیفٹیننٹ گورنر سے کشمیری پنڈتوں کے خلاف تشدد، ان کی نقل مکانی اور باز آبادی کے متعلق معلومات حاصل کرنی پڑی ۔کپور کے حاصل کردہ اعدادو شمار کے مطابق 1989 میں جموں و کشمیر کے اندر 100 سے زیادہ کشمیری پنڈتوں کے قتل کی کوئی تفصیلات موجود نہیں ہے۔ 1990 سے جولائی 2021 کے عرصے کی فراہم کردہ تفصیلات کے مطابق 30 سالوں میں کل 1.54 لاکھ بے گھر ہوئے ہیں جن میں سے 135426 (88 فیصد) ہندو تھےباقی مسلمان اور سکھ تھے۔ قابلِ غور یہ ہے کہ پنڈتوں سے ہمدردی کا دم بھرنے والی حکومت صرف 70218 ؍افراد کی مدد کررہی ہے۔ ان میں 53978 ہندو، 1112 مسلمان، 5013 سکھ اور 15 دیگر ہیں۔ کشمیر فائلز میں بتائی گئی اموات کا سچ یہ ہے کہ 1990 سے 2021 کے دوران عسکریت پسندوں کے ہاتھوں کل 1724 افراد ہلاک ہوئےاور ان میں سے صرف 89 کشمیری پنڈت تھے جبکہ باقی 1635 دیگر مذاہب کے لوگوں میں زیادہ ترمسلمان تھے۔ اس طرح جھوٹ پھیلا کر سیاست چمکانے کا الٹا اثر ہوگیا۔

کشمیر ایک سنگین مسئلہ اسے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر حل کرنے کی کوشش ہونی چاہیے۔ بی بی سی نے وزارت داخلہ کی رپورٹ کے حوالے سے لکھا کہ سن 1990 سے سن 2020 تک کشمیر میں 14 ہزار سے زائد عام شہری اور 5294 سکیورٹی اہلکار مارے جا چکے ہیں۔ اس کے بعد یہ خیا ل ظاہر کیا کہ مرنے والوں کی تعداد حکومتی اعداد و شمار سے کہیں زیادہ ہے۔ کشمیری عوام کی ناراضی کا حکومت کو بھی اندازہ ہے اس لیے آئین کی دفع 370 ختم کردینے کے بعد نہ صرف سارے اہم سیاسی رہنماوں کو نظر بند کیا گیا بلکہ انٹر نیٹ کی خدمات بھی بند کر دی گئیں ۔ یہ سلسلہ خاصہ طویل تھا ۔دوبارہ فور جی کی تیز سروس بحال کرنے میں 18؍مہینوں کا عرصہ لگا ۔دنیا بھر میں ڈیجیٹل حقوق کے کارکنان نے اس پابندی کی مخالفت کی ۔ یورپ اور امریکہ کے قانون سازوں نے بھی اس پر تنقید کرتے ہوئے اس کے خاتمے کے لیے زور دیا۔اخبار ’کشمیر ٹائمز ‘ کی ایڈیٹر انورادھا بھاسن نے پابندی کے خاتمہ پر کہا تھاکہ حکومت ہمیں خیرات نہیں دے رہی ۔ ہمیں محرومی اور نقصان کا معاوضہ طلب کر نا چاہیے۔ اس طرح مسائل حل نہیں ہوتے الجھ جاتے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی تو بول بچن کے بادشاہ ہیں اس لیے ان کے بے شمار جملے ذرائع ابلاغ میں گونجتے رہتے ہیں لیکن وزیر داخلہ امیت شاہ اگر اپنے کسی ڈائیلاگ کی وجہ سے یاد کیے جائیں گے تو وہ ہوگا’’ کشمیر کا سوال آتا ہے تو غصہ آتا ہے۔کشمیر کیلئے اپنی جان دے دیں گے‘‘ کشمیر سے متعلق آئین کی دفع 370کے خاتمہ پر انہوں نے یہ تاریخی جملہ کہا تھا ۔ اس کے ایک ہزار سے زیادہ دن بعد انہیں کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے سینئر لیڈر اور سابق مرکزی وزیر سبرامنیم سوامی نے جموں و کشمیر میں مسلسل ہندوؤں کے قتل کو لے کر مودی حکومت پر حملہ بولتے ہوئے مرکزی وزیرداخلہ امت شاہ سے استعفیٰ کا مطالبہ کردیا۔ انہوں نے اپنےٹویٹ میں کہا، "جموں و کشمیر میں صدر راج ہے اور وہاں ہر روز ایک کشمیری ہندو کو قتل کیا جا رہا ہے، ایسے میں ضروری ہے کہ امیت شاہ کے استعفیٰ کا مطالبہ کیاجائے‘‘۔ جان دینے کے مقابلے استعفیٰ دینا ایک بہت معمولی بات ہے اور اس میں ملک و قوم تو دور پارٹی کا بھی کوئی نقصان نہیں بلکہ فائدہ ہے لیکن وہ ایسا نہیں کریں گے کیونکہ پندرہ لاکھ کی مانند وہ بھی ’ایک جملہ ‘(فریب) تھا ۔

ملک و قوم کے فائدے کی بات بڑی آسانی سے سمجھ میں آسکتی ہے ۔ وزیر داخلہ رکن پارلیمان ہیں اور آگے بھی رہیں گے اس لیے انہیں گھر خالی کرنے کی نوبت نہیں آئے گی۔ ان کی تنخواہ اور دیگر سہولیات بدستور جاری رہیں گی اس لیے ان کا کوئی نقصان نہیں ہے ۔ ویسے جب سے جئے شاہ بی سی سی آئی جیسی سونے کے انڈے دینے والی مرغی کے سربراہ بنے ہیں سرکاری تنخواہ کی کوئی اہمیت نہیں بچی ہے ۔ وزیر داخلہ رہتے بھی شاہ جی کا سارا دھیان پارٹی کو الیکشن میں کامیاب کرنے پر ہوتا ہے۔ وہ اس کام کو استعفیٰ دینے کے بعد بھی زیادہ یکسوئی سے کرسکیں گے۔ ان کے بجائے اگر وزیر اعظم نے کسی باصلاحیت فرد کو وزیر داخلہ بنادیا تو ممکن ہے ملک کے داخلی مسائل پر بھی خاطر خواہ توجہ ہوسکے اور ان کا کوئی حل نکلے۔ بی جے پی کے اندر جو قحط الرجال پایا جاتا ہے اس کے پیش نظر اس کا امکان کم ہے لیکن کوشش کرکے دیکھنے میں کوئی حرج بھی نہیں ہے ۔

وزیر اعظم اگر امیت شاہ کے بجائے کسی اور کو وزیر داخلہ بنانے کی بابت کشمیری پنڈتوں سے مشورہ کریں تو وہ کپل مشرا کا نام پیش کردیں گے ۔ مشرا جی کو دنگا فساد کا بڑا تجربہ ہے ۔ دہلی میں ان کی خدمات کا اعتراف کرکے مدھیہ پردیش کے کھرگون میں انہیں دعوت دی گئی۔ وہاں پر جاکر انہوں نے ایک زبردست تقریر کرکے اسے وائرل کروا دیا ۔ اس خطاب میں ’کشمیر فائلس ‘ کا حوالہ دے کر نعرے لگائے گئے تھے ’جس گھر سے برہان نکلے گا ، اس گھر میں گھس کر ماریں گے‘۔ اس نعرے کا جواب بھی وہاں موجود بھگتوں نے بڑے جوش و خروش سے دیا تھا کہ ’جس گھر سے موسیٰ نکلے گا، اس گھر میں گھس کر ماریں گے‘۔ کشمیری پنڈت فی الحال بڑی امیدوں سے کپل مشرا کا انتظار کررہے ہیں کہ وہ وادی میں پہنچ کر انہیں بچائیں لیکن کپل مشرا دوسروں کے گھر میں گھسنے کے بجائے اپنے گھر میں دبک کر بیٹھا ہوا ہے۔ اسے وزیر داخلہ بنادیا جائے تو ممکن ہے وہ ہمت جٹا کر اپنے گھر سے نکلے۔ ویسے اسی قبیلے کے اجئے مشرا وزیر مملکت برائے امورِ داخلہ ہیں ۔ ان کا بیٹا نہتے کسانوں پر تو گاڑی چڑھا دیتا ہے مگر وہ کشمیر کی بابت زبان نہیں کھولتے۔

سبرامنیم سوامی نے اپنے ٹویٹ میں وزیر اعظم کو یہ مشورہ دیا ہے کہ ’ انہیں (امیت شاہ کو) ہوم کے بجائے وزارت کھیل کی ذمہ داری دی جا سکتی ہے کیونکہ وہ ان دنوں کرکٹ میں زیادہ دلچسپی لے رہے ہیں‘۔ یہ دراصل سوامی جی کی ایک شاطرانہ چال ہے اس لیے کہ ایک دن قبل انہوں نے ایک ٹویٹ میں دعویٰ کیا تھا،’ خفیہ ایجنسی کو عام طور پر یہ محسوس ہوتا ہےحالیہ انڈین پریمئیر لیگ2022 کے مقابلے طے شدہ تھے۔ ان شکوک و شبہات کی فضا کو صاف کرنے کی خاطر تفتیش کی ضرورت ہے تاہم سرکار یہ نہیں کرے گی کیونکہ مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ کا بیٹا جئے شاہ بورڈ آف کنٹرول فار کرکٹ ان انڈیا (بی سی سی آئی) کا نام نہاد ڈکٹیٹر ہے‘‘ ۔ سوامی جی ایک طرف تو جئے شاہ کی آڑ میں امیت شاہ پر کرکٹ میں بدعنوانی کا الزام لگاتے ہیں اور دوسری جانب انہیں وزیر کھیل بنانے کا مشورہ دیتے ہیں تو کیا وہ چاہتے ملک کی سیاست کے مانند کھیل کی دنیا بھی بدعنوانی کے کیچڑ سے لت پت ہوجائیں ۔ ویسے ہر بدعنوان یہی چاہتا ہے تاکہ اچھے اور برے فرق مٹ جائے اور کرپشن کے حمام میں سبھی یکساں طور برہنہ ہوں اور کوئی فرق باقی نہ بچے۔

کشمیر کے حوالے سےآئینی ترمیم کو تین سال مکمل ہونے والے ہیں اس لیے عالمی دباؤ کے تحت حکومت کشمیر میں انتخابات کروانا چاہتی ہےلیکن اس سے قبل اس نے اپنے سیاسی مفادات کے پیش نظر حد بندی کمیشن تشکیل دے کر جموں میں چھ سیٹیں اور وادی کشمیر میں صرف ایک سیٹ بڑھانے کی تجویز رکھوا دی۔ کشمیر کی بیشتر سیاسی جماعتوں نے ریاستی اسمبلی کی نشستوں کی از سر نو حد بندی کرنے والے کمیشن کی ڈرافٹ رپورٹ کو ناقابل قبول قرار دے کر شدید نکتہ چینی کی اورکمیشن پر بھارتیہ جنتا پارٹی کے مفاد میں کام کرنے کا الزام عائد کیا ۔اس تجویز کے مطابق جموں علاقے میں اسمبلی کی سیٹیں 37 سے بڑھ کر 43 ہو جائیں گی جبکہ وادی کشمیر میں 46 سے بڑھ کر 47 ہو جائیں گی۔ نئی تجویز کے مطابق جموں و کشمیر کی اسمبلی کے جملہ 90 میں سے ایک درجن سے زیادہ نشستیں مختلف اقلیتی طبقوں کے لیے مخصوص ہوں گی۔ یہ عجیب دوغلا پن ہے کہ اقلیتوں کے لیے جو ریزرویشن جموں کشمیر میں ہے وہ ملک کے دیگر صوبوں میں نہیں ہے۔ اس کے بعد کشمیر کی خصوصی رعایت کے خاتمہ کا دعویٰ ازخود دم توڑ دیتا ہے۔ اس طرح کے اقدامات سے سرینگر و دلی اور دل کی دوری میں کمی نہیں بلکہ اضافہ ہوتا ہے ۔ جب تک کہ یہ دوریاں کم نہیں ہوں گی حالات معمول پر نہیں آئیں گے ۔
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)


 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1451794 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.