کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ کا ایک اور
افسوس ناک واقعہ پیش آیا ہے جس میں نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے نیو
سریاب ٹاﺅن کے ایس ایچ او منظور ترین کی سرکاری گاڑی پر فائرنگ کرکے انہیں
تین ساتھیوں سمیت قتل کردیا۔ پولیس کا یہ بہادر افسر اپنی فرض شناسی اور حب
الوطنی کی وجہ سے مشہور تھا اور کافی عرصے سے دہشت گردوں کی آنکھوں میں
کھٹک رہا تھا۔ اس پرپہلے بھی دو مرتبہ قاتلانہ حملے ہوچکے تھے۔ایس ایچ او
نیوسراب ٹاﺅن اور ان کے تین ساتھیوں کے بہیمانہ قتل اوردہشت گردی کی دیگر
کاروائیوں سے اندازا لگایا جاسکتا ہے کہ دہشت گردوں نے کوئٹہ کو مرکز بنا
کر ان کی شدت میں اضافہ کردیا ہے۔ اس سے قبل اسپینی روڈ پر ایک مسافر وین
پر نامعلوم مسلح افراد نے حملہ کرکے گیارہ افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیا
تھا۔مستونگ میں وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کے بھتیجے ایک بم دھماکے میں ہلاک
کردیئے گئے۔ اس واقعے سے چند گھنٹے قبل سریاب روڈ پر بس سٹاپ پر کھڑے ایران
جانے والے سات زائرین کو گولیوں سے بھون ڈالا گیا۔ کوئٹہ کے مضافاتی علاقے
ہزار گنجی میں کچرے میں رکھا بم پھٹنے سے دو بچے ہلاک ہو گئے۔
دہشت گردی کے یہ واقعات گزشتہ دو ہفتوں کے دوران کوئٹہ اور اس کے مضافات
میں پیش آئے ۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دہشت گرد انتہائی منظم ہیں ۔ ان کے
پاس جدید ہتھیار ہیں ۔ ان کی پشت پناہی اور تربیت میں بیرونی عناصر ملوث
ہیں۔ جس طرح دہشت گرد لوگوں کے بے دردی سے اندھا دھند نشانہ بنارہے ہیں اسے
ٹارگٹ کلنگ کی بجائے اندھیر نگری کہا جائے تو بے جان نہ ہوگاکیونکہ ان
اندھی گولیوں کا نشانہ بننے والے زیادہ تر افراد معصوم ہیں اور انہیں یہ تک
معلوم نہیں کہ ان کو کیوں قتل کیا جارہا ہے۔ اسی طرح دہشت گردوں کا نشانہ
کوئی خاص طبقہ نہیں بلکہ بلوچستان کا ہر عام و خاص شہری ہے۔ جس سے اندازہ
ہوتاہے کہ یہ کوئی بلوچستان کے حقوق دلانے والی عناصر نہیں بلکہ وہ لوگ ہیں
جو غیرملکی آلہ کار بن کر پاکستان کو عدم تحفظ سے دوچار کررہے ہیں۔وہ اپنے
ذاتی مفادات کے لئے بلوچستان کے نہتے اور معصوم افراد کا خون بہا رہے ہیں۔
افسوس ان کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھا رہا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کا
ردعمل بھی افسوس ناک ہے۔ وہ دہشت گردی اور معصوم افراد کے خون میں رنگے
ہاتھوں کو بے نقاب کرنے کی بجائے الٹا افواج پاکستان کو ان واقعات کا ذمہ
دار قرار دے رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کی رپورٹ
انتہائی گمراہ کن ہے جس کے مقاصد واضح طور پر غیرملکی عناصر کے خواہشات کو
پورا کرنا ہیں۔رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ بلوچستان میں فوج نے عملاً
صوبے کا انتظام سنبھال رکھا ہے اور سیاسی قوتیں اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے
ہٹ گئی ہیں۔ بلوچستان سے لاپتہ 140افرادکی لاشیں مل چکی ہیںجن کی ہلاکتوں
میں سکیورٹی فورسزکے ملوث ہونے کے ثبوت ملے ہیں۔
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے برعکس انسانی حقوق کی علمبرداربڑی شخصیت انصار
برنی نے تصویر کا دوسرا رخ پیش کیا ہے جو بلوچستان کے حالیہ واقعات کے پس
منظر میں حقیقت کے زیادہ قریب معلوم ہوتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان
میں اکثر سردار اوربعض وزیراغواءبرائے تاوان جیسی سنگین وارداتوں میں ملوث
ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں مہاجر، پنجابی، پٹھان اور ان کے ساتھ
اہل تشیع فقہ سے تعلق رکھنے والے خاندان بالکل محفوظ نہیں رہے اور انہیں چن
چن کر نشانہ بنایا جارہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعض سردار اور حکومت میں
بیٹھے اکثر وزیر ایسی سنگین وارداتوں میں ملوث ہیں جہاں وہ معصوم افراد کو
اغواء کرانے کے بعد یا تو بھاری تاوان وصول کرکے رہا کرتے ہیں وگرنہ دوسری
صورت میں انہیں قتل کرنے کے بعد ان کی مسخ شدہ لاشیں سڑک پر پھینک دیتے ہیں
اور بدقسمتی سے مفاد پرستوں اور ملک دشمن طاقتوں نے یہ رواج بنالیا ہے کہ
ایسی لاشوں کو قتل کے بعد قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کھاتے میں ڈال
دیتے ہیں تاکہ ملک اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے خلاف نفرت پیدا کرکے
خدانخواستہ ملک کی جڑوں کو کھوکھلا کیا جاسکے۔
پاک فوج نے بھی بلوچستان پر ہیومن واچ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے
پاکستان کو کمزور اور بدنام کرنے کی کوشش قراردیا ہے۔ پاک فوج کے ترجمان
میجر جنرل اطہر عباس نے ایسی تنظیموں کے فنڈز کی تحقیقات کا مطالبہ کرتے
ہوئے کہا کہ ہوسکتا ہے کہ ان کے پس پردہ وہ قوتیں ہوں جو پاکستان کو کمزور
کرنا چاہتی ہیں۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ ادارے جو انسانی حقوق کے نام
پر بلوچستان بارے رپورٹیں سامنے لارہے ہیں انہیں فنڈنگ کون کر رہا ہے اس کا
سراغ لگایا جائے کیونکہ وہی قوتیں انکی مالی معاونت کر رہی ہیں جو پاکستان
کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔انہوں نے کہا کہ جتنے بھی اداروں نے رپورٹیں
مرتب کی ہیں وہ یکطرفہ ہیں کیونکہ فوج اور اس کے ذیلی اداروں پرا لزامات تو
لگائے گئے ہیں لیکن ان اداروں کا اخلاقی فرض بنتا تھا کہ وہ فوج ،ایف سی یا
دیگراداروں سے رابطہ کرکے ان کا موقف بھی اپنی رپورٹوں میں شامل کرتے لیکن
کسی بھی ادارے نے اخلاقی طور پر بھی اداروں سے رابطہ نہیں کیااور نہ ہی اس
میں فوج کا کوئی موقف شامل ہے۔
فرنٹیر کور بلوچستان کے انسپکٹر جنرل میجر جنرل عبید اللہ خان نے بھی ہیومن
رائٹس واچ کی رپورٹ کو بے بنیاد قراردیا۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ گزشتہ 18
ماہ کے دوران آٹھ سو معصوم شہری راکٹ اور باردو سرنگوں کے حملوںمیں اپنی
جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ 1300 سے زائد سویلین اور قانون نافذ کرنے
والے اداروں کے اہلکار ان حملوں میں زخمی ہوئے۔ انہوں نے اس امر پر افسوس
کا اظہار کیا کہ اس رپورٹ میں ان واقعات کا ذکر نہیں کیا گیا۔انہوں نے کہا
کہ ان کی فورس کسی بھی قسم کی ماورائے آئین اور ماورائے عدالت سرگرمیوں میں
ملوث نہیں۔ کوئٹہ میں دہشت گردی کے حالیہ واقعات پر تبصرہ کرتے ہوئے انہوں
نے کہا کہ صوبائی دارالحکومت اور مستونگ میں ہونے والے حالیہ واقعات میں
مختلف عناصر ملوث ہیں۔ کوئٹہ میں حالیہ ناخوشگوار واقعات فرقہ وارانہ تھے
جبکہ وزیر اعلیٰ بلوچستان کے بھتیجے پر حملے کی ذمہ داری بلوچستان لبریشن
آرمی نے قبول کی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں بلوچستان اس وقت عالمی سازش کا گڑھ بن چکا ہے۔ مختلف
ممالک کی خفیہ ایجنسیاں مقامی آلہ کاروں سے مل کر یہاں عدم استحکام کا موجب
بن رہی ہیں۔ دہشت گرد جس طرح کے جدید ہتھیار استعمال کررہے ہیں اور جس طرح
بے دردی سے معصوم شہریوں کا خون بہایا جارہا ہے اس سے بخوبی اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ ان عناصر کے اصل مقاصد کیا ہیں۔ ہیومن رائٹس واچ ان غیرملکی
عناصر اور بلوچستان میں سرگرم دہشت گرد تنظیموں اور ان ظالم سرداروں کے
خلاف کیوں آواز نہیں اٹھاتی جن کی نشاندہی انصار برنی نے کی ہے۔ ہیومن
رائٹس واچ بھارتی ریاستوں میں ہونے والے ظلم و تشدد پر کیوں خاموش ہے۔ اسی
طرح افغانستان اور عراق میں امریکی ظلم و تشدد کو کیوں نظر انداز کرتی ہے۔
ڈرون حملوں پروہ لب کشائی کیوں نہیں کرتی۔ سب سے بڑھ کر اس تنظیم نے پاک
فوج سے ذرا بھر بھی ان کا موقف معلوم کرنے کی سعی نہیں کی۔ جس کی وجہ سے اس
کی مذکورہ رپورٹ میں کوئی صداقت نہیں ۔ اس تناظر میں پاک فوج کے ترجمان اس
رپورٹ کو مسترد کرنے میں حق بجانب ہیں۔ |