مفادات کی میز پر اقتدار کی بندر بانٹ ۔ ۔ ۔ ۔

رُوٹھنے منانے کے کھیل میں جان سے جانے والے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

قومی اور اجتماعی مفادات کو پس پشت ڈال کر محض اپنی سیاسی بالادستی اور اقتدار کی بندر بانٹ کیلئے کیے جانے والے فیصلے کبھی بھی ملک و قوم کی خیرو فلاح کا باعث نہیں بن سکتے،مصلحت،دباؤ اور خوف کے تحت کیے جانے والے ایسے فیصلوں کو آپ لاکھ ایثار،قربانی،وسیع تر قومی مفاد اور مفاہمت کام نام دیں مگر حقیقت یہی ہے کہ نیک نیتی اور جذبہ اخلاص سے عاری خوبصورت الفاظ کے لبادے میں لپٹے ایسے فیصلوں کے بطن سے ترقی واستحکام اور امن و خوشحالی کی خوشنما کونپلیں نہیں پھوٹتی ہیں اور نہ ہی ایسے فیصلے دیرپا نتائج اور دوررس اثرات کے حامل ہوتے ہیں،حقیقت یہ ہے کہ اپنے اپنے مفادات کے حصول کی خواہش فریقین کو اُس وقت تک آپس میں جوڑے رکھتی ہے جب تک کہ اُن کے مفادات پر ضرب نہیں پڑتی،مگر جہاں اُن کے مفادات متاثر ہوتے ہیں،تمام جذبہ ایثار،قربانی،وسیع تر قومی مفاد اور مفاہمت کے تارو پود اِس طرح بکھر جاتے ہیں،جیسے خزاں رسیدہ شجر کی بے جان پیتاں،زرا سا موسم کیا بدلتا ہے زبانیں زہر اگلنے لگتی ہیں،الزامات در الزامات کے بم اور گولے برسنے لگتے ہیں اور دیکھتے ہی دیکھتے شہر کے درودیوار نفرت،بغض و عناد اور علاقائی اورلسانی تعصب کی آگ میں جل کر بے گناہ انسانوں کے خون سے رنگین ہونے لگتے ہیں ۔

لیکن متحارب فریقین کے معمولات میں کوئی فرق نہیں آتا،پھر روٹھنے منانے کا سلسلہ شروع ہوتا ہے اورتمام تر اختلافات کے باوجود خود ساختہ وسیع تر قومی مفاد کا تقاضہ انہیں ایک بار پھر مفادات کی میز پرلے آتا ہے،ہوس اقتدار اور خواہش حکمرانی انہیں باہم یکجا کردیتی ہے،مگر انتشار سے اتفاق تک جو سینکڑوں لوگ قربانی کی بھینٹ چڑجاتے ہیں،جو لاتعداد گاڑیاں اور نجی و قومی املاک نذرِآتش کردی جاتی ہے،اُس کا کسی کو افسوس نہیں ہوتا،کسی کے ماتھے پر شکن نہیں آتی،کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا ہے،بے گناہ لوگ حکومت اور حکومتی حلیفوں کے ناعاقبت اندیش فیصلوں کی بھینٹ چڑھتے رہتے ہیں،روم جلتا رہتا ہے اور نیرو چین کی بانسری بجاتا ہے،اَمر واقعہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے پانچ سالہ دور اقتدار کے دوتہائی عرصے میں یہی کچھ ہوا ہے،ہر شعبہ زندگی ابتری کا شکار ہے،مہنگائی،بے روزگاری،بدامنی و خوںریزی،غربت،بھوک و افلاس،مالی بدعنوانیاں،گیس،بجلی اورپانی کا بحران،قومی اداروں کی تباہی،معاشی عدم استحکام،قومی یکجہتی کے فقدان کی بیماریوں نے آکاس بیل کی طرح پورے ملک و قوم کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے،ہر طرف مایوس کن اور حوصلہ شکن حالت نظر آتی ہے،یہی حال پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا ہے جہاں بدامنی نے مستقل ڈیرے ڈال رکھے ہیں،دس بارہ بے گناہ شہریوں کا قتل روز کا معمول بن چکا ہے ۔

عجب تماشا ہے کہ حکومت کی آئے دن کی یقین دہانیوں،صدر اور وزیر اعظم کی طفل تسلیوں اور وفاقی وزیر داخلہ کے بلند بانگ دعوؤں کے باوجود معاملات بے قابو ہوتے چلے جاتے ہیں،شہر کی لسانی اور علاقائی بنیادوں پر تقسیم اور جتھہ بند تصادم نے پہلے ہی شہر کے امن و سکون کو تباہ کر کے رکھدیا ہے،اُس پر مستزاد صوبائی اور وفاقی حکومت کے ابن الوقتی کے مظہر انتظامی فیصلے،جو صاف ظاہر کرتے ہیں کہ یہ فیصلے محض سیاسی مفادات اور سودے بازیوں کیلئے کئے جارہے ہیں اورجن کا مقصد شہر پر اپنے کنٹرول کو برقرار رکھنے کے سوا اور کچھ نہیں ہے،ایسا ہی ایک فیصلہ آزاد کشمیر میں انتخابات کے موقع پر متحدہ اور پیپلز پارٹی کے درمیان اختلافات کے نتیجے میں متحدہ کی حکومت سے علیحدگی کے بعد انتہائی عجلت میں صوبہ سندھ میں سابقہ فوجی آمر کا متعارف کردہ ضلعی حکومتی نظام کے خاتمے اور انگریزکے عطاکردہ کمشنری نظام کی بحالی،پھر مزاکرات کے بعد کراچی و حیدرآباد میں ضلعی حکومتی نظام کی ازسر نو بحالی اور باقی سندھ میں کمشنری نظام کا اطلاق،مگر سندھ کی قوم پرست جماعتوں کی برہمی،شدید احتجاج اور ہڑتالوں کے اعلان کے بعد حکومت کی الٹے پیروں واپسی اوردوبارہ پورے سندھ میں لوکل گورنمنٹ آرڈیننس 2001ءکی بحالی ہے،دونوں میں سے کونسا نظام بہتر ہے یہ ایک الگ بحث ہے،مگر ایک نظام کی معطلی،دوسرے کے بحالی،پھر دوسرے کی معطلی پہلے کی جزوی اور بعد میں مکمل بحالی کے فیصلے جس انداز سے کیے گئے اُس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ فیصلے عوام کے مفاد کیلئے نہیں بلکہ سیاسی مفادات اور جوڑ توڑ کیلئے کیے گئے ہیں ۔

ایک ایسے وقت میں جبکہ ملک مسائل کے گرداب بلا میں پھنسا ہوا ہے اور مسائل کا انبوہ کثیر خوفناک اژدھے کی صورت منہ کھولے ہمیں نگلنے کیلئے تیار کھڑا ہے،حکمرانوں کا اِس قسم کا غیر سنجیدہ طرز عمل اور آرڈیننس پرآرڈیننس کا اجراء اس بات کا عکاس ہے کہ یہ معاملہ انتظامی نہیں بلکہ اِس فیصلے کا پس منظر سیاسی طاقت کا حصول ہے،دوسری طرف حکومتی طرز عمل سے یہ بات بھی واضح ہوتی ہے کہ حکومت نے آئین و قانون کو موم کی ناک بنارکھا ہے،جب چاہا اور جیسے چاہا موڑ لیا،آج نظام کی خرابی اور مملکت کو اقتدار کی مصلحتوں کے تابع رکھ کر چلانے کی روش ہمیں اِس مقام پر لے آئی ہے جہاں ہم ملک کے مختلف حصوں میں مختلف طرز حکمرانی لے کر چل رہے ہیں،جس صوبے میں حکومت مرکز کے موافق نہیں وہاں صوبائی تقسیم کے تصور کو ترقی وانقلاب کا نقیب اور عہد آفریں تصوربناکر پیش کیا جارہا ہے اور جہاں ریاست کا کوئی کنٹرول نہیں،آئے دن حکومت کی عملداری چیلنج ہوتی رہتی ہے،اُن علاقوں میں ہم ابھی تک کوئی ایسا مربوط سلسلہ قائم نہیں کرپائے کہ قومی زندگی محفوظ و مامون بناسکیں،جبکہ ہمارا تو حال یہ ہے کہ ہم آگہی کے باوجود امن و سلامتی کے دشمنوں کو اِس لیے بے نقاب اور عبرتناک انجام سے دوچار نہیں کرپاتے کہ سیاسی ضرورتیں اور اقتدار کی مصلحتیں ہماری راہ کی رکاوٹ بن جاتیں ہیں،آج اقتدار کی انہی مصلحتوں نے کثیر النسل اور کثیراللسان عروس البلاد شہر کراچی کے امن و سکون کو یرغمال بنایا ہواہے ۔

عین ممکن ہے کہ حالیہ اقدامات وقتی طور پر شاید اہل اقتدار کا سہارا بن جائیں اور شہر میں جاری قتل و غارت گری رک جائے،مگر حقیقت یہی ہے کہ یہ امن و سکون چند روزہ ہے،ہم سمجھتے ہیں جب تک ذاتی پسند و ناپسند اور اقتدار کی ضرورتوں اور مصلحتوں کے دائرے سے باہر نکل کر قومی اور ملکی مفاد میں جرات مندانہ فیصلے نہیں کیے جاتے،اُس وقت تک صورتحال میں تبدیلی کا کوئی امکان نہیں ہے،مگر موجودہ حکومت سے یہ توقع کار عبث ہے،کیونکہ نہ تو اِن کے پاس استقامت ہے اور نہ ہی کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے اُس پر سوچ،بچار اور فیصلے کے عوامل وعواقب پرغورکرنے کی صلاحیت ہے،یوں بھی حکومت اپنے ساڑھے تین سالہ دور اقتدار میں فیصلے کرکے واپس لینے کے کئی ریکارڈ قائم کرچکی ہے،اِس بار بھی اُس نے اپنے سابقہ ٹریک ریکارڈ کو برقرار رکھا ہے،ایسا لگتا ہے کہ کسی فیصلے کے اطلاق سے پہلے حکومت اُس کے اثرات و نتائج کا فہم و ادراک ہی نہیں رکھتی،بس نادر شاہی حکم جار ی کردیا جاتا ہے مگر جب منفی ردعمل سامنے آتاہے تو فیصلہ بدل جاتاہے پھر ایک بساط لپیٹ کر دوسری بساط بچھانے کی تیاری شروع ہوجاتی ہے،ممکن ہے حکومت کی اِس حکمت عملی کا مقصد عوام کی توجہ اُن کو درپیش اصل مسائل سے ہٹاکر کسی اور طرف لگانا ہومگر آرڈیننسوں کی معطلی اور بحالی کے اِس کھیل میں بے گناہ شہریوں کے قتل عام، قومی و نجی املاک کی تباہی،قومی یکجہتی اور ملکی معیشت کو پہنچنے والے ناقابل تلافی نقصان کی ذمہ دار مرکزی اور صوبائی حکومت کی ابن الوقتی کی مظہر غیر دانشمندانہ حکمت عملی ہیں ۔

آج حکومت کے انہی غیر دانشمندانہ اقدامات کی بدولت نہ صرف سندھ کی قوم پرست جماعتیں برہم ہیں بلکہ خود حکومت کی حلیف اور اتحادی جماعت اے این پی بھی ناراض اور کہہ رہی ہے کہ پیپلزپارٹی کی حکومت ہرمعاملہ پرجوتے کھاتی ہے،مرکز،صوبہ پختونخواہ اورسندھ میں پیپلزپارٹی کی اتحادی جماعت ہونے کے ناطے اے این پی کا شکوہ اپنی جگہ بالکل بجا ہے،دوسری طرف وزیر بلدیات آغاسراج درانی کا یہ یقین کہ عیدسے پہلے متحدہ حکومت میں واپس آجائے گی اور دونوں ایک ساتھ مل کر عیدکی نماز ادا کریں گے غلط نہیں ہے،موجودہ حالات کے تناظر میں متحدہ کی حکومت میں واپسی حیرت انگیز عمل نہیں ہوگا،کیونکہ متحدہ کا آنا جانا ایک معمول کی کاروائی ہے،رہی بات پیپلز پارٹی کی مقبولیت اور ساکھ کی توحکومت کے اختیار کردہ طریقہ کار نے اُس کی بچی کھچی ساکھ کو ضرور نقصان پہنچایا اورثابت کردیا ہے کہ ارباب اقتدار میں اتنی بھی ہمت و جرات نہیں کہ وہ اپنے فیصلوں پر قائم رہ سکیں،سچ کہا ہے کسی نے کہ ” دنیا میں سمجھوتے کرنے،ڈرنے،گھبرانے اور ڈیل کرنے والوں کی عمر اُن کی زندگی سے بھی مختصر ہوتی ہے ۔“
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 357763 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More