جموں وکشمیر کے دو گاو ں ’لارشریف اور لسانہ‘کئی لحاظ سے
تاریخی اہمیت کے حامل ہیں۔دونوں گاو ں سیاست اور روحانیت کے لحاظ سے مشہور
ہیں۔جہاں تک لار شریف کا تعلق ہے تو یہ خلافت کے سلسلہ نقشبندیہ کا مرکز
ہے۔ چودھوہویں صدی ہجری کی ابتداءمیں سلسلہ نقشبندیہ مجددیہ کا مرکز دراوا
مظفر آباد ضلع کے ’کئیاں شریف‘گاو ں میں قائم ہوا تھا جہاں خواجہ نظام
الدین کیانوی ؒ نے سلسلہ نقشبندیہ کے تحت دین کی دین اسلام کی تبلیغ شروع
کی۔ میاں عبداللہ المعروف باباجی ؒ نے نظام الدین کیانویؒ کے ہاتھ پر بیعت
ہوئے اور خلافت ھاصل کی جن کے بعد آپ کے صاحبزادے میاں نظام الدین ؒنے یہ
سلسلہ بڑھایا ، میاں بشیر احمد لارویؒ اور لار شریف کے موجودہ سجادہ نشین
میاں الطاف احمد سلسلہ نقشبندیہ کوآگے بڑھا رہے ہیں۔ وہیں گاو ں لسانہ میں
عظیم روحانی شخصیت باباغلام شاہ بادشاہ ؒ کا تکیہ شریف ہے جہاں کئی برس تک
انہوں نے قیام کیا اور وہاں اپنے استاد میاں مشری ؒ سے درس ِ قرآن بھی حاصل
کیا۔ بعد ازاں وہ ضلع راجوری کے گاو ں شاہدرہ میں منتقل ہوئے جہاں اُن کی
زیارت ہےاور لاکھوں عقیدتمندان فیض پانے آتے ہیں۔ دنیاوی سیاست کے اعتبار
سے بھی (لسانہ اور لار)کے ہی دو گھرانے ایسے ہیں جنہیں 1934میں مہاراجہ ہری
سنگھ کے دور میں پرجاپرشد لیکر آج تک لوگوں کی نمائندگی کا اعزاز ملا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ اعلیٰ اخلاقی اقدار، انتہائی مہذب طرز ِ زندگی،
ایمانداری، دیانتداری اور اصول وضوابط کی اعلیٰ مثال بھی ہیں۔ یہ گھرانے
ضلع گاندربل کے کنگن میں حضرت میاں نظام الدین کیانوی ؒ(وانگت لار)اور ضلع
پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ کے گاو ں لسانہ میں چودھری غلام حسین لسانوی
ہیں۔دونوں کے درمیان دِلی اور ذہنی رفاقت کے ساتھ ساتھ سیاسی ،سماجی ودینی
معاملات میں دونون کے خیالات ایک جیسے ہیں اور ہر مسئلے میں وہ ایکدوسرے سے
مشورہ بھی کرتے ہیں۔روحانی، سیاسی وفکری تعلق رشتہ داری میں بھی تبدیل ہے۔
میاں بشیر احمد کی اہلیہ محترمہ غلام مریم صاحبہ چودھری لسانوی کی صاحبزادی
تھیں اور مرحوم چوہدری محمد اسلم کی اہلیہ میاں بشیر احمد لاوری ؒ کی
ہمشیرہ ہیں۔ یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ 13اپریل1932کو پہاڑی علاقوں میں آباد
لوگوں کی نمائندگی کیلئے گوجر جاٹ کانفرنس جوکہ حاجی نوران شاہ کے ہاں
(لاہ)راجوری میں وجود میں لاٸی گٸی تھی ، کے پہلے صدر اور سرپرست میاں نظام
الدین لاروی ؒ تھے جس میں چودھری غلام حسین لسانوی جنرل سیکریٹری، چودھری
دیوان علی نائب صدر ریاسی،مولانا مہر الدین قمر پبلسٹی سیکریٹری اور سید
محمد اللہ شاہ آزاد خزانچی کو ذمہ داری دی گئی تھی ۔کلچرل اکیڈمی نے اپریل
2019کو چودھری غلام عباس لسانوی کی 54ویںبرسی پر اُن کی حیات وخدمات پر
70صفحات پر مبنی ایک خصوصی نمبر بھی شائع کیا ہے۔ گاو ں لسانہ کو اسمبلی
حلقہ سرنکوٹ کی سیاسی راجدھانی بھی کہاجاتا ہے کیونکہ 1934سے لیکر آج تک سب
سے زیادہ حکومتی سطح پر عوامی نمائندگی کا عزازاسی گاو ں سے چودھری غلام
حسین لسانوی کے خانوادے کو ملا ہے ۔ مرحوم چوہدری محمد اسلم ....گجر گاندھی
کے نام سے مشہور چودھری غلام حسین لسانوی کے ہی چشم وچراغ تھے جنہیں اِس
دُنیا فانی سے گذرے 8برس ہوچکے ہیں مگر آج بھی لوگوں میں اُن سے عقیدت ہے۔
اِس کالم میں اُن کی زندگی کے چند پہلوو ں کو اُجاگر کرنے کی کوشش کرتے
ہیں۔ سال1944کو لسانہ میں پیدا ہوئے چوہدری محمداسلم کو اُن کے اہل خانہ کے
ہمراہ 1947کو پاکستانی زیر انتظام کشمیر نقل مکانی پر مجبور ہونا پڑا ۔آج
لسانہ میں جس جگہ بنگلہ موجود ہے، 1947کو اسی بنگلہ میں ہندوستانی فوج نے
اپنا ہیڈکوارٹر قائم کیاتھا جہاں پر بریگیڈ کمانڈر قیام کرتے تھے اور بنگلے
کے آگے باغ میں فوجی کیمپ لگا ہوا تھا۔ 1953میں میاں نظام الدین نے ریاستی
اسمبلی میں چودھری غلام حسین لسانوی ودیگر مقتدر خاندانوں کی گھر واپسی کے
لئے پرزور مطالبہ کیا تھا جس پر وزیر اعظم بخشی غلام محمد سیخ پا ہوگئے اور
کہاکہ اگر چودھری غلام حسین لسانوی اور مرز ا محمد حسین جیسے لوگ واپس آتے
ہیں تو پھر ہماری کیا ضرورت ہے۔ میاں نظام الدین لاروی نے اسمبلی سے واک آو
¿ٹ کیا۔ بعد ازاں حکومت کو جھکنا پڑا اور 1954میں پونچھ میں تعینات فوج کو
ہدایت ہوئی کہ چودھری غلام حسین لسانوی کو کیرنی پونچھ بارڈر سے داخل ہونے
دیاجاٸے۔ گھووڑوں پرسوار ایک قافلے کی صورت میں لایاگیا، ڈینگلہ گاو ں میں
ایک شاندار استقبالیہ دیا گیا۔ بعد ازاں کچھ وقت کیلئے گرفتاری ہوئی اور
پھر رہا ہوگئے۔ یہ دور چودھری محمد اسلم کے بچن کا تھا مگر ہر چیز کا وہ
گہرائی سے مشاہدہ کر رہے تھے۔ تعلیمی سلسلہ جاری رکھنے کے ساتھ سن بلوغیت
کے بعد انہوں نے والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سیاست میں سرگرم رول ادا
کرنا شروع کیا۔ انہوں نے 13سال سے بلا مقابلہ رکن اسمبلی رہے پیر جماعت علی
شاہ ؒسے سال 1966-67میں الیکشن جیتے۔ اپنے سیاسی کیرئر کے دوران آٹھ مرتبہ
الیکشن لڑے جن میں چھ بار کامیابی ملی۔ 48سالہ سیاسی کیئر میں وہ کئی اہم
عہدوں پر فائض رہے ۔آٹھ برس تک اسمبلی اسپیکر رہنے کے علاوہ وزیر خزانہ،
وزیر تعلیم ، پارلیمنٹ میں راجیہ سبھا ممبر ، جموں وکشمیر گجر بکروال
مشاورتی بورڈ چیئرمین کے ساتھ ساتھ17سال تک جموں وکشمیر پردیش کانگریس
کمیٹی صدر بھی رہے۔1962میں سرنکوٹ مینڈھر ایک ہی اسمبلی حلقہ ہوا کرتا تھا،
جس میں پہلی مرتبہ ہوئے اسمبلی چناو میں نیشنل کانفرنس کے پیر جماعت علی
شاہ بلا مقابلہ منتخب ہوئے تھے۔ 1967کو ہوئے چناو میں چوہدری اسلم بلا
مقابلہ منتخب قرار پائے ۔ 1972کو پھر انہوں نے آزاد اُمید وار محمد سعید
بیگ کو ہرایا۔1977میں محمد سعید بیگ نیشنل کانفرنس کی ٹکٹ پر چودھری محمد
اسلم کے مد مقابل آئے مگر پھر کامیابی نہ ملی ۔ 1983میں آزاد اُمیدوار محمد
ایوب شبنم کو شکست دیکر اپنی فتوحات کا سلسلہ جاری رکھا۔ 1996اور2002اسمبلی
چناو میں این سی کے مشتاق بخاری سرخرو ہوئے۔ 2008کو پھر سے کانگریس ٹکٹ پر
چوہدری اسلم جیتے اور 17جون2014کو آخری اِس دنیا فانی سے گزرجانے تک وہ ایم
ایل اے ہی تھی۔2014میں اُن کے فرزند چوہدری محمد اکرم نے الیکشن میں
کامیابی حاصل کی اور اِس وقت اپنے والد محترم کے اِس سلسلہ کو آگے بڑھا رہے
ہیں۔ درخت جتنا پھلدار ہو، وہ اُتنا ہی جھکا ہوتا ہے۔ایسا ہی کچھ مرحوم
چوہدری محمد اسلم کی شخصیت تھی۔ وہ بلا امتیاز عمر وجنس، ذات پات سبھی کو
برابر کی عزت دیتے تھے۔ اُن کی مجلس میں کبھی چھوٹے بڑے کا احساس نہیں ہوتا
تھا۔ وہ باکردار، بااخلاق، تہجد گزار، خوش اخلاق، ملنسار، عاجزی وانکساری
جیسی صفات کے مالک تھے۔ انہوں نے سیاست جو کہ عصر حاضر میں بدنام زمانہ بن
چکی ہے، میں رہ کر اپنے کردار سے وہ مثال قائم کی جس کی نظیر ملنا بہت مشکل
ہے۔ انہوں نے نہ صرف اصولوں، دیانتداری اور ایمانداری پر مبنی سیاست کی
بلکہ پارٹی کے ساتھ بے لوث وفا کی بھی مثال قائم کی تھی۔ ہر ایک کے ساتھ وہ
عزت واحترام کے ساتھ پیش آتے اور بات کرتے۔ سیاسی میدان میں درویشانہ زندگی
جی۔ اگر جموں وکشمیر کی سیاست میں ایماندار سیاسی شخصیات کی تاریخ رقم کی
جائے تو اُن میں وہ چند گنے چند سرفہرست شخصیات میں شامل ہوں گے۔ میری خوش
قسمتی ہے کہ میرا تعلق بھی اِسی گاو ں سے ہی ہے۔پڑوسی ہونے کے ناطے اِس
سیاسی گھرانے سے بچپن کی کئی یادیں بھی جڑی ہیں۔اُن کے گھر کے ادوار سبھی
کے لئے چوبیس گھنٹے کھلے رہتے ہیں۔ لنگر کا سلسلہ بھی بدستور جاری ہے،
چاہئے امیر ہو یا غریب ، سبھی کو ایک جیسا کھانا ملتا ہے۔ اگر صبح آپ چلے
گئے تو آپ کو نمکین چائے تو روٹی، دن میں مکئی کی روٹی ،چٹنی اور لسی،
دوپہر کو نمکین چائے اور حلوہ اور پھر شام کو اگر کوئی ٹھہرے تو بھرپور
مہماندار ی ہوتی اور یہ سلسلہ سالہا سال سے بلاروک ٹوک جاری ہے۔ سیاست ایک
ایسا شعبہ ہے جس میں لوگوں کو آپ سے بے حد توقعات ہوتی ہیں اور کچھ توقعات
ایسی ہوتی ہیں جن کی تکمیل سیاستدان یا عوامی نمائندہ کے بس کی بھی بات
نہیں ہوتی اور ایسے میں عام لوگ ناراض بھی ہوتے ہیں۔ ایسا ہی چودھری محمد
اسلم صاحب کے ساتھ بھی تھا، بہت سے لوگوں کو اُن سے اختلافات بھی تھے، اُن
کی رائے سے بھی اختلاف تھا ۔اپنے قبیلہ کی نمائندگی اور اُن کے حقوق
ومفادات کے تحفظ کے لئے انہوں نے کئی بار ایسے سخت فیصلے بھی لئے جن سے
دوسرے طبقہ میں ناراضگی بھی ہوئی لیکن شاہد اُن کی جگہ کوئی بھی ہوتا ، وہ
ایسا ہی کرتا ۔ اپنے طبقہ وقبیلہ کی بات کرنا کوئی بُری بات نہ ہے، اُن کے
قول وفعل میں تضاد نہ تھا۔ سیکولر تھے کسی کے لٸے نفرت نہ تھی ایک بات اہم
ہے کہ اُن کی ایمانداری، دیانتداری، صاف گوئی اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا
معترف اُن کے حریف بھی ہیں ۔اپنے حلقہ میں اُن کی مقبولیت اس قدر تھی کہ
ایک عام شخص کے لئے وزیر اعظم ، وزیر اعلیٰ، صدر، گورنر، ڈی سی، ایس ایس پی
سبھی وہی تھے۔ جون2006میں آر پار پونچھ راولاکوٹ بس سروس کا افتتاح کے موقع
پر پونچھ میں عظیم الشان جلسہ منعقد کیاگیاتھا جس میں اُس وقت کے وزیر اعظم
ڈاکٹر منموہن سنگھ ، یو پی اے چیئرپرسن سونیا گاندھی، مرکزی کابینہ وزیر
پرنب مکھر جی، پی چدمبرم کے علاوہ مفتی محمد سعید، غلام نبی آزاد سمیت کئی
سرکردہ سیاسی شخصیات موجود تھیں۔ جب یہ سبھی لوگ اسٹیج پر پہنچے تو لوگوں
میں جوش اُس قدر نہیں تھا لیکن جب چوہدری محمد اسلم اسٹیج پر پہنچے تو فلک
شگاف نعرو ں اور تالیوں سے پورا جلسہ گونج اُٹھا۔تب پوری میڈیا اور اسٹیج
پر موجود سیاسی لیڈران حیران رہ گئے کہ ایک سیاسی لیڈر کی مقبولیت کی یہ
انتہا ہے کہ لوگ وزیر اعظم سے زیادہ چودھری اسلم کی وہاں موجودگی ہونے سے
پُر جوش تھے۔لوگوں کی دیوانگی دیکھنے لاٸق تھی۔ 1996-2002کے دوران جب وہ
ایم ایل اے نہ تھے جب اُ سے سرکاری گاڑی واپس لی گٸی تو اُن کے ووٹروں نے
اُنہیں چندہ کرکے گاڑی لیکر دی۔ مرحوم چوہدری محمد اسلم ایک بڑے سیاستدان
ہونے کے ساتھ ساتھ پونچھ کے اُن چند افراد میں سے ایک ہیں، جن کے پاس بہت
زیادہ اراضی بھی ہے ۔ اُس کی کھیتی باڑی کا انتظام وانصرام خود ہی کرنا
مشکل بھی ہے۔ اس لئے بہت ساری اراضی ٹھیکے یا حصے پر زمینداری کے لٸے بھی
دیتے ہیں۔ میرے والد مرحوم ومغفورارشاد احمد جوکہ کسان تھے،نے بھی کئی سال
تک حصے پر اُن کی زمین پر کھیتی کی۔ والد محترم کے ساتھ بچپن میں اکثر
چوہدری اسلم صاحب کے گھر آنا جانا لگارہتا تھا ۔ والد صاحب براہ راست لین
دین متعلق مرحوم چودھری اسلم سے تفصیلی بات کرتے اور وہ بھی بغور سنتے اور
مسکراکر کہتے اچھا جو آپ کو ٹھیک لگے کرو ۔ کئی مرتبہ وہ میرے سر پر ہاتھ
پھیرتے ہوئے والد سے مخاطبت ہوکر کہتے ”بیٹے کو پڑھانا، جتنی جفاکشی آپ
کرتے ہو، یہ نہیں کرپائے گا اور آنے والا وقت بھی بہت مشکل ہے“۔سال
2011-12کے دوران گاندھی نگر جموں میں سرکاری رہائش گاہ پر ملاقاتوں کے
دوران اکثر کئی امور پر تفصیلی بات ہوتی۔ نرم لہجہ، مہذبانہ انداز
گفتگومتاثر کن تھا۔ ایسا محسوس ہوتا تھا کہ آپ کسی ماہر اخلاقیات سے لیکچر
سن رہے ہیں۔ سیاست میں ہر وہ عہدہ حاصل کیا جس کی ایک کامیاب سے کامیاب
ترین سیاستدان خواہش رکھتا ہے۔ صبر وشکر بھی کمال کاتھا۔اعتدال پسند، مستقل
مزاجی اور ٹھہراٶ تھا۔ سال 2008انتخابات کے بعد اُنہیں وزارتی کابینہ میں
جب شامل نہ کیاگیا تو اُن کے چاہنے والوں میں زبردست غم وغصہ تھا لیکن اُن
کو اِس کی زرہ بھر پرواہ نہ ہوئی۔ جب اِس متعلق میڈیا سے انہوں نے گفتگو کی
تو اُن کے چہرے پر مایوسی یا ناراضگی کے دور دور تک آثار نہ تھے ۔ وہ ہرحال
میں صبروشکر کا دامن نہیں چھوڑتے تھے۔اپنے پیچھے وہPolitical legacyکے ساتھ
ساتھ شرافت، صداقت اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کا بھی عظیم ورثہ چھوڑ گئے ہیں
اور یہ آپ کو لسانہ میں اُن کی رہائش گاہ پر جاکر یا اُن کے افراد خانہ سے
ملاقات سے دیکھ بھی اور محسوس کرسکتے ہیں۔ اصولی، صداقت، ایمانداری پر مبنی
سیاست کرنے والوں کے لئے مرحوم چودھری محمد اسلم مشعل راہ رہیں گے۔ اللہ
پاک اُن کو جنت الفردوس میں جگہ عنایت فرمائے ۔ دُعا گو ہیں کہ ہر قوم
وقبیلہ میں اُن جیسی سیاسی شخصیت جنم لے۔ |