کہتے ہیں کہ موسیقی روح کی غذا ہے اور اچھی موسیقی تب ہی
کانوں میں رس گھولتی ہے جب شاعری لاجواب ہو اور یہ وہ زرخیززمین ہوتی ہے جس
پرموسیقار اور گلوکار اپنی اپنی فصل تیار کرتے ہیں اگر زمین زرخیز نہ ہو تو
اس پر کوئی پھل نہیں لگ سکتا کڑوا اور نہ ہی میٹھامیں نے آج تک جن دو غزلوں
کو دھوم مچاتے دیکھا ان میں انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اور دوسری کل چودھویں
کا چاند تھا شب بھر رہا چرچا تیرا اور یہ دونوں غزلیں اردو ادب کے عظیم
شاعر و مزاح نگار ابن انشا ء کی تخلیق تھیں جنکا 95واں یوم پیدائش 15جون کو
جرنلسٹ اینڈ ٹریڈرز فورم کے پلیٹ فارم سے منایاگیا میں نے بطور چیئرمین
فورم اور فاروق آزاد نے بطور صدر فورم ابن انشا کی ادبی خدمات کو خراج
عقیدت پیش کرنے کے ساتھ ساتھ انکی یادوں کو بھی تازہ کیا ابن انشا جن کا
اصل نام شیر محمد خان تھا 15جون 1927 کو پیدا ہوئے وہ اپنی ذات میں ایک
انجمن تھے وہ بیک وقت صحافی،شاعر،افسانہ نگار،کالم نگار اور سفر نامہ
نگارتھے انہیں ان کی معروف غزل انشا جی اٹھو اب کوچ کرو نے شہرت کی بلندیوں
تک پہنچا دیا انہوں نے بی اے 1946 میں پنجاب یونیورسٹی سے اور 1953 میں
کراچی یونیورسٹی سے ایم اے کیا ابنِ انشاء پاکستان کے بائیں بازو کے اردو
کے نامور شاعر، اور کالم نگار تھے۔ اپنی شاعری کے ساتھ ساتھ ان کا شمار
اردو کے بہترین مزاح نگاروں میں ہوتا تھا وہ ریڈیو پاکستان، وزارت ثقافت
اور نیشنل بک سنٹر آف پاکستان سمیت مختلف سرکاری خدمات سے وابستہ رہے انہوں
نے کچھ عرصہ اقوام متحدہ میں بھی خدمات انجام دیں اور اس کی وجہ سے وہ بہت
سی جگہوں کی سیر کر سکے جو ان کے بعد کے سفرناموں کی وجہ بنی انشاء جی کو
حبیب اﷲ غضنفر امروہوی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان اور ڈاکٹر عبدالقیوم جیسے
استاد ملے ابن انشاء لاہور کی معروف اور نامور ادبی بیٹھک پاک ٹی ہاؤس پر
آنا شروع ہوئے تو اس وقت کے نامور مصنف اے حمید سے انکا تعارف ہوا جسکے بعد
انکی دوستی کا لازوال سلسلہ شروع ہوا اس پہلے ملاقات کا حال اے حمید بتاتے
ہیں کہ میں نے نوٹ کیا کہ ابن انشا یا انشاجی جیسا کہ انہیں پیار سے کہا
جاتا تھا ایک شرمیلا آدمی تھا جس کی آنکھوں میں شرارتی چمک تھی جو اس کے
پہنے ہوئے موٹے شیشوں والی عینک سے با آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی اس کے
بعدانکے دوستوں کے گلدستے میں اشفاق احمد، ناصر کاظمی اور احمد راہی جیسے
نایاب پھول بھی نمایاں نظر آتے تھے 2007 کے ایک کالم میں اے حمید صاحب
لکھتے ہیں کہ جب بھی اس نے کوئی نئی کتاب شائع کی تو وہ اور انشاء جی پبلشر
کی طرف سے بھیجی گئی تعریفی کاپیاں لاہور ریلوے سٹیشن کے بک سٹال پر آدھی
قیمت پر فروخت کر کے انارکلی کے ممتاز ہوٹل پہنچ جاتے جہاں چائے اور کیک کے
ساتھ خوب جشن مناتے 1971 میں جب اردو کی آخری کتاب منظر عام پر آئی تو
انہوں نے اے حمید کو ایک کاپی بھیجتے ہوئے پیغام لکھا ’’یہ کتاب برائے
فروخت نہیں ہے۔‘‘ ابن انشا ملک کے معروف اخبارات و جرائد میں کالم بھی
لکھتے رہے ہیں بطور شاعر ان کے متعدد مجموعے دل وحشی،چاند نگر اور اس بستی
کے کوچے میں شائع ہو چکے ہیں ابن انشا نے یونیسکو کے مشیر کی حیثیت سے
مختلف یورپی و ایشیائی ممالک کے تفصیلی دورے کیے جن کے احوال انہوں نے اپنے
سفرناموں ابن بطوطہ کے تعاقب میں، چلتے ہو تو چین کو چلیے، دنیا گول
ہے،نگری نگری پھرا مسافر اور آوارہ گرد کی ڈائری میں اپنے مخصوص طنزیہ اور
مزاحیہ انداز میں تحریر کیا ابن انشا کے کالموں اور خطوط کے مجموعوں پر
مشتمل کتبٍ خمار گندم اردو کی آخری کتاب اور خط انشا جی کے قارئین میں بے
پناہ پزیرائی حاصل کر چکی ہیں ابن انشا 11 جنوری 1978 کو لندن میں انتقال
کر گئے انہیں کراچی میں دفن کیا گیا ہے جب انکی میت کو لایا جارہا تھا تو
اس وقت مختلف پبلک مقامات پر انہی کی غزل انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو اس جہاں
میں جی کو لگانا کیا استاد امانت علی خان کی آواز میں بار بار سنائی جارہی
تھی یہ انشاء جی کی موت کی خبر اور یہ غزل سن کر لوگوں کی ایسی کیفیت تھی
کہ آنسو تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے اسی پر اسرار غزل جسے ابن انشاء نے
تخلیق کیا کچھ لوگ اسے آج بھی اموات کا ذمہ دار ٹھہراتے ہیں 1970میں اسے
تکلیق کیا 1974میں استاد امانت علی خان کی آواز میں1974کو پی ٹی وی پر اس
غزل نے دھوم مچادی کچھ مہینوں بعد 52سال کی عمر میں استاد امانت علی خان
انتقال کر گئے اس واقعہ کے چار سال بعد ابن انشاء کی طبیعت خراب ہوئی اور
اپنی علالت کے دوران انہوں نے اپنے کچھ قریبی دوستوں کو خط لکھے جس میں
انہوں نے مرحوم استاد امانت علی خان اور اس غزل کا ذکر کیا اپنی حالت پر
افسوس کرتے ہوئے انہوں نے ایک تاریخی جملہ کہا کہ یہ منحوس غزل اور کتنوں
کی جان لے گی اور پھر اس سے اگلے ہی دن محض 50سال کی عمر میں ابن انشاء جی
بھی کوچ کرگئے انکے جانے کے بعد بھی اموات کا سلسلہ نہ رک سکا مرحوم استاد
امانت علی خان کے بیٹے استاد اسد امانت علی خان نے والد کے انتقال کے بعد
ٹیلی ویژن پر باقاعدہ گلوکاری کا آغاز کیا اور 2006کے اختتام پر پی ٹی وی
کے ایک پروگرام کے اختتام پر اس غزل کو گایا یہ محفل اور غزل اسد امانت علی
خان کی آخری ثابت ہوئی اور کچھ عرصہ بعد اپنے والد ہی کی طرح صرف 52سال کی
عمر میں انتقال کرگئے والد اور بیٹے کی عمر اور آخری کلام میں حیران کن
مماثلت کے بعد انکے خاندان اور مداحوں کو شش و پنچ میں مبتلا کردیا ان تین
نامور اموات کے بعد استاد اسد امانت علی خان کے بھائی استاد شفقت امانت علی
خان نے اس غزل کو دوبارہ نہیں گایاکچھ دوسرے گلوکاروں نے بھی اس غزل کے
حوالہ سے خوف کا اظہار کیا اور اس غزل کو اپنی آواز میں گانے سے اجتناب کیا
یہ معمہ آج تک حل نہ ہوسکا کہ یہ کوئی اتفاق تھا یا لفظوں کی حیران کن
جادوگری تھی یا کچھ اور ؟۔ ابن انشاء کو 1978 میں صدر پاکستان نے پرائیڈ آف
پرفارمنس ایوارڈ سے نوازا۔
|