ایک زرعی یونیورسٹی کے ڈیپارٹمنٹ آف فوڈ ٹیکنالوجی میں
مختلف فاسٹ فوڈز پر ریسرچ کا ایونٹ چل رہا تھا۔جس میں اپنی فیکلٹی کے علاوہ
دیگر ملکی اور غیر ملکی جامعات کے پروفیسرز کی بھی ایک کثیر تعداد شریک
تھی۔
اس د ن موضوع سخن و تحقیق تھا ، چکن شوارما۔ اس کی بناوٹ ، ذائقہ ،آسان
دستیابی ،مطلوبہ غذا ئی ضروریات اور فوائد۔ اس سے قبل کہ بحث کا آغاز ہوتا۔
ایک پروفیسر صاحب نے اس بات پر اعتراض اٹھایا کہ حسب معمول ہم ایک دن میں
صرف ایک ہی خوراک پر بحث و تحقیق کرتے ہیں۔ چونکہ چکن اور شوارما دو الگ
الگ موضوعات ہیں لٰہذا ان کو الگ الگ زیر ِ بحث لایا جاۓ۔ ایک فارن
یونیورسٹی سے آۓ مہمان پروفیسر نے مشورہ دیاکہ کیوں نہ اس سٹڈی کو دو حصوں
میں تقسیم کر لیا جاۓ۔ پہلے حصہ میں ہم چکن اور شوارمے کا جو باہمی تعلق ہے
جیسے شوارمے کے ساتھ لفظ چکن کا استعمال، آیا چکن شوارمے میں استعال ہوتا
بھی ہے یا نہیں۔ اور اگر ہوتا ہےتو کس قدر اور چکن شوارما کی عوام میں
مقبولیت کا گراف وغیرہ پر ریسرچ مکمل کی جاۓ۔ دوسرے حصہ میں دیگر ذیلی
موضوعات کا احاطہ کیا جاۓ گا۔ اب
راۓ چونکہ معقول تھی اور وہ بھی ایک فارن یونیورسٹی کے متعلقہ ڈیپارٹمنٹ
کےڈین کی طرف سے تھی۔ سو غالب اکثریت سے نہ صرف قبول کی گئی بلکہ عملی جامہ
پہنانے کو مفید مشورے اور راۓ سازی پر بھی کافی پیش رفت ہو نے لگی۔
چنانچہ طے پایا گیا کہ ایک اسسٹنٹ پروفیسر مع دو لیکچرار، کل تین رکنی ٹیم
کو کسی بڑے شہر کی معروف فوڈ سٹریٹ میں بھیجا جاۓ جو وہاں مختلف شوارما
بنانے والے کاریگروں کے انٹرویوز کرے۔ سارے عملی طریقہ کار کو بغور دیکھے۔
اجزاۓ ترکیبی اور اس کے فارمولے یا ریسیپی کا بھرپور جائزہ لے اور یہ ٹیم
اگر مناسب سمجھے تو چند نمونے بھی لے کر آۓ تاکہ یہاں موجود جدید ترین
نیوٹریشن لیب پر ان کا تفصیلی تجزیہ کر کے اس ٹیم کی فراہم کردہ معلومات کی
روشنی میں ایک مفصل ہمہ جہتی اور جامعہ رپورٹ تیار کی جا سکے۔
اگلے دن اس ٹیم کو تین دن کے لیۓ لاہور کی مشہور فوڈ سٹریٹ واقع پرانی انار
کلی بازار بھیج دیا گیا۔اور باقی سارا ڈیپارٹمنٹ اور مہمان پروفیسرز
پروجیکٹ میں موجود دیگر عنوانات اور ذیلی پہلوؤں پر دو تین گروہوں میں بٹ
کر اپنی اپنی ریسرچ میں لگ گۓ۔اس سے قبل مختلف فوذ گریڈ پر تیار تحقیقات کا
جائزہ اور ان اشیا کی شوارما کے ساتھ طبی اور کیمیائی مماثلتیں، پاکستان
میں شوارما کی تاریخ، اس کے مختلف ذا ئقے اور بنیادی اشکال و غذائی افادیت
پر مطالعہ متعلقہ نوٹس اور رپورٹس اور بھر پور بحث ہوئی۔ اس بحث کے دوران
پروفیسرز کے دو گروپ بن گۓ تھے۔ ایک گروپ نے تواس کو باضابطہ خوراک ٕ معروف
ڈش ماننے سے انکار کر دیا جیسے ہمارے ملک میں سالن ، روٹی ،پراٹھا،دالیں ،
گوشت سبزیاں، ترکاریاں اور چاولوں کی قدیم اور جدید تراکیب اور اقسام اور
میٹھے میں کھیر ،کسٹرڈ اور مختلف حلوہ جات وغیرہ ۔ جبکہ دوسرے گروپ کا کہنا
تھا کہ جس طرح سموسہ ،پکوڑہ شامی ،چپل کباب ،کوفتہ، چنا چاٹ، دہی بھلے ،بن
،برگرز اور مختلف پیٹیز اور رولز ہیں اس طرح شوارما بھی اسی قبیل میں نہ
صرف اپنی جگہ بنا چکا ہے بلکہ بڑے شہروں میں تو یہ اپنی مقبولیت میں چکن
چرغہ تک کو پچھاڑ چکا ہے۔ اور خوش ذائقہ ہونے کے ساتھ کم قیمت بھی۔ ایک
پروفیسر صاحب تو اس کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا رہے تھے۔ انہوں
نے ہی انکشاف کیا کہ آج سے چار سال پہلے شوارما کی ریڑھی پر لکھا ہوتا تھا
۔ ساٹھ روپے میں واقعی بڑا شوارما۔ اور اب چار سال بعد تین حکومتیں تبدیل
ہونے کے بعد آج بھی وہی شوارما ساٹھ روپے میں دستیاب ہے۔
ایک مہمان پروفیسر جو اکثر ہمارے ملک آتے جاتے رہتے تھے بولے۔ سمجھ نہیں آ
رہی کہ چار سال پہلے آپ کے ملک میں دو سو روپیہ فی کلو گرام بکنے والا چکن
اب چار سو پچاس کا ہو گیا ہے۔ مگر چکن شوارما اسی پرانی قیمت پر کیسے بک
رہا ہے۔ مجھے تو دال میں کچھ کالا لگ رہا ہے۔ اس تناسب سے تو اب شوارما کم
از کم سو ایک سو بیس کا ہوناچاہیے۔مجھے تو لگتاہے یا اس میں سرے سے چکن
ہوتا ہی نہیں یا پھر اس کے رول کو چکن سے اٹھنے والی بھاپ میں سے گزارا
جاتا ہے۔جس پر ایک اور صاحب نے مسالہ لگایا کہ مجھے شک ہے کہ جس ریڑھی پر
چکن سوپ بکتا ہے۔ ساتھ والی ریڑھی شوارمے کی ہوتی ہے۔ جہاں چکن کا ٹیسٹ اور
خوشبو اس میں در آتی ہے بالکل ایسے ہی جیسے راہ چلتے چرسی سے چرس کی بو کا
منتقل ہونا یا جمعہ کے دن مسجد سے واپسی پر لباس سے مختلف خوشبوؤں کا آنا
جبکہ خود کوئی بھی عطر اور پرفیوم استعمال نہ کیا ہو۔تمام شرکا اپنے اپنے
خیالات کا اظہار فرما رہے تھے۔ ایک سے بڑھ کرایک دلچسپ انکشاف ہو رہا تھا۔
ایسے میں لاہو ر والی ٹیم کا شدت سے انتظار کیا جا رہا تھا تاکہ ان سارے
نظریات اور مفروضات کو عملٕ رپورٹ کی کسوٹی پر پرکھ کی جا سکے۔ ایک سوال اس
کی تاریخ پر بھی تھا۔کہ شورما کا بنیادی آئیڈیا کسے آیا۔ کیا برگر سے اس کو
مزید ترقی اور تقویت ملی یا یہ کوئی اور ہی بلا ہے اور کسی مغربی ملک کی
ایجاد ہے۔جس پر ایک مقامی پروفیسر جو کہ کسی پنجاب کے دیہاتی علاقہ سے تھے۔
انہوں نے انکشاف کیا کہ میری تحقیق کے مطابق تیس سال پہلے ایک غیر سرکاری
تنظیم کی چند رکنی ٹیم لاہور کے مضافات میں بھٹھہ مزدورں کے مسائل کوجاننے
کے لیۓ کسی بھٹھہ پر گئی۔وہاں ایک مزدور خاندان جس کا تعلق مسلم شیخ قبیلے
سے تھا۔ ان کے تین سالہ بچے نے اپنی ماں سے روٹی مانگی ۔ ماں نے توے کی بنی
کچی پکی ایک روٹی پر تھوڑا مکھن لگا کر اپنے اس ننگ ڈھڑنگ بچے کو پکڑا دی۔
اس بچے نے اس پتلٕی روٹی کو اپنے ہاتھوں میں مروڑ کر فولڈ کرکے ایک پائپ
نما توتی کی شکل میں کر کے ایک طرف سے کھانا شروع کر دیا۔ اس ٹیم میں موجود
ایک خاتون بچے کے اس سارے عمل بڑےکو انہماک کے ساتھ دیکھتی رہی۔ اس طرح
روٹی پر مکھن اور پھر اس مسلی بچے کا مروڑ کر پائپ یا توتی کی شکل میں کر
کے چھوٹے بائٹس کے ساتھ کھانا اس لڑکی کے لیۓ بالکل ایک نیا اور اچھوتا
آئیڈیا تھا۔
واپسی پر اس نےگھر آ کر ایک پتلی سی نفیس روٹی بنائی اس پر بلٕیو بینڈ
مارجرین ، کالی مرچ اور سالن میں موجود آلو کو پیس کر ایک باریک تہہ جما کر
اس کو بالکل اسی انداز میں تہہ کیا۔ اورمزے سے کھانا شروع کر دیا ۔ یہ اس
موجودہ شوارمے کی ابتدائی شکل تھی۔باقی ممبران نے بھی اس پر اتفاق کیا۔آج
پانچواں دن ہو چکا تھا اورلاہور والی ٹیم واپس نہیں آئی تھی جس سے پورے
ڈیپارٹمنٹ کو تشویش تھی۔اگلی صبح دو مزید پروفیسرز لاہور کے لیۓ رواں دواں
تھےکہ مارکیٹ کا بچشم خود جائزہ لیا جاۓ۔تقریباً صبح نو بجے کے قریب وہ
متذکرہ فوڈ سٹریٹ میں تھے۔ دور سے ہی انہیں بڑے ر کشش اور جاذب نظر رنگوں
میں وہ بینر نظر آ گیا جس پران کے ذہن میں اٹھنے والے خدشات اور سارے ممکنہ
سوالات کے تسلی بخش جوابات موجود تھے۔ بلیک بیک گراؤنڈ بینر پر رنگین حاشیہ
کے اندر سنہری جلی حروف میں لکھا تھا۔ لذت، جدت، ذائقہ، غذائت سے بھر پور
اور جدید سائنسی اصولوں کے عین مطابق مشہور "پروفیسر شوارما"۔
چھوٹی سے دکان پر بھرپور رش تھا۔ متعلقہ ٹیم نے انکشاف کیا کہ تین دن سے
کاروبار بہترین چل نکلا ہے۔ سرکاری تنخواہ سے تین گنا زیادہ بچت ہے۔ اور
آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں۔ خرچہ بھی کم ہے۔صرف چند فائبر چکن استعمال ہوتا
ہے۔ فارم سے مارکیٹ تک مرغی کی نقل و حمل کے دوران جو چکن سفر اور موسمی
تبدیلی کی وجہ سے بارگاہ خدا وندی میں پہنچ جاتا ہے۔ قدرےتھوڑا ہوتا
ہےاورمگر مانگ زیادہ ہے۔مگر زرا جلدی چکن منڈی کے باہر پہنچ جائیں تو اونے
پونے داموں وارے میں مل جاتا ہے۔
|