کشمیر میں رمضان المبارک کے مقدس
مہینے میں احتجاجی عمل سے رمضان کے تقدس کو پامال نہ کریں۔ خدارا ۔ رمضان
المبارک کا خصوصی احترام کریں۔اور اپنی سیاست کرنے کیلئے عام دنوں کو اپنے
کام میں لائیں۔ امریکی چچا سید علی شاہ گیلانی ہو ں یا میر قاتل عمرفاروق
مذہب اسلام کے اس مقدس مہینے کا احترام کریں۔ کیونکہ اس ماہ میں لوگ
عبادتوں میں منہمک رہتے ہیں۔ اور زیادہ تعداد میں مسجد وں میں مجتمع ہوتے
ہیں۔ یہ مہینہ خصوصی امن کا ہے۔ بہتر یہ ہوتا کہ کشمیری عوام کو روحانیت کی
طرف مائل کیا جاتا ہے۔ ان میں دین اسلام سے رغبتی کو تروتازہ کیا جاتا ۔ جس
سے پُر امن ماحول میں کشمیری روزہ دار آبرومندانہ زندگی کی طرف مائل ہوتے
رمضان المبارک کا مہینہ تو امن و سکون و خوشگوار کیلئے مخصوص ہوتا ہے۔ مگر
مکار سیاست دانوں نے اس کے تقدس سے بھی کھلواڑ کرنے سے بچ نہیں رہے۔ امریکی
چچا اور میر قاتل کے ہاتھوں میں ان کے آقاﺅں نے رائے شماری کا امریکی خنجر
پکڑا دیا ہے۔ اس خنجر سے بد امنی کا ماحول ہے۔ یہ خنجر ملکوں کو توڑنے
کیلئے استعمال میں لایا جاتا ہے۔ اور ان کو کمزور اور ناتواں بنانے کیلئے
اس کا استعما ل کیا جاتا ہے۔ اس کے استعمال سے ملکوں کے حصوں کو توڑ کر ان
کو نامنہاد آزادی میں الجھا کر اس کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکا دیا
جاتا ہے۔ وہ سو سال تک بڑے ملکوں کے ہمنوا رہتے ہیں۔ اور”ہاں جی“ کا فریضہ
انجام دیتے ہیں۔ رائے شماری کا امریکی خنجر اتنا خطرناک ہوتا ہے۔ کہ ملکوں
میں آپسی محبت و مفاہمت سے رہنے والوں کو ایک دوسرے سے الگ و جدا کرکے ان
کی اصل طاقت کو متزل متزل کردیتا ہے۔ ان دونوں کو باہم دست و گریبا ں کرکے
ان کو اپاہج بنا دیتا ہے۔ لو گ سمجھتے ہیں۔ کہ ان کو آزادی حاصل ہوگئی ہے۔
مگر یہ آزادی کے نام پر دھوکہ ہوتا ہے۔ یہ صرف اس لئے ہوتا ہے۔ کہ اس ملک
کو مدمقابل کھڑا ہونے کی طاقت سے قبل از وقت محروم کردیا جائے۔ مگر جس کو
آزادی کے جھانسہ میں الجھا یا جاتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے۔ کہ وہ کوئی قلعہ فتح
کررہا ہے۔ مگر ہوتا ہے ۔ فاش دھوکہ ۔۔!، امریکی چچا سید علی شاہ گیلانی اور
میر قاتل عمر فاروق صاحب کی موجودگی میں کشمیر میں ایک لاکھ سے زائد لوگوں
کو ایک حکمت عملی کے تحت اور اپنے مقصد عظیم کے حصول کیلئے لقمہ اجل بنوایا
گیا۔ ان کا مقدس خون سڑکوں پر پانی کی طرح بہایا گیا۔ افسوس صد افسو س اس
خون میں حریت کانفرنس کے کم ظرف لوگ روزانہ غسل کرتے ہیں۔ ان میں ذرا برابر
بھی شرم و حیا نہیں۔ ان کی ہر وقت کوشش یہ رہتی ہے۔ کہ حکام کو مشتعل کرکے
ان کے ذریعہ مزید غریب کشمیریوں کو موت کے منہ دکھیلا جائے۔ امریکی چچا اور
میر قاتل کو ان کے آقاﺅں نے ایک یہودی مشن پکڑا رکھا ہے۔ کہ” رائے شماری کے
امریکی خنجر سے کشمیر کو آزادی کا پنجرہ بناﺅ، اس میں تمام کشمیریوں کو قید
کرو اور پھر اس آزادی کے پنجرے کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکا کر پورے
کشمیر کو بیرونی آقاﺅں کے رحم و کرم پر چھوڑ دو، آزادی کے نام پر نئی مکاری
کی مہم گزشتہ کئی دہائیوں سے جاری ہے۔ جس میں کشمیری مسلمانوں کے خون کو
ناحق بہایا جارہا ہے۔ دلیل یہ دی جاتی ہے۔ کہ ان کو شہادت مل رہی ہے۔ جو
شخص اللہ کی رضا کے تحت اور اس کے دین کے تحفظ میں مرتا ہے۔ وہ ہے اصل شہید
۔ لیکن کشمیری عوام کی ہلاکتیں سیاسی مفاد پرستی کا ایک اہم حصہ ہے۔ ان کا
ناحق خون بہا کر مفاد پرستی کو تقویت پہچائی جارہی ہے۔ ان خونی تحریک سے
آزادی کا پنجرہ بنتا ہے۔ اور اس پنجرے کے اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر لٹکنے سے
ہی نامنہاد آزادی کا مفہوم مکمل ہوتا ہے۔ اور وہ ملک کا حصہ اسلام دشمنوں
کی تحویل میں چلاجاتا ہے۔
دنیا میں آزاد ی کے عنوان سے مکاریاں سلسلہ وار جاری ہیں۔ آج جو کشمیری
پورے ہندوستان میں گھومتا ہے۔ کشادہ آزادی گزارتا ہے۔ مگر کشمیر کی پنجرہ
نما آزدی کے بعد اس کو کشمیر کی چار دیواریوں میں قید کردیا جائے گا۔اور
پنجرہ نما آزادی گزارے گا۔کشمیر کو آزاد کا پنجرہ بنانے کیلئے اس مسئلہ کو
متنازعہ بنایا جاتا ہے۔اس کو ایک اہم مسئلہ بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ جھگڑے
کی بنیادی جڑ کشمیر کو کہا جاتا ہے۔ امریکی چچا اور میر قاتل جیسے لوگ اس
کو سہ فریق کہ کر ان کو مشکوک دائرے میں لاتے ہیں۔ الغرض اس کو قیدی بنانے
کے تمام حربے بروئے کار لائے جاتے ہیں۔ جن کو شرمنا ک ہی کہا جاسکتا ہے۔ اس
کا ایک شرم ناک پہلو یہ بھی ہے۔ وہ مفاد پرست لوگ رمضان المبارک کی عظمت کا
بھی خیال نہیں رکھتے۔ جبکہ ان کو اس مبارک ماہ احترام کرنا چاہئے۔ اور
احتجاج کی بیہودگی سے بچنا چاہئے تھا۔ مگر وہ اپنی ہوشیاری سے باز نہیں
آرہے۔
فی الوقت اگر امریکی چچا سید علی شاہ گیلانی اور میر قاتل عمر فاروق اور ان
کے ساتھیوں میں ایمانی جذبہ ہے۔ تو کم از کم رمضان المبارک کے مہینے کا
احترام کرنا چاہئے۔ ان کو اس مقدس مہینے کے مقدس دنوں سے کھلواڑ نہیں
چاہئے۔ اِ ن لوگوں کی یہودی جسارت کو دیکھتے ہوئے موجودہ حکمرانوں پر یہ
زمہ داری عائد ہوتی ہے۔ کہ وہ عوام کر پُرتشدد ماحول پر لیجانے والی حرکتوں
سے باز رکھنے کیلئے دونوں احباب کو گمنام و آرام دہ جگہ پر رمضان المبارک
کے ایاّم تک میں نظر بند رکھا جائے۔ اور نماز جمعہ میں ان کی تقاریر پر
تاحیات پابندی لگادینی چاہیے۔ ان کی نظر بند ی کے دوران ان کو مرغ مسلم
کھلائیں جائیں۔ سحر وافطار کرایا جائے۔
بہر حال ۔ امریکی چچا اور میر قاتل کی تقریریں مفاد پرستی کا حصّہ ہے۔ اس
لئے نماز جمعہ میں اور عوامی سطح پر جلسے جلوسوں میں ان کی تقریروںپر
تاحیات پابندی کا بندوبست ہونا چاہئے۔ کشمیر کو امن کا گہوارہ بنانے کیلئے
ضروری ہے۔ یہاں امن کو فروغ دیا جائے۔ اس مسئلہ کو پائیدار حل ایک مضبوط
امن کا راستہ ہے۔ بہر کیف جو لوگ رمضان المبارک کے مہینے کا بھی احترام
نہیں کررہے۔ ان سے کوئی توقع رکھنا بے سود ہے۔ یہ کشمیر ی عوام کے دیرینہ
دشمن تو ہوسکتے ہیں۔ مگر دوست کبھی نہیں ہوسکتے ۔ ان کا بائیکا ٹ کرنا ۔
نماز نفل کا ثواب پانا ہے۔ |