انتخاب:۔ محمداحمد ترازی
" />

"محمد علی جناح۔دولت،جائیداد۔وصیت"

"محمد علی جناح۔دولت،جائیداد۔وصیت"
انتخاب:۔ محمداحمد ترازی
"محمد علی جناح۔دولت،جائیداد۔وصیت"
انتخاب:۔ محمداحمد ترازی
--------
ڈاکٹر سعد خان کی کتاب"محمد علی جناح۔ دولت، جائیداد اور وصیّت " کے چند اہم اقتباس درج ذیل ہیں۔
"قائد اعظم تمام عمر اپنی کمائی پر ٹیکس گزار رہے۔ کئی اقسام کے مرکزی ٹیکس (جیسا کہ آمدنی ٹیکس) صوبائی ٹیکس(جیسا کہ پراپرٹی ٹیکس) اور بلدیاتی محصولات)مثلاً واٹر ریٹ یا آبیانہ وغیرہ) ادا کرتے رہے۔ 1931ء میں آمدن کی مدمیں 1177روپے 10آنے، 1932ء میں 1432روپے، 1935ء میں 17754روپے، 1937ء میں 4877روپے 8آنے جبکہ مالی سال 1939-40ء کا آمدن ٹیکس 4998روپے ادا کیا۔ آخرالذکر ٹیکس ریٹرن کا عکس اسی کتاب کے تصاویر کے صفحات پر شائع کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح آپ کی برطانیہ میں قیام کے دور کی کچھ دستاویزات حوادث زمانہ سے بچ گئیں۔ ان دستاویزات کے مطابق 1933-34ء کا پراپرٹی ٹیکس آپ نے 66پونڈ 3شیلنگ11پنس ادا کیا جس کی رسید قومی آرکائیوز کی زینت ہے۔"
"برطانوی دور کے اواخر میں ہندوستانی وائسرائے کی سالانہ تنخواہ 18810 برطانوی پونڈ یعنی 2، 50، 900روپے (1947ء کی شرح مبادلہ کے لحاظ سے) بنتی تھی جو کہ ماہانہ 20، 900روپے ہوئی۔ پاکستان کے مالی حالات کو سامنے رکھتے ہوئے پاکستان میں گورنر جنرل کی ماہانہ تنخواہ اس کے نصف سے بھی کم یعنی 10، 416روپے 10آنہ مقرر ہوئی۔ تین ہزار ماہانہ سے زائد تنخواہ پر آمدن ٹیکس کا سب سے اونچا سلیب لاگو تھا۔ اس پر طرہ یہ کہ پانچ ہزار روپے ماہانہ سے اوپر جتنی آمدنی ہو اس کا 60فیصد ایک سپر ٹیکس کی مد میں کٹ جاتا تھا۔"
"بطور گورنر جنرل پاکستان قائد اعظم ہر ماہ 2، 291روپے 4آنہ آمدن ٹیکس اور 3، 190روپے 2آنہ سپر ٹیکس ادا کرتے۔ اب تنخواہ میں مجموعی 6، 112روپے کی ٹیکس کٹوتی کے بعد آپ کو ماہانہ فقط 4، 304روپے 10آنہ ملتے۔ وکالت کے دور کی 1، 500روپے یومیہ آمدنی کے لحاظ سے یہ آپ کی تین دن کی بھی آمدن نہ تھی۔ مزید برآں آپ کی تمام سرمایہ کاری پر منافع ٹیکس منہا کر کے ادا کیاجاتا جبکہ جائیداد کے لین دین پر ٹیکس الگ تھا۔ صرف مہتہ بلڈنگ کراچی خریدنے پر 30، 300روپے ٹیکس ادا ہوا۔"
"پاکستان بننے کے بعد آپ کی زندگی کے ایک سال 27دن میں آپ کو سرکاری خزانہ سے55، 920روپے 6آنہ تنخواہ کی مد میں ملے اور اسی دور میں 1، 66، 620 روپے 12آنہ آپ نے ٹیکس کی مد میں خزانہ میں جمع کروائے یعنی آمدن سے تقریباً چار گنا زیادہ"آئیے اب قائد اعظم کے جائیداد ٹیکس کی ادائیگیوں پر نگاہ دوڑاتے ہیں:
قائد اعظم کے سب سے بڑے مکان سائوتھ کورٹ المعروف جناح منزل بمبئی پر 790روپے 3آنہ سالانہ ٹیکس ادا ہوتا تھا جس میں سے گرائونڈ رینٹ 472روپے 8آنہ دوشش ماہی قسطوں میں جبکہ 17روپے 4آنہ ماہانہ(جو سال کا 207روپے بنتا تھا) فری ہولڈ کی مد میں باغات کے ٹیکس کے طور پر حکومت کو ادا ہوتا تھا۔ باقی 111روپے سالانہ متعدد بلدیاتی محصولات کی مد میں واجب الادا ہوتے۔ جناح منزل دہلی 470روپے سالانہ گرائونڈ ٹیکس 235روپے کی دوشش ماہی قسطوں میں ادا کیا جاتا جبکہ 3ایکڑ باغات کے لئے غیر فلٹر شدہ پانی کا آبیانہ(واٹر ریٹ) سالانہ 255روپے بھی 127روپے 8آنہ کی دوشش ماہی قسطوں میں ادا ہوا کرتا تھا۔ جناح منزل لاہور کی خریداری کے وقت قائد اعظم نے مبلغ 441 روپے بطور پراپرٹی ٹیکس ادا کئے تھے جس کا ریکارڈ موجود ہے پھر یہ مکان فوج کی کرایہ داری میں چلا گیا اور طے شدہ سالانہ 8.400روپے کرایہ (یعنی 700روپے ماہانہ) میں سے قائد اعظم کو ہر سال صرف 3، 600روپے(یعنی 300روپے ماہانہ) ملا کرتے تھے۔ ہر ماہ جو 400روپے کی کٹوتی ہوتی اس میں سے کچھ تو ٹیکس تھا اور باقی مکان کی مرمت وغیرہ کے اخراجات قائد اعظم کو واجب الادا کرایہ سے منہا کئے جاتے۔ ٹیکس کی سالانہ تشخیص کیا تھی۔ اس بارے میں کوئی حتمی دستاویزات موجود نہیں ہیں۔ تاہم اس بنگلے پہ قائد اعظم اپنی زندگی میں ہزار ہا روپے بطور ٹیکس ادا کرتے رہے۔"
"1946ء کی عبوری حکومت میں کانگریس اور مسلم لیگ دونوں شریک تھے۔ اہم وزارتوں میں سے وزارت خارجہ جواہر لال نہرو(یعنی کانگریس) اور وزارت خزانہ لیاقت علی خان(یعنی مسلم لیگ) کو ملی۔ یہی دونوں صاحبان 1947ء میں آزادی کے بعد بھارت اور پاکستان کے پہلے پہلے وزیر اعظم بنے۔ 1946ء میں جب لیاقت علی خان نے بجٹ پیش کیا تو ایک لاکھ روپے سے اوپر کی آمدنی والے افراد پر 25فیصد آمدن ٹیکس لگا دیا۔ نیز کارپوریٹ ٹیکس اور چائے پر درآمدی ڈیوٹی دگنی کر دی۔000 5روپے سے اوپر منافع پر Capital Gains Taxنافذ کر دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ ایک کمیشن تجویز کیا تاکہ ان عناصر کی نشاندہی کی جا سکے جنہوں نے جنگ عظیم میں منافع خوری سے دولت بنائی یا ٹیکس چوری کیا اور ان پر بھاری جرمانے تجویز کئے۔ اس بجٹ کو عام طور پر"جناح بجٹ" کہا جاتا تھا جس سے کانگریس کے حامی سرمایہ داروں اور ساہوکاروں کے مفادات پر کاری ضرب پڑی اور وہ بلبلا اٹھے۔ کانگریس تو اتنی سیخ پا ہوئی کہ اسے اندازہ ہوا کہ مسلم لیگ کے ساتھ چلنا ناممکن ہے۔ یہ قیام پاکستان کے عوامل میں انتہائی اہم پہلو ہے۔
قائد اعظم کی سیاسی عظمت اور ذاتی بلند کرداری پر بہت کچھ لکھا گیا، ان کی امانت و دیانت کا اعتراف ہر ایک نے کیا۔مگر ڈاکٹر سعد ایس خان نے قائد اعظم کو ایک ٹیکس گزار شہری کے طور پر پیش کیا ہے، ایسا ذمہ داری شہری جو اپنی آمدن پر عائد جملہ ٹیکس دیانتداری سے ادا کرتا اور دوسروں کے لئے نمونہ تقلید بنتا ہے، متحدہ ہندوستان کا ایک دولت مند شہری ذاتی اخراجات میں کفایت شعاری اور جزرسی کا عادی مگر ٹیکس کی ادائیگی میں انتہائی فراخدل اور پرجوش تھا۔یہاں سوال یہ ہے کہ جس ملک کا بانی اتنی فرض شناسی کے ساتھ ٹیکس دہندہ رہا ہو، کیا وجہ ہے کہ وہاں ٹیکس چوری کا رجحان سرطان کی طرح پھیل گیا؟
قائدِ اعظم محمّد علی جناح ایک کام یاب وکیل تھے اور قانونی خدمات کے عوض یومیہ 15 سو روپے تک کما لیتے تھے، جب کہ اُنھوں نے 36 برس کی عُمر سے مختلف کمپنیز میں سرمایہ کاری بھی شروع کردی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق، 1926ء میں اُن کی یہ سرمایہ کاری آج کی کرنسی کی قدر کے حساب سے68 کروڑ روپے تک پہنچ گئی تھی۔ یوں اُن کا شمار جنوبی ایشیا کے10 امیر ترین افراد میں ہونے لگا تھا۔ زیرِ تبصرہ کتاب میں مذکورہ بالا معلومات کے ساتھ قائدِ اعظم کے ممبئی سائوتھ کورٹ بنگلے‘ دہلی‘ لاہور اور کراچی کے جناح ہائوسز کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
نیز‘ یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اُن کی لاہور میں 324 کنال‘ 2مرلہ‘ ملیر کراچی میں 20 ایکڑ زرعی اراضی‘ کیماڑی کے ساحل پر ہٹ‘ لبرٹی مارکیٹ لاہور‘ کراچی کے آئی آئی چند ریگر روڈ پر کمرشل پلاٹ اور پلازے بھی تھے۔ یہ جائیدادیں آج کس حال میں ہیں؟ سفارتی تنازعات‘ خاندانی مقدمات کی نوعیت کیا ہے؟ اور یہ کہ جائیداد کی تقسیم سے متعلق قائدِ اعظم کی وصیّت کا کیا بنا؟ فاضل مصنّف نے اِن سوالات پر بھرپور تحقیقی مواد فراہم کیا ہے۔ علاوہ ازیں‘ قائدِ اعظم سے منسوب عمارات وزیر مینشن‘ زیارت ریزیڈنسی اور مزارِ قائد سے متعلق بھی معلومات دی گئی ہیں۔
ڈاکٹر سعد خان نے ”محمد علی جناح،دولت،جائیداد، وصیت“بانی پاکستان کی دور اندیشی،رہن سہن، دنیا میں احسن اور پُروقار طریقے سے بقا ءکے لوازمات، رشتے نبھانے، تعلیم سے محبت اور لگاو کے دریچوں کو وا کرتی ہے۔اس کتاب میں بیان کیے گئے واقعات اور ریسرچ پر مبنی ابواب اس بات کے غماز ہیں کہ قائد اعظم محض ایک وکیل ہی نہیں بلکہ ایک اچھے کاروباری انسان بھی تھے جن میں جمالیاتی حس اپنی انتہا کو تھی۔ محترم قائد وسیع عریض مکانات کا شوق رکھتے تھے ۔ اُنھوں نے ایسے مکانات نہ صرف جنوبی ایشیا کے اہم شہرو ں ، جیسا کہ ممبئی ، دہلی، لاہور او ر کراچی بلکہ لندن میں بھی خریدے ۔ان کی جائیدادوں، حصص کی خریداری کا تفصیلی ذکر قاری کو اس کتاب میں مل جائے گا۔ڈاکٹر سعد خان نے محمدعلی جناحؒ کے ان اوصاف سے پردہ اٹھایا ہے جو عام آدمی کی نظروں سے اوجھل اور پوشیدہ تھے۔ آج بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ قائد ِاعظم محمد علی جناح کا شمار جنوبی ایشیا کے چوٹی کے دس امیرترین سرمایہ کاروں میں ہوتا تھا۔ اُنھوں نے خود اپنی محنت سے زندگی بنائی تھی۔ یہ اُ ن کی دیانت، لگن اور ذہانت تھی جس کی وجہ سے وہ اتنی دولت کمانے میں کامیاب ہوئے ۔ اُن کی دولت کا ذریعہ صرف قانون کا پیشہ ہی نہیں بلکہ متحدہ ہندوستان کی چوٹی کی صنعتوں کے حصص اور جائیدار میں کی گئی سرمایہ کاری بھی تھی۔ قائد کی دولت اور جائیداد کا تجزیہ ہمیں اُن کی شخصیت کے اندر جھانکنے اور اُن کی ترجیحات کا کھوج لگانے میں مدددیتا ہے ، اس پہلو کی طرف اب تک بیشتر مو رخین کی نظر نہیں گئی تھی۔یہ کتاب تاریخ کے اسی خلا کو پُر کرنے کی سمت میں ایک قدم ہے ۔
نیز بانی پاکستان ایک خطیر رقم ٹیکس کی مد میں حکومت پاکستان کو ادا کیا کرتے تھے۔ بانی پاکستان کا اپنی وصیت میں تعلیمی اداروں کے لیے خطیر رقم چھوڑنا اس بات کی نشاندہی ہے کہ وہ مکمل ترکہ نسل در نسل منتقل کرنے کے قائل نہیں تھے بلکہ ان کے نزدیک علم کا حصول ہرخاص و عام کے لیے ضروری تھا۔آخر میں قائداعظم سے منسوب عمارات جیسے وزیر مینشن، زیارت ریزیڈینسی اور مزارِقائد وغیرہ کی تاریخ بھی بطور ضمیمہ درج کردی گئی ہے۔
کتاب میں بابائے قوم کی جائے پیدائش پر مختلف آراء کا حقائق کی بنیاد پر تجزیہ بھی کیا گیا ہے۔ قائدِ اعظم اپنی نجی زندگی میں دیانت داری کے کس اعلیٰ مقام پر فائز تھے‘ اِس کا اندازہ کتاب کے اُس باب کے مطالعے سے بھی ہوتا ہے‘ جس میں اُن کی آڈٹ اور ٹیکس تفصیلات دی گئی ہیں۔ مصنّف کا خیال ہے کہ قائدِ اعظم کی کراچی میں کئی اور جائیدادیں بھی تھیں‘ جنہیں کاغذات غائب یا اُن میں ردّوبدل کرکے مختلف افراد نے ہتھیا لیا‘ اِس لیے اُن جائیدادوں کا سراغ لگانے کے لیے ایک کمیشن بنانا چاہیے۔ اسلوب سادہ لیکن تحقیقی ہے۔ بلاشبہ، بابائے قوم کی حیات و خدمات کے مطالعے کے ضمن میں یہ کتاب ایک بہترین اضافہ ہے۔یہ کتاب مشہور پبلشنگ ہاؤس "جمہوری پبلی کیشن " لاہور سے شائع ہوئی ہے ۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 315 Articles with 308027 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More