ایڈوپٹڈ سپورٹس‘ ایوارڈ شو اور سپیشل افراد
(Musarrat Ullah Jan, Peshawar)
پشاور سپورٹس کمپلیکس کی حدود میں ہونیوالے اس ایوارڈ شو میں ایک مخصوص تنظیم سے تعلق رکھنے والی شخصیت کی جانب سے ایک سپیشل کھلاڑی کو یہ کہنا کہ آپ کو کتنی رقم چاہئیے‘ پچاس ہزار یا بیس ہزار‘ میرے ایک دستخط سے آپ کو سب کچھ مل سکتا ہے‘ اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایڈوپٹڈ سپورٹس پالیسی کے اس پورے پروگرام میں مخصوص تنظیم ہی ابھر کر آئی.جو ایک لحاظ سے غلط بھی ہے کیونکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کسی مخصوص تنظیم اور کسی مخصوص علاقے کیلئے نہیں بلکہ یہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے تمام افراد بشمول سپیشل افراد کا ادارہ ہے اور اس پر سب کا حق بھی یکساں ہے. |
|
|
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نے صوبہ بھر میں مختلف کھیلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے والے خصوصی صلاحیتوں کے حامل خاص افراد کے لئے ایوارڈ دینے کا پہلا باضابطہ سلسلہ شروع کردیا اور اس سلسلے میں پشاور سپورٹس کمپلیکس کے ایرینا ہال میں فخر پختونخواہ ایوارڈ کی تقریب کا انعقاد کیا گیا‘ جس میں صوبے کے گیارہ مختلف اضلاع بشمول دو ضم اضلاع سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی‘ اس تقریب میں ان کی کارکردگی کی بنیاد پر ایوارڈ دئیے گئے‘ جس میں ڈی جی سپورٹس خیبر پختونخواہ خالد خا ن‘ ڈپٹی کمشنر پشاور شفیع اللہ خان اور ممبر صوبائی اسمبلی ملک واجد سمیت سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اعلی عہدیداروں نے شرکت کی‘ پہلی مرتبہ صوبائی سطح پر ہونیوالے ان ایوارڈز کی تقریب میں سپیشل افراد کو محظوظ کرنے کیلئے پشتو موسیقی سے تعلق رکھنے والے متعدد گلوکاروں نے بھی شرکت کی.
تقریب میں پہلی مرتبہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر نے خود اور ایک خاتون صحافی کے ہمراہ اینکرنگ کی‘ چونکہ انہیں پروگرام کا پتہ تھا اس لئے بہ نسبت دیگر پروگراموں کے یہ تقریب بہر حال کسی حد تک بہتر ہی رہی‘ سپیش افراد نے بھی صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے اس جذبے کو سراہا جس کی وجہ سے انہیں فخر پختونخواہ ایوارڈ دیا گیا جبکہ سپیشل افراد کیساتھ آنیوالے ان کے رشتہ دار اور والدین بھی خوش دکھائی دئیے کہ ان کے بچوں‘ بھائیوں نے معذوری کے باوجود اپنے صوبے کیلئے نام پیدا کیا. جن کیٹگریز میں ایوارڈ دئیے گئے ان میں کرکٹ‘ ویٹ لفٹنگ‘ ٹیبل ٹینس‘ آرچری‘ وھیل چیئر ریس‘ وہیل چیئر ٹیبل ٹینس‘ رسہ کشی‘ اتھلیٹکتس سمیت دیگر کھیلوں میں نمایاں پوزیشن حاصل کرنے اور ان میں حصہ لینے والے مرد و خواتین کھلاڑیوں میں ایوارڈ تقسیم کئے گئے. صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی جانب سے ایوارڈ حاصل کرنے والوں میں نئے ضم اضلاع سمیت چارسدہ‘ مردان‘ بنوں‘ ایبٹ آباد‘ چترال‘ دیر لوئر‘ دیر‘ ہزارہ اور ضلع خیبر کے مرد و خواتین شامل تھے.تقریب میں شرکت کیلئے آنیوالے تمام سپیشل افراد بہت زیادہ پرجوش تھے جس کا اظہار وہ کبھی ڈانس کی شکل میں کرتے دکھائی دئیے.
اس تقریب سے کم و بیش بیس دن قبل ایڈوپٹڈ سپورٹس پالیسی کے حوالے سے سوشل ویلفیئر ڈیپارٹمنٹ سمیت مختلف جگہوں پر سیمینار و رکشاپ کئے گئے جس میں سپیشل افراد کی بنیادی ضروریات‘ انہیں درپیش مسائل اور انہیں کھیلوں کے میدانوں میں لانے سمیت ان کی حوصلہ افزائی کے حوالے سے تجاویز بھی پیش کی گئی - صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کا سپیشل افراد کیلئے یہ واحد پراجیکٹ تھا جو گذشتہ کئی سالوں سے التواء کا شکار تھا اور پہلی مرتبہ اس منصوبے پر عملدرآمد کرکے ان افراد کی حوصلہ افزائی کی گئی جو کسی حد تک قابل تعریف بھی ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں جن نظروں سے اور جس حقارت سے سپیشل افراد کو دیکھا جاتا ہے وہ بیان کرنے کے قابل نہیں. کوئی بھی نہیں چاہتا کہ اس کا جسم کا کوئی بھی حصہ کسی قسم کی معذوری کا شکار ہواور اس کی وجہ سے لوگوں کی نظروں میں وہ حقیر‘ کم تر نظر آئے.اور یہ صوبہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے خصوصی افراد کی بڑی کاوش ہے کہ جنہوں نے نہ صرف تعلیم کے میدان میں بلکہ کھیلوں کے مختلف میدانوں میں اپنا لوہا منوایا‘ اللہ تعالی کی مہربانی اور ان کی خداداد صلاحیتو ں کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے اور صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کاان افرادکی حوصلہ افزائی کیلئے شروع کیا جانیوالا یہ منصوبہ اللہ کرے کہ مستقبل میں بھی اس طرح چلتا رہے تو اس سے خصوصی صلاحیتوں کے حامل افراد کی نہ صرف حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ وہ زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی آگے آنے کی کوشش کرینگے.
ایوارڈ کی تقریب میں سیکرٹری سپورٹس خیبر پختونخواہ کی آمد متوقع تھی تاہم وہ نامعلوم وجوہات کی بناء پر نہیں آسکے یہ الگ بات کہ دو دن قبل ہفتے کے روز وہ پشاور سپورٹس کمپلیکس میں سکواش کے کھلاڑیوں کی حوصلہ افزائی کیلئے آئے تھے تاہم سپیشل افراد کی اس تقریب میں شریک نہ ہو سکے. شائد ان کی نظروں میں سپیشل افراد کی اتنی اہمیت نہیں ہوگی جتنی اہمیت سکواش کے کھیل کی تھی خیر ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خالد خان ایک مخصوص وقت کیلئے آئے اور ایوارڈ تقسیم کرنے کے بعد نکل گئے‘ جس کے بعد ان کی کمی اسی حلقے سے منتخب ممبر صوبائی اسمبلی ملک واجد نے پوری کردی جس کے ساتھ ڈائریکٹر آپریشنز عزیز اللہ بھی موجود تھے. بنوں سے تعلق رکھنے والے ایک خصوصی صلاحیتوں کے حامل کھلاڑیوں نے ڈائریکٹر جنرل سپورٹس کی غیر موجودگی پر بات بھی کی اور اسے افسوسناک قرار دیا کہ وہ نکل گئے انہوں نے سپیشل افراد کیلئے مالی امداد کے حوالے سے بھی بات کی اور کہا کہ ا س طرح سے مالی امداد سے بہت ساروں کے مسائل حل ہو سکیں گے. جس پر سٹیج پر موجود ڈپٹی ڈائریکٹر آپریشنز نے ڈی جی کی دوبارہ آمد کے حوالے سے بات کی اور ساتھ میں کہہ دیا کہ ان سپیشل افراد کی مالی امداد بھی کی جائے گی.
ڈائریکٹر جنرل سپورٹس خیبر پختونخواہ خالد خان اس موقع پر بات نہیں کرسکے البتہ پشاور میں نئے تعینات ہونیوالے ڈپٹی کمشنر نے مثبت سرگرمیوں کے فروغ پر زور دیا اور ساتھ ہی کہہ دیا کہ حال ہی میں وزیراعلی خیبر پختونخواہ کی ہدایات پر منشیات کے عادی افراد کو اس لعنت سے نجات دلانے کیلئے منصوبے پر کام شروع ہو چکا ہے اور ہماری کوشش ہے کہ منشیا ت کے عادی تمام افراد کو نارمل زندگی کی طرف لے آئیں ان کے بقول اس کے بعد منشیات کا کاروبار کرنے والوں کے خلاف آہنی ہاتھوں سے نمٹا جائے گا.انہوں نے جلد ہی منشیات کے بحالی کے مراکز سے نارمل زندگی کی طرف آنیوالے افراد کیلئے تقریب منعقد کرنے کا بھی اعلان کیا اور ساتھ میں سپورٹس ڈائریکٹریٹ سے مدد بھی مانگ لی‘ ڈپٹی کمشنر پشاور کی باتیں سرآنکھوں پر‘ لیکن وہ اگر منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کو پہلی فرصت میں ختم کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو پھر منشیات نہ ملنے کے باعث منشیات کی روک تھا م بھی آسانی سے ہوسکے گی اور منشیات کے عادی افراد بھی تیزی سے ریکور ہو سکیں گے جس پر ڈپٹی کمشنر پشاور کو سوچنے کی بھی ضرورت ہے.
صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایڈوپٹڈ سپورٹس پالیسی کے حوالے سے شروع کئے جانیوالے پروگراموں کو اگر عمیق نظر سے دیکھا جائے تو اس میں بہت حد تک خامیاں بھی نظر آرہی ہیں کیونکہ اس میں ایک مخصوص تنظیم سے تعلق رکھنے والے سپیشل افراد ٹاپ پوزیشن پر نظر آئے.سیمینار‘ ورکشاپ سے لیکر نتھیا گلی میں ہونیوالے پروگراموں میں مخصوص لوگ ہی نظر آئے.جبکہ ایوارڈ کیلئے بھی وہی لوگ ہی ٹاپ پر آئے جنہیں مخصوص تنظیم نے آگے رکھا تھا‘ حتی کہ ایوارڈ شو میں بھی مخصوص تنظیم کے لوگ جن کے ممبران نے ایوارڈ لئے انہیں سٹیج سے نیچے اتارنے کی ذمہ داری ایک مخصوص شخصیت لیتے رہے لیکن جب ان کی تنظیم کے افراد نکل آئے تو پھر ان سپیشل افراد جو وہیل چیئر میں ایوارڈ لینے کیلئے آئے تھے انہیں سٹیج سے اتارنے والے بھی کوئی نہیں آیا. ایوارڈ شو میں جن افراد کے نام اناؤنس ہوتے تھے ان کی ویڈیو کلپ چلتی تھی اور انکا انٹرویو چلتا لیکن ان میں بعض ایسے خصوصی افراد بھی سامنے نظر آئے جن کی کارکردگی بہت زیادہ تھی لیکن ان کی صرف تصاویر لگا کر روٹین کے جملے بول کر ان کی حوصلہ افزائی کی کوشش کی گئی‘ حالانکہ ان ویڈیوز اور انٹرویوز پر سب کایکساں حق تھا جس طرح کے ٹورز اور سیمینار و ایوارڈ میں سب کو یکساں اور برابری کا حق ہونا چاہئیے تھا.
سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ایڈوپٹڈ سپورٹس پالیسی کے سلسلے میں ہونیوالے اس ایوارڈ شو کیلئے پشاور سپورٹس کمپلیکس کے ایرینا ہال کا انتخاب کیا گیا تھاجہاں پر انتظامات تو بہترین تھے لیکن کم و بیش دو سو افراد کی موجودگی کے باعث گرمی سے برا حال رہا‘ پانچ بجے سے شروع ہونیوالے پروگرام کی کوریج کیلئے آنیوالے صحافی چمن میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کے باعث انتظار کرتے اور دعا کرتے دکھائی دئیے کہ خداکرے کہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے الیکٹریشن جو ڈائریکٹریٹ میں متعدد ہیں وہ جنریٹر کو چالو کرسکیں. ایوارڈ شو کی تقریب میں کئی مرتبہ بجلی کی لوڈشیڈنگ نے کام خراب کردیا اور پھر جنریٹر سے لنک اپ کرنے میں بھی وقت لگا جس کے باعث پروگرام کی اینکرنگ کرے والے خاتون صحافی اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کے ڈپٹی ڈائریکٹر کو بھی مشکل درپیش آئی. جس کا اندازہ ان کے چہروں سے بھی ہوا اور پسینے سے شرابو ر چہروں اور جسموں نے ان کی حالت بہتر انداز میں سب کو دکھا دی. یہ الگ بات کہ پشتوگلوکار بختیار خٹک نے بھی اس بات کا شکر ادا کیا کہ کوئی خاتون گلوکار نہیں آئی ورنہ اس کا سارا میک اپ اتر جانا تھا.
پشاور سپورٹس کمپلیکس کی حدود میں ہونیوالے اس ایوارڈ شو میں ایک مخصوص تنظیم سے تعلق رکھنے والی شخصیت کی جانب سے ایک سپیشل کھلاڑی کو یہ کہنا کہ آپ کو کتنی رقم چاہئیے‘ پچاس ہزار یا بیس ہزار‘ میرے ایک دستخط سے آپ کو سب کچھ مل سکتا ہے‘ اس سے بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ایڈوپٹڈ سپورٹس پالیسی کے اس پورے پروگرام میں مخصوص تنظیم ہی ابھر کر آئی.جو ایک لحاظ سے غلط بھی ہے کیونکہ سپورٹس ڈائریکٹریٹ کسی مخصوص تنظیم اور کسی مخصوص علاقے کیلئے نہیں بلکہ یہ خیبر پختونخواہ سے تعلق رکھنے والے تمام افراد بشمول سپیشل افراد کا ادارہ ہے اور اس پر سب کا حق بھی یکساں ہے. رات گئے تک جاری رہنے والے اس ایوارڈ شو میں بجلی کی مسلسل لوڈشیڈنگ اور سپورٹس ڈائریکٹریٹ کی الیکٹریشن کی نااہلی کے باعث جنریٹر کی سست روی سے لنک اپ ہونے کے باعث پروگرام کو آخر میں جلدی ہی ختم دیا گیا کیونکہ گرمی بہت زیادہ تھی یہ تو شکر ہے کہ پروگرام آرگنائز کرنے والے اس بات کو سمجھ گئے کہ اب گرمی قابل برداشت نہیں اس لئے پروگرام کو وائنڈ اپ کردیا گیا.
خدا کرے کہ صوبائی سپورٹس ڈائریکٹریٹ نئے مالی سال میں اس منصوبے کو آگے لیکر چلے تاہم انہیں مستقبل میں کسی بھی قسم کی مداخلت اور من پسند افراد کے آگے آنے سے بچنے کیلئے ایڈوپٹڈ سپورٹس پالیسی کے تحت پورے صوبے میں کام کرنے کی ضرورت ہے بشمول نئے ضم اضلاع کے‘ اور ایوارڈ کا یہ سلسلہ صرف کھیلوں کے میدانوں تک نہیں بلکہ اسے دیگر ایسی تنظیموں اور اداروں کیساتھ ملکر بنانا چاہئیے جو سپیشل افراد کو باعزت روزگار اور انہیں معاشرے کا اہم فرد بنانے نہ صرف حکومت کی جانب سے بلکہ بین الاقوامی اداروں کی جانب سے فنڈز بھی ملتی ہیں انہیں اس میں شامل کرکے تمام افراد کے مقابلے ڈسٹرکٹ سپورٹس آفیسرز کی سطح پر کرنے کے بعد انہیں صوبائی سطح پر لانا چاہئیے‘ تاکہ ایک طرف یہ بھی پتہ چل سکے کہ خیبر پختونخواہ میں دیگر شعبوں میں کتنے سپیشل افراد ہیں جو اہم جگہوں پر کام کررہے ہیں جس سے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی ہوگی بلکہ انہیں رول ماڈل بنا کر زندگی کے دیگر شعبوں میں بھی سپیشل افراد کو رغبت دلائی جاسکتی ہیں.اور ساتھ میں یہ سلسلہ بھی ختم کیا جائے کہ مستقبل میں کسی ایک شخص کو ایوارڈ نہیں دیا جائے جو ایک مرتبہ لے چکا ہو کیونکہ یہی تنظیمیں صرف مخصوص لوگوں تک ہی محدود ہو کر کام کررہی ہیں بلکہ انہیں کھلے دل اور دماغ سے نئے لوگوں اور نئے ٹیلنٹ کو آگے لانے کیلئے کوششیں کرنا ہونگی.
|