شیوسینا کی اگنی پریکشا

ملک بھر میں اگنی پتھ پر اگنی ویروں کا تانڈو جاری ہے ایسے میں بی جے پی نے شیوسینا کو ایک اگنی پریکشا میں مبتلا کردیا ۔ ضلع تھانے سے شیوسینا کے رہنما ایکناتھ شندے نے اپنی کئی ساتھیوں کے ساتھ بغاوت کردی اور گجرات پہنچ گئے۔ شیوسینا نے سچن پائلٹ کی مانند ایکناتھ شندے کے نخرے نہیں اٹھائے بلکہ انہیں اسمبلی کے اندر پارٹی کی لیڈر شپ سے ہٹا دیا ۔ یہ شیوسینا کے کام کرنے کا منفرد انداز ہے جہاں لیڈر کی چلتی ہے۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ 1966 میں جب اس کی بنیاد پڑی تو سینا سپریمو بالا صاحب ٹھاکرے نے یہ اصول وضع کیا تھا کہ وہ صرف اپنی 20 فیصد توانائی سیاست پر صرف کرے گی اوراس کا 80 فیصد کا م خدمت خلق پر مشتمل ہوگا لیکن وقت کے ساتھ ادھو ٹھاکرے کے اقتدار میں آنے بہت پہلے وہ 100 فیصد سیاست ہوگیا ۔ سیاست کی دنیا میں شیوسینا کو پہلی کامیابی اسی تھانے شہر میں ملی جہاں سے ایکناتھ شندے آتے ہیں ۔ وہاں پر ایک بار پتہ چلا کہ شیوسینا کے کسی کونسلر نے کراس ووٹنگ کی ہے تو بال ٹھاکرے نے یہ کہہ کر سبھی کونسلرس کو استعفیٰ دینے پر مجبور کردیا کہ سینا کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ فوج ہے۔ اس کے بعد جس کونسلر پر شک تھا اس کا قتل کرکے یہ پیغام دیا گیا کہ یہاں بغاوت کی سزا موت ہے۔

یہ اگلے وقتوں کی باتیں ہیں ۔ ممبئی میونسپلٹی میں اقتدا کی خاطر سینا نے نہ صرف سوشلسٹ پارٹی بلکہ مسلم لیگ سے بھی الحاق کیا ۔ شیوسینا کا کانگریس و بی جے پی کا ساتھ گٹج جوڑ جگ ظاہر ہے۔ شیوسینا کے اندر پہلی بڑی بغاوت چھگن بھجبل نے کی ۔ بال ٹھاکرے منڈل سفارشات کے خلاف تھے مگر او بی سی ہونے کے ناطےبھجبل اس کے حامی تھے ۔ اس کے علاوہ بال ٹھاکرے کا منوہر جوشی کو حزب اختلاف کے رہنما کی حیثیت سے نامزد کرنا بھی انہیں گراں گذرا تھا۔ بھجبل خود کو اس کا اہل سمجھتے تھے ۔ان کی بغاوت پر بھی بڑا ہنگامہ ہوا اور سینک ان کے گھر پر چڑھ دوڑے ۔ مہاراشٹر میں شیوسینا نے 1995 کے اندر اقتدار کی باگ ڈور سنبھالنے کے بعد منوہر جوشی کو وزیر اعلیٰ بنادیا لیکن جب بال ٹھاکرے کو محسوس ہوا کہ وہ برہمن کی حیثیت سے دوبارہ انتخاب نہیں جیت سکیں گے تو انہیں مراٹھا قوم کے نارائن رانے سے بدل دیا گیا۔ یہی غلطی بی جے پی نے کی ۔ اس نے ایکناتھ کھڑسےکا چہرا دکھا کر انتخاب جیتا اور دیویندر فڈنویس نامی برہمن کو وزیر اعلیٰ بنادیا۔ وہ بھی دوبارہ پارٹی کو کامیاب کرنے میں ناکام رہا ۔

نارائن رانے بھی آگے چل کر بغاوت کردی اوراس کے غنڈوں نے ممبئی کی سڑکوں شیوسینکوں کو دوڑ دوڑا کر مارا۔ شیوسینا میں آخری بغاوت راج ٹھاکرے کی تھی۔ انہوں مہاراشٹر نونرمان سینا قائم کی ۔ ان باغیوں میں سے بھجبل اور نارائن رانے وزیر تو بنے لیکن ان کی سیاسی ساکھ تباہ ہوگئی ۔ راج کا حال یہ ہے کہ وہ بن پیندے کے لوٹے کی مانند کبھی بھی کہیں بھی جھک جاتا ہے۔ ایکناتھ شندے کی بغاوت کو کچلنے کی خاطر ادھو ٹھاکرے نے حسبِ توقع کڑا رخ اختیار کیا ۔ اس بات کا امکان ہے کہ اس سے ڈر کر شندے کے حامی اپنی پارٹی میں لوٹ آئیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے وہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملاکر موجودہ حکومت کو گرا دیں ۔ ان دونوں صورتوں میں ایکناتھ شندے کا نقصان اور ادھو ٹھاکرے کا فائدہ ہے۔ ایکناتھ کا پہلا نقصان تو ہوچکا ۔ اب وہ ایوان کی رہنمائی سے ہاتھ دھو چکا ہے لیکن اگر وہ اپنی روش پر قائم رہے تو اس کا حشر بھی بھجبل ، رانے یا راج ٹھاکرے سے برا ہوگا۔

چھگن بھجبل نے شیوسینا کو پہلی بار ممبئی اور کوکن سے باہر متعارف کرایا تھا اور ایوان میں رکن اسمبلی کی حیثیت سے اور اس سے پہلے ممبئی میئر شپ پر وہ بہت مقبول ہوچکے تھے ۔ اس کے باوجود اب وہ شردپوار کے محتاج ہو کررہ گئے ۔ نارائن رانے سابق وزیر اعلیٰ تھے پھر بھی کانگریس اور بی جے پی میں وہ کوئی ممتاز مقام حاصل نہیں کرسکے اور ان کا سیاسی کیرئیر دم توڑ رہا ہے۔ اپنے بل بوتے پر وہ ایک اسمبلی یا پارلیمانی انتخاب جیت نہیں سکتے ۔ راج ٹھاکرے کے اندر خطابت کی غیر معمولی صلاحیت ہے ۔ اس کی وجہ سے مختلف سیاسی جماعتیں ان کا بھانڈ کے طور پر استعمال کرتی ہیں لیکن ایکناتھ شندے میں ایسی کوئی خصوصیت نہیں ہے ۔ اس لیے وہ خشک پتے‘ کی مانند کہاں جاکر گریں گے اس کا کسی کو پتہ بھی نہیں چلے گا ؟

ایکناتھ شندے کا مسئلہ یہ ہے کہ انہیں بی جے پی کبھی بھی وزیر اعلیٰ نہیں بنائے گی ایسے میں ایک شیوسینک وزیر اعلیٰ کے خلاف بی جے پی کے وزیر اعلیٰ کی حمایت ان کو شیوسینکوں کی نظروں میں گرادےگی اور وہ اپنے رائے دہندگان کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہیں گے۔ سنا ہے ایکناتھ شندے وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے کو بی جے پی کے ساتھ حکومت کے قیام کی خاطر دباو بنارہے ہیں ۔ اس صورت میں بی جے پی کو ادھو ٹھاکرے کی حمایت کرنی ہوگی ۔ سابق وزیر اعلیٰ دیوندر فڈنویس کو اگر یہی کرنا ہوتا تو انہیں ایکناتھ شندے کے ذریعہ یہ ناٹک کروانے کی ضرورت نہیں تھی ۔ یہ کام تو ای ڈی کے ذریعہ بڑی آسانی سے ہوسکتا تھا ۔ اقتدار کا گاجر اور ای ڈی کا ہنٹر بی جے پی اور شیوسینا کو یکجا کرنے کے لیے کافی ہے لیکن فڈنویس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ پارٹی سے زیادہ اہمیت اپنی ذات کو دیتے ہیں۔ بی جے پی کا حالیہ کلچر یہی ہے۔

مرکز میں نریندر مودی کی حیثیت پارٹی اور قومی مفاد سے کہیں زیادہ ہے اور صوبے میں بھی دیویندر فڈنویس کی آرزو مندی کے آگے ریاست و پارٹی کا مفاد پانی بھرتے ہیں ۔ یہ نہ ہوتا تو مہاراشٹر وکاس اگاڑی وجود میں ہی نہیں آتی۔ دیویندر فڈنویس تو نصف مدت کے لیے بھی شیوسینا کے ساتھ اقتدار میں شراکت داری کے روادار نہیں تھے۔ اس وقت تو یہ صورتحال تھی کہ اگر ادیتیہ ٹھاکرے کو دیویندر فڈنویس اپنا نائب وزیر اعلیٰ بنانے پر راضی ہوجاتے تب بھی بات بن سکتی تھی لیکن انہوں اپنے حلیف کو دھوکہ دےکر این سی پی کے اجیت پوار کے ساتھ صبح پانچ بجے منہ اندھیرے حلف برداری کرائی اور دوسرے دن منہ کی کھا کر استعفیٰ دے دیا ۔ بی جے پی کے دوبارہ اقتدار میں نہ آنے بنیادی وجہ یہی رعونت آمیز رویہ ہے۔ اسی کے سبب دیویندر فڈنویس کی تمام کوششیں ناکام ہوتی رہیں اوروہ دوبارہ اقتدار میں نہیں آسکے ۔ مہاراشٹر کی عوام کو اس کا کوئی افسوس نہیں ہے ۔

اس میں شک نہیں ہے کہ ادھو ٹھاکرے نے دیویندر فڈنویس سے بہت بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ وہ ایک سنجیدہ رہنما کے طور عوام کے سامنے آئے۔ کورونا کی وباء کا سب سے زیادہ اثر مہاراشٹر میں ہوا۔ مرکزی حکومت کا رویہ معاندانہ تھا اس کے باوجود مہاراشٹر سرکار کی فعالیت نے ملک بھر کے عوام کو متاثر کیا۔ انہوں بغیر کسی شکوہ شکایت اپنی ذمہ داری ادا کی۔ عوام سے براہ راست رابطہ کیا۔ اپنی مشکلات کا برملا اعتراف کرنے کے بعد عام لوگوں کے بہی خواہ کی حیثیت سے عوامی فلاح و بہبود میں مصروفِ عمل رہے۔ مسلمانوں میں شیوسینا کے حوالے سے جو خدشات تھے ان کا ازالہ کرنے کی حتی الامکان کوشش کی ۔ مختلف مواقع پر ملک کا ماحول بگڑا مگر مہاراشٹر کے اندر امن و سلامتی کی حالت اچھی رہی ۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں بکاؤ ارکان اسمبلی نے ووٹ ڈالے و ہاں تو بی جے پی کو فائدہ ہوا مثلاً ایوان بالہ اور قانون ساز کونسل میں وکاس اگھاڑی کو ہزیمت اٹھانی پڑی لیکن ایسے تمام انتخابات میں جہاں عوام نے رائے شماری میں حصہ لیا ایم وی اے کامیاب رہی ۔ یہ ادھو ٹھاکرے کی بڑی کمائی ہے۔
بی جے پی اگر اس بار ایم وی اے کی سرکار کو گرانے میں کامیاب ہوجاتی ہے تو ادھو ٹھاکرے کو اس کی پروا کیے بغیر استعفیٰ دے کر حزب اختلاف میں بیٹھ جانا چاہیے کیونکہ اس صورت میں دو سال بعد ان کا اتحاد بڑی آسانی سے اقتدار میں آجائے گا ۔ اس کے برعکس اگر ادھو ٹھاکرے نے اپنا اقتدار بچانے کی خاطر بی جے پی کی مدد لے لی یا اس کی حمایت کردی تو یہ شیوسینا کی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوگی۔ بی جے پی آئندہ صوبائی انتخاب سے قبل اس کی پیٹھ میں چھرا گھونپ کر اسے ملیا میٹ کردے گی اور68؍ سال بعد بالا صاحب ٹھاکرے کا شیر موت کی نیند سو جائے گا۔ اب یہ فیصلہ ادھو ٹھاکرے کو کرنا ہے کہ وہ ایک عارضی فائدے کے لیے اپنا ہمیشہ کا نقصان کر بیٹھتے ہیں یا طویل المدتی سیاسی کامیابی کی خاطر وقتی نقصان سہہ لیتے ہیں ۔ اقتدار بھی ہاتھ کے میل کی مانند آتا جاتا رہتا ہے لیکن رہنما کا اعتماد و وقار اگر مٹ جائے تو پھر قائم نہیں ہوتا ۔ اس لیے دور اندیش سیاستداں کو عارضی نقصان سے متاثر نہیں ہونا چاہیے۔ ادھو ٹھاکرے کے لیے یہ اہم اگنی پریکشا ہے، دیکھنا ہوگا کہ وہ اس میں کامیاب ہوتے ہیں یا ناکام ہوجاتے ہیں ۔ اس وقت اگر پیر پھسل جائے تو ان پر مظفر رزمی کا یہ شعر صادق آجائے گا؎
یہ جبر بھی دیکھا ہے تاریخ کی نظروں نے
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2045 Articles with 1228371 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.