مہاراشٹر کی سیاسی ’بھول بھلیاں :۲‘ کا انٹرویل بھی اتنا
ہی دلچسپ ہوا ہے جتنا ہے کہ ’بھول بھلیاں :۱‘ کا کلائمکس تھا ۔ ان دونوں
میں فرق یہ ہے کہ پہلے والی ڈھائی دن چلی اور پٹ گئی اور دوسری والی کا
ڈھائی سال بعد انٹرویل ہواہے۔ مہاراشٹر کا صوبائی انتخاب بھول بھلیاں :۱ کی
مانند بالکل سیدھا سادہ تھا ۔ بی جے پی اور شیوسینا نے ایک ساتھ مل کر خوب
گاجے باجے کے ساتھ دھوم دھام سے انتخاب لڑا اور نہایت شاندار جیت درج کرائی
لیکن عین سات پھیروں سے قبل پتی اور پتنی کی بیچ وہ آگ آگئی جس کے اطراف
سات پھیرےکرکے انہیں گھر سنسار بسانا تھا ۔ وہ اقتدار کےشعلےاگنی ویروں کو
اگنی پتھ پر لا کھڑا کیا۔ سینا کی شیرنی نے کہا میں تمہاری اردھانگنی ہوں
اس لیے آدھا تمہارا آدھا ہمارا ۔ کمل نے ہنس کر پوچھا کیا مطلب؟ شیرنی
بولی اتنا بھی نہیں جانتے ۔ بہت بھولے ہو۔ اس کا مطلب نصف مدت ہمارا
اورباقی مدت تمہارا وزیر اعلیٰ ہوگا۔ یہ سن کر کمل کی انا کو ٹھیس پہنچی ۔
اس نے سوچا شروع میں ہی ڈرا دھمکا کر جوتیوں میں رکھنا چاہیے ورنہ آگے چل
کر سرپر چڑھ جائے گی ۔ وہ بولا میں قوام ہوں اور ہمیشہ قوام ہی رہوں گا۔
شیرنی بولی تم وعدہ خلاف اور بے وفا ہو اس لیے میں تمہارے گلے میں ورمالا
نہیں ڈالوں ۔ اس طرح شادی کے رسوم کی تکمیل سے قبل یہ رشتہ ٹوٹ پھوٹ کر
بکھر گیا ۔
کمل نے بھرے بازار میں ہونے والی اپنی تو ہین کا بدلہ لینے کی خاطر گھڑی
والے بابا کی بھتیجی پر ڈورے ڈالنا شروع کردیئے اور اس کو اپنے گھر والوں
کے ساتھ بیاہ میں شرکت کے لیے آمادہ کرلیا۔ صوبے کے گورنر بڑے گرو گھنٹال
نکلے۔ انہوں نے دونوں کی شادی کے لیے صبح پانچ بجے کا مہورت نکالا کیونکہ
گھر سے بھاگ کر شادی کرنے والی لڑکیوں کے پھیرے ایسے ہی وقت پر ہوتے ہیں
لیکن یہ پانسہ الٹا پڑگیا ۔ پہلے تو گھڑی والے خاندان کے بیشتر لوگوں نے
شادی کا بائیکاٹ کردیا اور ایک فائیو اسٹار ہوٹل میں دھرنے پر بیٹھ گئے۔
دلہن شادی کے بعد روپوش ہوگئی اور دولہے کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ دو
دن تک وہ دنیا والوں سے منہ چھپاتا پھرا اور بالآخر ڈھائی دن بعد ٹھیک
پانچ بجے شام تین طلاق کا اعلان کردیا ۔ دولہے کی یہ رسوائی پہلے والی سے
بھی بڑی تھی کیونکہ اس میں دلہن منہ پر لات مارکر چلی گئی تھی۔ اس کلائمکس
پر ’بھول بھلیاں :۱‘ اپنے برے انجام پر پہنچی ۔
زمان و مکان کی قید سے آزاد ہیر رانجھا ، شیریں فرہاد ، سوہنی مہیوال ،
رومیو جولیٹ اور لیلیٰ مجنوں جیسی دنیا کی ساری لازوال محبتوں کا انجام
ایسا ہی دردناک ہوتارہا ہے۔ بھول بھلیاں:۲ کا آغاز نہایت خوشگوار ماحول
میں ہوا۔ گھڑی والے بابا نے ندامت سے سرشار اپنی بھتیجی کو واپس آتے دیکھا
تو ان کادل بھر آیا۔ انہوں نے اسے گلے لگاکر اس کے سارے قصور معاف کردئیے
۔ اس کو نہ صرف گھر میں لے لیا بلکہ پھر سے ہاتھوں میں ورمالاتھما دی ۔ اس
بار شیرنی اپنا جنس بدل کر شیر بن چکی تھی۔ بڑے جوش و خروش کے ساتھ ساتھ
پھیرے مکمل ہوئے اور ہاتھ کے آشیرواد سے ایک نیا خاندان عالم وجود میں
آگیا لیکن انٹرویل سے قبل شیر کے خاندان سے ایکناتھ شندے نے بغاوت کردی ۔
ا ایکناتھ کی اس بغاوت پر اگر کسی کو تعجب ہورہا ہو تو اسے ’ بھول بھلیاں :
ا‘ کو پھر سے دیکھنا ہوگا اور تھوڑی بہت دماغی ورزش کرنی ہوگی تاکہ اس سوال
کا جواب مل جائے ۔
دماغی ورزش کے لیے پہلا سوال یہ ہے کہ اگر شیرنی کی شراکت داری والی شرط
کمل قبول کرلیتا تو کیا ہوتا ؟ اس صورت میں پہلا ڈھائی سال مکمل ہونے پر
اسی ایکناتھ شندے کو سنگھاسن پر بیٹھنے کا موقع ملتا ۔ اس لیے کہ ٹھاکرے
پریوار کی جانب سے وزیر اعلیٰ کے عہدے کا امیدوار اور ایون میں پارٹی کا
رہنما یہی تھا ۔ اس لیے اس کو تو ہر حال میں ڈھائی سال انتظار کرنا ہی تھا
اور جب وہ مدت ختم ہوگئی تو وہ بیقرار ہوگیا۔ پچھلی فڈنویس سرکار میں
ایکناتھ عوامی تعمیرات کے محکمہ (پی ڈبیو ڈی) کا وزیر تھے ۔ مرکزی حکومت اس
شعبے کے تحت ممبئی سے ناگپور تک ایک شاہراہ تعمیر کررہی ہے ۔ یہ کام
مہاراشٹر کے رہنے والے مرکزی وزیر مواصلات نتن گڈکری کی نگرانی میں ہورہا
ہے۔ اس کے سرے پر ناگپورکے نیکر دھاری گڈکری اور دوسرے پر ممبئی کے گیروا
پگڑی والے شندے کھڑے ہوکردرمیان میں ہزاروں کروڈ کے ٹھیکوں سے مالا مال
ہورہے تھے۔ سرکار بدل گئی لیکن محکمہ نہیں بدلا ۔ اس پروجکٹ کی نمک خواری
نے ایکناتھ شندے سے یہ نمک حرامی کرائی اور انہوں نے اپنی سینا کے وزیر
اعلیٰ کی پیٹھ میں خنجر بھونک دیا۔
بی جے پی کے سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس نے جاتے جاتے یہ کہا تھا کہ
’میں تو آوں گا ہی‘ لیکن یہ نہیں بتایا تھا کہ وہ کیسے آئیں گے اس لیے
کسی نے ان کی دعویٰ کو سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ایک مرتبہ تو انہوں نے ترنگ
میں آکر یہاں تک کہہ دیا کہ ’مجھے تو ایسا محسوس ہی نہیں ہوتا کہ میں وزیر
اعلیٰ نہیں ہوں‘ ۔ اس جملے سے ان کے دل کی کیفیت کا اندازہ لگایا جاسکتا
ہے۔ پورے پانچ سال وزیر اعلیٰ رہنے کی خواہش میں انہوں نے ڈھائی سال تو
گنوادئیے ۔ اب اگر وہ وزیر اعلیٰ بن جائیں تب بھی ان کو صرف ڈھائی سال
سرکار چلانے کا موقع ملے گا ۔ اس لیے شیوسینا کی پیشکش کو ٹھکرانے کا کوئی
فائدہ نہیں ملے گا۔ اس کے برعکس شیوسینا کو اس مدت کار میں صرف ڈھائی سال
سرکار چلانی تھی اور وہ چلا چکی اس لیے آگے کا اقتدار اگر ہاتھ سے نکل
جائے تب بھی اس کا کوئی نقصان نہیں ہے لیکن اگر سرکار گرنے سے بچ جائے جس
کا بھی امکان ہے تب تو بلےّ بلےّ ہوجائیں گے۔ ایک شرٹ کے ساتھ ایک فری مل
جائے گا ۔ اس لیے فی الحال شیوسینا کا تو کوئی نقصان نہیں ہے اور نہ ہی این
سی پی اور کانگریس کا ہے کیونکہ وہ تو انتخاب ہار چکے تھے ۔ انہیں تو شرافت
سے حزب اختلاف میں بیٹھنا تھا ۔ اس کے باوجود حکومت کرنے کا موقع مل گیا اس
سے بڑی خوش بختی اور کیا ہوسکتی ہے؟
مہاراشٹر کی سیاسی رسی کشی میں مایوس ہوکر سابق وزیر اعلیٰ دیویندر فڈنویس
نے یہ کہنا شروع کردیا تھا کہ مہا وکاس اگھاڑی کی سرکار کو ہم نہیں گرائیں
گے بلکہ وہ اپنے داخلی اختلافات کے سبب ازخود زمین بوس ہوجائے گی لیکن ایسا
نہیں ہوا۔ اس قدر ہنگامہ آرائی کے باوجود الحاق میں شامل تینوں جماعتوں کا
اتحاد محفوظ و مامون ہے۔ ان تینوں کو بی جے پی کے تئیں نفرت اور اس کے خوف
نے متحد کررکھا ہے۔ اس لیے بی جے پی نے شیوسینا کے اندر توڑ پھوڑ کرکے اپنے
پرانے حربے پر عمل آوری کی سعی کرڈالی ۔ اس معاملے میں بی جے پی والے اب
بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ ان کا داخلی معاملہ ہے اس میں ان کا کوئی عمل دخل
نہیں ہے لیکن اگر یہ بات حقیقت ہوتی تو ایکناتھ شندے مہاراشٹر سے بھاگ کر
گجرات کے شہر سورت کیوں جاتے ؟ اس سے قبل جب این سی پی کے اندر بغاوت ہوئی
تھی تو شرد پوار اپنے ارکان اسمبلی کو لے کر تلنگانہ یا راجستھا ن نہیں گئے
حالانکہ مہاراشٹر میں اس وقت مودی کے پرم بھگت گورنر بھگت سنگھ کوشیاری کی
آڑ میں بڑی ہوشیاری سے بی جے پی اقتدار باگیں سنبھالے ہوئے تھی ۔
ایکناتھ شندے کا گجرات جانا اور وہاں سے اڑ کر گوہاٹی نکل جانا دو حقائق کا
مظہر ہے ۔ اول تو ان دونوں صوبوں میں بی جے پی کی حکومت ہے دوسرے یہ کہ
بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار تو پڑوس کے مدھیہ پردیش اور کرناٹک میں بھی ہے
لیکن وہاں سے بھاگ کر ارکان اسمبلی بہ آسانی شیوسینا میں لوٹ سکتے ہیں ۔
اس گھر واپسی کے خوف نے ایکناتھ شندے اور ان کے آقاوں کو اپنے اغواء شدہ
ارکان اسمبلی کے ارکان کو اس قدر طول طویل سفر کرنے پر مجبور کردیا ۔ اب تو
حالت یہ ہے کہ آسام کے وزیر اعلیٰ ان کو امپھال بھیجنا چاہتے ہیں ۔ بعید
نہیں کہ ان لوگوں کو کالا پانی کے انڈمان نکوبار بھیج دیا جائے۔ ایسے لوگوں
کا میدانِ جنگ میں کامیاب ہوجانا قسمت کا کھیل تو ہوسکتا ہے لیکن محنت کا
ثمر کہلا نہیں سکتا ۔ سورت سے گوہاٹی فرار ہونے کا فیصلہ باغیوں کے خیمہ سے
بغاوت کرنے والے نتن دیشمکھ کی وجہ سے ہوا۔ وہ نصف شب اپنے ہوٹل ممبئی کے
لیے نکل کھڑے ہوئے تو تقریباً سو پولس والے ان کی پیچھے لگ گئے۔ انہیں
زدوکوب کرکے اسپتال لے جایا گیا۔ نتن دیشمکھ پر کوئی دل کا دورہ نہیں پڑا
تھا اس کے باوجود انہیں زبردستی انجکشن دئیے گئے۔ دیشمکھ کا الزام ہے کہ یہ
ان کا کانٹا نکالنے کی کوشش تھی۔
نتن دیشمکھ کے ساتھ کیے جانے والے سلوک نے بی جے پی کو پھر ایک بار بے نقاب
کرکے بتا دیا ہے کہ اقتدار کی خاطر یہ لوگ ہندوتوا وادی رہنماوں کی جان کے
درپہ آزار بھی ہوسکتے ہیں۔ ان کا ہندوتوا ایک ڈھونگ ہے اور ان کا دھرم صرف
اور صرف اقتدار پر قابض ہونا ہے۔ نتن دیشمکھ کے گوہاٹی سے ایک چارٹرڈ ہوائی
جہاز میں ناگپور لوٹنے نے مہاراشٹر کی سیاسی بھول بھلیاں: ۲ کو نہایت دلچسپ
موڑ پر پہنچا دیا ۔ اس ایکشن ڈرامہ میں کچھ مزاحیہ مناظر بھی ہیں
مثلاًایکناتھ شندے کا پارٹی کی لیڈر شپ سے ہٹائے جانے کے بعد چیف وہپ سنیل
پر بھو کو برخواست کرکے بھرت گوگاولے کو نامزد کرنا ۔ اس طرح ایکناتھ شندے
نے بلواسطہ ٹھاکرے مکت شیوسینا قائم کرنے کی ابتدا کردی ہے ۔ ٹھاکرے خاندان
کے راج اس کوشش میں ناکام ہوگئے تو ایکناتھ کس کھیت کی مولی ہیں۔ اقتدار کی
لالچ میں کچھ ارکان اسمبلی تو اس بات کو قبول کرلیں گے لیکن عام لوگ
شیوسینک کے گلے سے یہ بات نہیں اترے گی ۔ بال ٹھاکرے کےہندوتوا کی دہائی
دینے والے ایکناتھ شندے کے اندر ادھو ٹھاکرے کے سامنےبیٹھ کر بات کرنے کی
جرأت نہیں ہے ۔ یہی ادھو کی طاقت اور ایکناتھ کی کمزوری ہے۔ بھول بھلیاں
:۲ کا انٹرویل تو خاصہ دلچسپ ہے دیکھنا ہے کہ اس کا انجام بھی خوشگوار ہوتا
ہے یا سوگوار ہوجاتا ہے۔
|