دنیا اس وقت امریکہ اور چین کے درمیان تائیوان کے تنازع
پر شدید تحفظات کا شکار ہے۔ تائیوان کو اس امر پر اکسایا جارہا ہے کہ وہ
اپنی آزادی کا اعلان کردے لیکن تائیوان کے عوام کی بڑی تعداد اس وقت اپنی
صدر تاسائی ون سے متفق اور اعلان آزادی سے اجتناب کررہے ہیں اور ان کا کہنا
ہے کہ تائیوان ایک آزاد اور خود مختاری ملک ہے (تائیوان اقوام متحدہ کا رکن
ملک نہیں)، خیال رہے کہ چین، تائیوان جس کا پرانا نام فارموسا ( سرکاری نام
ری پبلک آف چائنا) کو اپنی سرزمین کاحصہ قرار دیتا اور الحاق چاہتا ہے،جب
کہ چین نے امریکہ کو متنبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ ون چائنا پالیسی کی خلاف
ورزی اور ان کے ملک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے سے باز رہے، وہ
تائیوان سے پر امن طریقے سے دوبارہ الحاق چاہتا ہے تاہم تائیوان کو آزاد
اور علیحدہ کرانے کی کوشش کی گئی تو اس کا اس وقت سخت ردعمل دیں گے۔ امریکہ
اور چین کے درمیان روائتی بیان بازی میں حالیہ شدت اس وقت آئی جب چین نے
تائیوان کی فضائی حدود میں اپنے جنگی جہاز بھیجنے میں اضافہ کیا اور گذشتہ
ماہ ہی چین نے اپنے جنگی جہازوں کی ایک بڑی فارمیشن تائیوان کی فضائی حدود
میں بھیجی جبکہ اس کے ردعمل میں امریکہ نے تائیوان کے پانیوں میں اپنے جنگی
بحری جہاز اتار دیے۔ امریکہ اپنے قانون کے مطابق تائیوان کو دفاعی طور پر
مضبوط کرنے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے۔
عالمی تنازعات میں پہلے ہی روس۔ یوکرین کے درمیان تنازع ایک خطرناک جنگ کی
صورت میں وارد ہوچکا اور توقعات کے برعکس روس کو شدید مزاحمت کا سامنا کرنا
پڑرہا ہے۔امریکہ اور یورپ نے یوکرین کو نیٹو کا حصہ تو نہیں بنایا لیکن
اُسے وہ تمام تر جنگی ساز و سامان، کرائے کے فوجی مہیا کئے جو روس کے خلاف
جنگ میں کام آرہے ہیں۔ بھاری جنگی ساز و سامان و اربوں ڈالر کی امداد کے
باوجود یک بعد دیگرے یوکرین اپنے اہم شہرکھوتا جارہا ہے۔ امریکہ نے روسی
طاقت کو کمزور کرنے کے لئے بڑھ چڑھ کر امداد دی، نیٹو ممالک بالخصوص یورپ
نے یوکرین کے کندھے پر بندوق رکھ کر روس کو اس جگہ لے گئے جہاں سے محفوظ
راستے کے لئے اسے موثر یقین دہانی کی ضرورت ہے۔ روس۔ یوکرین کی جنگ ابھی
بھی جاری ہے۔ دوسری جانب سر اٹھاتا چین۔تائیوان سنگین تنازع میں صدر
جوبائیڈن اب تک تین مرتبہ چین کو دھمکی دے چکے ہیں کہ تائیوان کے دفاع کے
لئے ہر موثر کاروائی کی جاسکتی ہے۔ ان دونوں ممالک کی کشیدگی نازک مرحلے
میں داخل ہوچکی ہے۔ دفاعی ماہرین اب تائیوان اور چین تنازع کے کسی ممکنہ
جنگ کے پس منظر میں ان دونوں ممالک کا موازنہ یوکرین۔ روس جنگ سے کرنے لگے
ہیں کہ کیا روس جیسی طاقت ور فوج اور دنیا کے جدید ترین میزائل و ہتھیار
رکھنے والے ملک ہونے باوجود، وہ یوکرین کے ابھی تک گھٹنے نہیں ٹیک سکا تو
کیا چین کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے کہ اگر اس نے تائیوان کے انضمام کے
لئے کسی فوجی کاروائی کا آغاز کیا تو اس سے دنیا کوکتنے بدترین نتائج کا
سامنا ہوگا۔
چین کو ظاہر ی طور پر ہر سطح میں تائیوان پر سمندری، فضائی اور زمینی افواج
کی عددی فوقیت حاصل ہے۔ چین کے پاس روایتی و غیر روایتی جنگ کے لئے تمام
ہتھیار و فوجی قوت موجود ہے۔ اگر ایک اجمالی جائزہ لیا جائے تو اس وقت چین
کے پاس دنیا کی سب سے بڑی بحریہ ہے جس میں قریباََ360جنگی جہاز ہیں، خیال
رہے کہ چین کا بحری جنگی جہاز امریکہ کے مقابلے میں بڑا ہے، امریکہ کے پا س
اس وقت 300سے کم جنگی بحری بیڑے ہیں۔ چین کو اس کے ساتھ غیر سرکاری طور پر
بھی بحری طاقت حاصل ہے۔ بیجنگ اپنے پاس دنیا کا جدید ترین تجارتی بیڑہ بھی
رکھتا ہے، بحری ملیشیا میں سینکڑوں اضافی جہاز و ماہی گیروں کی کشتیاں بھی
منسلک ہیں، جنہیں نقل و حرکت کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے، بالخصوص رسد کی
فراہمی کے لئے۔ پی ایل اے (پیپلز لبریشن آرمی کے ہزاروں ٹینک، توپ خانے،
بکتر بند گاڑیاں، راکٹ لانچر، ایندھن کی ترسیلی جہاز جنگی آلات اور فوجیوں
کی منتقلی کے لئے چین کو بھرپور کمک فراہم کرتے ہیں۔ دوسری جانب سکاٹ لینڈ
کی سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی میں اسٹریٹجک اسٹڈیز کے پروفیسر فلپس اوبرائن
کے مطابق چینی بحری طاقت کا مقابلہ کرنے کے لئے تائیوان سستے اور موثر
زمینی جہاز شکن میزائلوں کا ذخیرہ کر رہا ہے، اوبرائن نے مزید کہا کہ
''تائیوان ان چیزوں کو بڑے پیمانے پر پیدا کر رہا ہے اور یہ چھوٹی ہیں،
ایسا نہیں ہے کہ (چین) ان سب کو باہر لے جائے۔''ماہرین کے مطابق تائیوان کے
نزدیک یوکرین کی وہ اسٹریجی ہے جس میں اپریل کے مہینے میں بحیرہ اسود میں
روسی کروزز ماسکوا کو ڈوبنے کے لئے اختیار کی گئی تھی۔''
چین فضائی طاقت میں تائیوان پر برتری رکھتا ہے، وہ تائیوان کے خلاف فضائی
کاروائیاں کرسکتا ہے۔ خیال رہے کہ تائیوان کا امریکہ کے ساتھ اسٹنگر اینٹی
ایئر کرافٹ میزائل اور پیٹریاٹ میزائل دفاعی بیٹریاں فراہم کرنے کا معاہدہ
ہے اور جینز کی ایک رپورٹ کے مطابق، یہ پچھلے تین سالوں میں ایک پروجیکٹ
میں اپنی میزائل پیداواری سہولیات میں بہت زیادہ سرمایہ کاری کر رہا ہے، جو
اس موسم گرما میں مکمل ہو جائے گا، تو اس کی میزائل پیداواری صلاحیت تین
گنا بڑھ جائے گی۔ امریکہ کے جرمن مارشل فنڈ میں ایشیا پروگرام کے ڈائریکٹر
بونی گلیزر کے مطابق ”آج چین کی فوج کا جنگی تجربہ نہیں ہے، اور اگر اس نے
واقعی تائیوان پر حملہ کیا تو اسے بہت زیادہ نقصان ہو سکتا ہے۔'' تائیوان
زمینی فوجی طاقت میں قریبا ڈیڑھ لاکھ فوجی اور ڈھائی ملین ریزرو رکھتا ہے۔
ماہرین زمینی جنگ کو یوکرین سے موازنہ کررہے ہیں کہ ان کے مقابلے میں چینی
فوجی اگر تائیوان میں اترتے بھی ہیں تو انہیں مشکلات کا سامنا ہوسکتا ہے،
ماہرین کے مطابق تائیوا ن کے سٹریجک اہمیت کے حامل 14ساحلی پوائنٹ ہیں نیز
ملین لینڈ اور تائی پے جیسے اسٹریجک شہر کی بندرگائیں اور ہوائی اڈے چینی
ہدف کا نشانہ بن سکتے ہیں۔ تاہم ماہرین کی اکثریت اس خیال پر متفق نظر آتے
ہیں کہ چین کا تائیوان پر حملہ کرنے کا امکان نہیں۔
امریکہ بھی تائیوان کے دفاع کے طور پر براہ راست جنگ میں ملوث نہیں ہوسکتا،
چین اور امریکہ میں براہ راست ایک دوسرے کے خلاف جنگ کے امکانات کم بتائے
جاتے ہیں۔ تاہم امریکہ کی جانب سے تائیوان کومسلح کرنے کے لئے ہر قسم کا
تعاون جاری رکھنا چین کے اشتعال کو بڑھا رہا ہے۔ سمجھا جاسکتا ہے کہ چین کی
اس وقت تمام تر توجہ اپنے معاشی ویژن کو ون بیلٹ ون روڈ کے عالمی معاشی
منصوبے کو آگے بڑھانا ہے، وہ یقینی طور پر نہیں چاہے گا کہ خطے میں ایک
ایسی جنگ میں الجھ جائے جس میں وسائل کا توازن بگڑ جائے تاہم وہ تائیوان کے
معاملے پر کسی قسم کا سمجھوتہ بھی نہیں کرنا چاہتا اور خاص کر امریکی
مداخلت کے جواب میں چین کا سخت ردعمل سامنے آچکا ہے۔ امریکی وزیر دفاع
لائیڈ آسٹن نے شنگریلا ڈائیلاگ سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا،ہم نے حالیہ دنوں
میں چین کی جانب سے تائیوان کے قریب مسلسل اشتعال انگیز اور عدم استحکام
پیدا کرنے والی فوجی سرگرمیاں دیکھی ہیں۔ حالیہ مہینوں میں چینی فوج کے
طیارے تائیوان کے قریب ریکارڈ تعداد میں بلکہ ہر روز پرواز کرتے ہوئے دیکھے
گئے ہیں۔''لائیڈآسٹن کا کہنا تھا، ''ہم اس تناؤ کو ذمہ داری سے سنبھالنے،
تنازعات کو روکنے اور امن اور خوشحالی کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔'' اس
کے جواب میں ہم منصب چینی وزیر دفاع وائی فینگی نے کہا کہ چین امریکہ سے
ڈرنے والا نہیں ہے۔ انہوں نے کہا، ''کسی کو بھی اپنی علاقائی سا لمیت کے
تحفظ کے لیے چینی مسلح افواج کے عزم اور صلاحیت کو کم تر نہیں سمجھنا
چاہیے۔ امریکہ کو چین کے اندرونی معاملات میں مداخلت بند کرنا ہو گی۔
دوطرفہ تعلقات اس وقت تک بہتر نہیں ہو سکتے جب تک امریکہ ایسا نہیں
کرتا۔انہوں نے مزید کہا کہ ''واشنگٹن کے ساتھ تعلقات نازک موڑ پر ہیں۔
تصادم سے نہ تو دونوں ملکوں میں سے کسی کو اور نہ ہی دنیا کو فائدہ ہوگا۔''
انہوں نے مزید متنبہ کرتے ہوئے کہا،''جو لوگ چین کو تقسیم کرنے کی کوشش میں
تائیوان کی آزادی کا ساتھ دے رہے ہیں، ان کا انجام یقیناً اچھا نہیں ہو
گا۔''
تذویراتی ابہام کی پالیسی کے باوجود امریکہ نے کئی دہائیوں سے تائیوان کی
حمایت اور چین کے ساتھ تعلقات کی نوعیت کو نازک موڑ تک لے جانے میں توازن
کا مظاہرہ کیا ہے لیکن امریکی صدر جوبائیڈن نے امریکہ کی ماضی میں اختیار
کی گئی پالیسی کو رد کرتے ہوئے کئی بار کہا کہ اگر چین نے حملہ کیا تو
امریکہ تائیوان کا دفاع کرے گا۔ بعد ازاں وائٹ ہاوس نے وضاحت کرتے ہوئے کہا
کہ صدر نے ماضی کی پالیسی رد نہیں کی ہے تاہم صدر کو فیصلہ کرنا ہوگا کہ کس
طرح جواب دیا جائے۔ بعض کانگریس اراکین نے بائیڈن کے بیانات کا خیر مقدم
کیا تھا کہ چین کے خلاف واضح پالیسی کی ضرورت ہے تاہم دیگر ماہرین نے ان سے
اختلاف کیا۔چین اور امریکہ کے درمیان کشیدگی میں بالخصوص اس لیے اضافہ ہوا
ہے کہ چین نے تائیوان کے ایئر ڈیفنس آئیڈینٹیٹی فیکیشن زون میں اپنے فوجی
طیاروں کی سرگرمیاں کافی بڑھادی ہیں۔ صدر بائیڈن نے سابق صدر ٹرمپ کی
پالیسیوں کو جاری رکھا ہے، وہ پہلے امریکی صدر بھی ہیں جنہوں نے تائیوان کے
نمائندوں کو صدارتی حلف برداری میں شرکت کی دعوت دی تھی۔ انڈوپیسفک میں
اعلیٰ امریکی فوجی کمانڈر نے 2021میں خبردار کیا تھا کہ چین اگلی دہائی میں
تائیوان پر حملہ کرسکتا ہے،جس کے وجہ سے خطے میں کشیدگی میں مسلسل اضافہ
دیکھنے میں آرہا ہے۔ خیال رہے کہ صدر شی اور ان کے پیش رو بھی اس صدی کے
دوران چین کے تسلط سے نکلنے والے اہم علاقوں کو 2049 میں عوامی جمہوریہ چین
کی 100 ویں سالگرہ تک واپس اپنے دائرہ اختیار میں لانے کا منصوبہ رکھتے ہیں
گو کہ تائیوان کے پاس بیرونی حملے کو غیر ملکی مداخلت کے بغیرزیادہ دیر تک
روکنے کی صلاحیت نہیں ہے، تاہم 2022میں تائیوان نے دفاع پر اگلے پانچ برسوں
میں 8اعشاریہ 6بلین ڈالر اضافی اخراجات کی منظوری دی ہوئی ہے، اس توسیع شدہ
بجٹ میں کروزمیزائلوں کی خریداری، بحری بارودی سرنگیں اور جدید نگرانی کے
نظام کا حصول شامل ہے۔
تائیوان کی معیشت چین کے ساتھ تجارت پر انحصار کرتی ہے، جو جزیرے کا سب سے
بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ تاہم، حالیہ برسوں میں ان کے اقتصادی تعلقات میں خلل
پڑا ہے، جس کی ایک وجہ جزیرے پر بیجنگ کا دباؤ اور تائیوان کے حکام کا چین
کے ساتھ تجارت پر حد زیادہ انحصار کم کرنے کی پالیسی بھی ہے۔ 1949میں خانہ
جنگی کے بعد تائیوان اور چین الگ ہوگئے تھے تاہم چین تائیوان کو اپنا علاقہ
سمجھتا ہے اور اس کا کہنا ہے کہ اگر ضرورت پڑی، تو طاقت کے زور پر بھی اسے
ملک میں ضم کیا جا سکتا ہے۔گو کہ امریکہ بھی ون چائنا پالیسی کا پابند ہے
اور بیجنگ کو باضابطہ تسلیم کرتا ہے لیکن اس نے تائی پے کے ساتھ بھی غیر
رسمی اور دفاعی تعلقات قائم کررکھے ہیں۔ سمجھاجاتا ہے کہ ملک کی معیشت کو
بہترین رکھنا ہے تو اپنے دفاع کو بھی بہترین بنانا ہوگا، اس مفروضے کے تحت
جائزہ لیا جائے تو نظر آتا ہے کہ دنیا بھر میں جاری کشیدگیوں اور تنازعات
کی وجہ سے عالمی دفاعی بجٹ میں بڑا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔صرف 2021میں کل
عالمی فوجی اخراجات 0.7 فیصد بڑھ کر 2113 بلین ڈالر تک پہنچ گئے۔سٹاک ہوم
انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ (SIPRI) کی طرف سے25اپریل 2022کو شائع ہونے
والے عالمی فوجی اخراجات کے نئے اعداد و شمار کے مطابق، 2021 میں سب سے
زیادہ خرچ کرنے والے پانچ ممالک امریکہ، چین، بھارت، برطانیہ اور روس تھے،
جو کل دفاعی اخرجات کا 62 فیصد خرچ کرتے ہیں۔
دنیا کو اس وقت بدترین غذائی او ر معا شی بحران کا سامنا ہے، متعدد ممالک
میں قحط اور خوراک کی کمی جیسے بحرانوں سے انسانی زندگی کو خطرات لاحق ہیں
تو دوسری جانب ہزاروں بلین ڈالر دفاع کے نام پر خرچ کئے جا رہے ہیں، یہ اس
لئے ہورہا ہے کیونکہ خطوں میں بالا دستی کی جنگ اور مفادات نے تنازعات کو
اس حد تک بڑھا دیا ہے کہ انہیں اس کے لئے بھاری قیمت ادا کرنی پڑ رہی ہے۔
عراق، مشرق وسطیٰ، افغانستان، یمن، ایرا ن سمیت کئی ممالک میں جنگوں سے اور
اس کے بعد عوام کو جن تکالیف کا سامنا ہے یہ عالمی برداری پر سوالیہ نشان
بھی ہے کہ انسانی وسائل سے حاصل کردہ اثاثوں کو اپنی عوام کی فلاح و بہبود
پر خرچ کرنے کے بجائے مہلک جنگی سامان خریدنے اور اسے انسانوں پر آزمانا،
کیا معیشت کی ترقی کے لئے ناگزیر ہے؟، آج جس ملک کو بھی دیکھیں وہاں ایسے
گھمبیر مسائل ہیں جن سے نمٹ لیا جائے تو ان کے آدھے مسائل ویسے ہی حل ہو
سکتے ہیں۔ دوسری جانب عالمی قوتیں اپنی اجارہ داری کے لئے چھوٹے ممالک کو
تختہ مشق بنانے سے گریز کریں۔ تائیوان اور چین کا تنازع بدترین کشیدگی سے
بچ سکتاہے اگر ایسی قوتیں اپنی مداخلت ترک کردیں جو خطے میں کسی سنگین
تنازع کا باعث بن سکتی ہیں۔
|