مہاراشٹر: کل یگ کی رامائن اور مہابھارت

رام بھکتوں کی رامائن ہونی چاہیے اور کرشن بھکتوں کی مہابھارت لیکن یہ کل یگ ہے اس لیے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ رام آنند ساگر جب پردۂ سیمیں پر کمزور پڑے تو انہوں چھوٹے پردے پر رامائن کے ذریعہ قسمت آزمائی کی ۔ اس وقت ہندوستانی ٹیلی ویژن کے پردے پر روزآنہ غریب ، مسکین اور سیدھے سادے ’ہم لوگ‘ نظر آتے تھے ۔ آنکھوں کا منظر بدلنے کے لیے ہفتہ میں ایک بار تبسم ’پھول کھلے ہیں گلشن گلشن‘ لے کر آجاتی تھیں یاکملیشور کی پریکرما میں ادب پر گفتگو ہوتی تھی ۔ آج کل ایسی چیزیں ٹیلی ویژن کے پردے پر عنقا ہوچکی ہیں۔ اس ماحول میں زرق برق لباس کے اندر فلمی آب و تاب کے ساتھ رامائن آئی تو اس کی خوب پذیرائی ہوئی ۔ رام آنند ساگر کے ہم فکر اشتراکی فلم ساز بی آر چوپڑا نے سوچا کیوں نہ مہابھارت بنائی جائے ؟ ان کی مہابھارت نے سارے ریکارڈ توڑ دئیے اور اس کی نشریات کے وقت ایک خود ساختہ کرفیو کا سماں ہوجاتا تھا ۔ اس غیر معمولی کامیابی کی وجوہات میں مہابھارت کے اندر سیاسی نشیب و فراز ، نت نئے منفرد کردار اور زبردست سیٹ پر خوب سرمایہ کاری وغیرہ تھے۔ ویسے مہاراشٹر کی موجودہ سیاسی اتھل پتھل کی مقبولیت کا یہ عالم ہے کہ اس دوران اگر کرن جوہر کی مہابھارت بھی ریلیز ہوجائے تب بھی فلاپ ہوجائےگی ۔

رامائن اور مہابھارت کے مرکزی خیال میں خاندانی رقابت اور اقتدار کی جنگ مشترک ہے۔ مہاراشٹر کے سیاسی بحران کا محور بھی یہی دو چیزیں ہے۔ رامائن اور مہا بھارت میں یہ فرق ہے کہ دونوں کی ابتداء اندرونِ خانہ ہوتی تو ہے مگر ایک کا اختتام بیرونی طاقت یعنی راون سے جنگ اور ایودھیا میں خوشی خوشی واپسی پر ہوتا ہے۔ اس کے برعکس دوسرے کا خاتمہ اپنے ہی خاندان کے دشاسن کی موت کے بعد موکش(نجات) کے رہبانی سفر پر ہوتا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے مہاراشٹر کے سیاسی ڈرامہ کا انجام رامائن کی طرح خوش کن ہوتا ہے یا مہابھارت کی مانند مایوس کن ہوجاتا ہے۔ رامائن پر غور کریں تو دستورِ زمانہ کے مطابق راجہ دشرتھ کے سب سے بڑے بیٹے مریادہ پرشوتم رام کو سنگھاسن پر براجمان ہوجانا چاہیے تھا ۔ اسی پرمپرا کے مطابق رام بھکت شیوسینا میں بالا صاحب ٹھاکرے کے بعد ان کرسی کا حقدار ادھو ٹھاکرے ہوگئے تو اس پر نارائن رانے اور راج ٹھاکرے کو اعتراض کرنے کا کوئی حق نہیں تھا لیکن چونکہ وہ جعلی رام بھکت تھے اس لیے بغاوت کرکے الگ ہوگئے ۔ رام بھکت شیوسینکوں نے ان کو انتخاب میں سبق سکھا دیا۔

راجہ دشرتھ کی تیسری دھرم پتنی کیکئی نے اپنے سگے بیٹے بھرت کو اقتدار پر فائز کرنے کی خاطر سوتیلے فرزند رام کو بن باس پر بھجوا دیا ۔ فی الحال مہاراشٹر میں رام بھکت بی جے پی کیکئی کا کردار کا نبھا رہی ہے اور ایکناتھ شندے کی مدد سے ادھو کو سیاسی بن باس پر بھیجنا چاہتی ہے۔ اس مقصد میں شندے کو پہلی کامیابی تو یہ ملی کہ ادھو ٹھاکرے نے اپنا سرکاری مکان ’ورشا‘ خالی کردیا۔ انہوں نے سوچا ہوگا بارش کا زمانہ ہے ارکان اسمبلی کی بغاوت سے چھت میں سوراخ ہوگئے ہیں ۔ اس لیے ورشا میں بیٹھ کر بھیگنے اور بیمار ہونے سے بہتر ہے اپنے آبائی گھر’ماتوشری‘ میں پناہ لی جائے۔ ورشا میں ادھو سے قبل نہ جانے کتنے لوگ آئے اور چلے گئے کیونکہ ان سبھی کی حیثیت کرایہ دارتھی ہے۔ اس کے برعکس ’ماتوشری‘ سے انہیں کوئی اور نکال نہیں سکتا؟ وہ خود نکل جائیں تو کوئی روک بھی نہیں سکتا اس لیے کہ مالک مکان ہیں۔ ویسے وزیر اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے کے بعد انہوں نے ماتوشری میں ہی رہ کر اپنا کام کاج کرنے کا اعلان کیا تھا لیکن لوگوں نے انتظامی امور کا حوالہ دے کر انہیں سمجھایا اور مجبوراً منتقل ہوئے۔ وہ اگر لوگوں کی بات نہیں مانتے تو گھر واپسی کی نوبت ہی نہیں آتی لیکن قسمت کے لکھے کو کون ٹال سکتا ہے؟

ادھو ٹھاکرے کو نہ تو یہ پتہ تھا کہ ڈھائی سال کے بعد ماتوشری سے ورشا میں جانا پڑے گا اور نہ معلوم تھا کہ اچانک اسے خالی کرنے کی نوبت آجائے گی خیر یہ سیریل ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا ہے۔ آسام کے اندر آندھی طوفان اور سیلاب سے پر یشان ہوکر بالآخر ایکناتھ شندے نے ممبئی آنے کا فیصلہ کرہی لیا ہے۔ آخر پردیس میں انسان کتنے دن روپوش رہ سکتا ہے ۔ کل یگ کی رامائن میں رام نے تو صرف گھر چھوڑا مگر بھرت نے تو صوبے کو خیرباد کہہ دیا خیر یہ عارضی بن باس کسی بھی وقت ختم ہوسکتا ہے۔ ایسی افواہیں بھی گردش کررہی ہیں کہ بی جے پی نے انہیں حمایت کا خط تک دے دیا ہے۔ باغیوں کو ساتھ رکھنے کی خاطر یہ فیویکول لازمی ہے ورنہ پہلی بغاوت کرنے والے دوسری بغاوت بھی کرسکتے ہیں۔ اس بات کا امکان تو موجود ہی ہے کہ کسی طرح بی جے پی ایکناتھ شندے کو وزیر اعلیٰ کی کرسی پر فائز کردے ۔ اس کے بعد دیکھنا ہوگا کہ وہ اپنے آپ کو ادھو سے بڑا شیوبھگت ثابت کرنے کے لیے سنگھاسن پر بال ٹھاکرے کے کھڑاوں رکھ کر سرکار چلاتے ہیں یا کمل کھلاتے ہیں ۔ ویسے ایکناتھ شندے کی چاندنی چار دن سے زیادہ کی نہیں ہوگی جلد یا بدیران کو فڈنویس کو اپنی جگہ براجمان کرنا ہی پڑے گا ۔ اسی طرح کے تحیر(سسپنس ) نے کل یگ کی رامائن کو نہایت دلچسپ بنادیا ہے۔

کل یگ ایک الٹ پھیر یہ بھی ہے کہ مہاراشٹر کی حد تک رام بھکتوں کے مطابق عصرِ حاضر کا راون شرد پوار ہے جس نے الیکشن میں سب سے بڑی پارٹی بن کر کامیاب ہونے کے باوجود کمل کے اقتدار کو اغوا کرلیا ۔ راون کے ساتھ اس بھائی وبھیشن یعنی کا نگریس کندھے سے کندھاملا کر کھڑا ہوا ہے۔ کل یگ میں وبھیشن کو راون کے خلاف استعمال کرنے کے سارے حربے ناکام ہوچکے ہیں ۔ وہ ایک دوسرے سے لڑنے کے بجائے متحد ہوگئے ہیں ۔ خیر دوبھائیوں کا آپس میں لڑنا یا مل جل کر رہنا ان کی اپنی پسند ہے لیکن ان لوگوں نے رام اور لکشمن سے بھی اپنی دشمنی ترک کردی ہے ۔ موجودہ سیاسی جنگ میں رام کے پرم بھکت بھرت یعنی ایکناتھ شندے کمل کے بہکاوے میں آکر اپنے بڑے بھائی سے برسرِ پیکار ہیں ۔ اس کے برعکس ادھو کے خلاف راون اور وبھیشن ایک سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن کر کھڑے ہوئے ہیں ۔ ایسا منظر تو رام آنند ساگر کے تصورِ خیال میں بھی نہیں آیا ہوگا ۔ ہندی زبان کا ایک محاورہ ہے’جہاں نہ پہنچے روی(سورج) وہاں پہنچے کوی(شاعر) یعنی جہاں افسانے کی حدود ختم ہوتی ہیں وہاں سے حقیقت کا راہیں کھلتی ہیں ۔

مہاراشٹر کی سیاسی صورتحال جہاں رامائن سے خاصی مختلف ہیں وہیں مہابھارت سے بہت مماثل ہیں ۔ ہستناپور یعنی مہاراشٹر کے اقتدار کی خاطر کورو اور پانڈو کوروکشیتر میں آمنے سامنے ہیں۔ پانڈو صرف پانچ بھائی ہیں جبکہ کورووں کی تعداد سو ہے۔ فی الحال اسی طرح کا فرق ادھو ٹھاکرے اور دیویندر فڈنویس کے حامیوں میں ہے۔ دیویندر نے کنتی پتر کرن یعنی ایکناتھ شندے کو اپنے ساتھ لے کر ماتو شری نامی قلعہ میں زبردست سیندھ ماری کردی ہے۔ ادھو ٹھاکرے اپنے خاندان میں بکھراو دیکھ کرارجن کی مانند غمگین ہیں۔ سنجئے راوت جو ہر موقع پر بھیم کی مانند پانڈو کا دفاع کیا کرتے تھے مایوسی کا شکار ہوگئے ہیں ۔ میدان جنگ سے الگ تھلگ رہ کر اپنا اہم کردار نبھانے والے بھیشم پتامہ شرد پوار بے بس نظر آرہے ہیں۔ نارد منی نے کئی روپ دھارن کرلیے ہیں ۔ ہر ایک کے ہاتھ میں الگ الگ برانڈ کا مائیک اور سامنے بھانت بھانت کا کیمرا ہے۔ میڈیا طرح طرح کی دلچسپ خبریں پھیلا کر عوام کو تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ماحول سازی کا کام کررہا ہے ۔ مہاراشٹر کی مہا بھارت میں اس قدر اتار چڑھاو ہیں ۔ ایسے ایسے کردار اور اتنا زیادہ خرچ ہورہا ہے کہ بی آر چوپڑا کی مہابھارت اس کے سامنے ہیچ ہے ۔

ادھو ٹھاکرے کے ولی عہد ادیتیہ ٹھاکرے نے15؍جون کو ایکناتھ شندے اور سنجے راوت کے ساتھ ایودھیا میں رام للا کے درشن کیے تھے ۔ اس کے بعد 19؍ جون کو بڑے آب و تاب کے ساتھ ان سب نے مل جل کر شیوسینا کا یوم تاسیس منایا تھا ۔ اگلے دن قانون ساز کونسل کا انتخاب ہوا اور پھر اس کے بعد ایسا طوفان برپا ہوا کہ پانچ دن کے اندر شیوسینا کی چھپنّ سالہ تاریخی وجود پر ایک سوالیہ نشان کھڑا ہو گیا ۔ کل یگ کی اس مہا بھارت میں دونوں جانب ہندو توا پریوار کی فوجیں کمر بستہ ہیں ۔ چوسر کی بساط بچھی ہوئی ۔ اقتدار کا جوا کھیلا جارہا ہے ۔ شئے اور مات کا کھیل بامِ عروج پر ہے ۔ اخلاقی اقدار کا وستر ہرن ہورہا ہے۔ ہر کردار بے نقاب ہوتا جارہا ہے ۔ سارے کھوکھلے دعویٰ اوندھے منہ پڑے ہوئے ہیں ۔ اس جنگ کے نتیجے میں اقتدار چاہے جس کے ہاتھوں میں جائے لیکن ہندوتوا کا نظریہ ہار جائے گا۔ لوگ جان جائیں گے اس کے سارے دعویدار چاہے وہ شاہ ہوں یا فڈنویس اور ادھو ہوں یا ایکناتھ سب کے سب پاکھنڈی ہیں ۔ سنگھ کے گڑھ مہاراشٹر میں یہ سیاسی نظریہ اس طرح بے نقاب ہوگا یہ کسی نے نہیں سوچا تھا۔ مشیت الٰہی اسی طرح کارفرما رہتی ہے۔کل یگ کی رامائن اور مہا بھارت کا یہی سبق ہے ۔

 
Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449454 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.