قیام پاکستان کے بعد دنیا کی دو
سپرپاورز سوویت یونین اور امریکہ میں سے ہمیں کسی ایک پاور کا انتخاب کرنا
تھا۔ماسکو اور واشنگٹن کی خواہش تھی پاکستان انکے کیمپ میں شامل ہو۔کافی
سوچ بچار کے بعد ارباب اختیار نے وائٹ ہاؤس کو فوقیت دی اور پرائم منسٹر
لیاقت علی خان نے امریکہ کا دورہ کیا مگر سچ تو یہ ہے کہ دونوں دیسوں کے
مابین دوستی کا پودا ایوب خان کے دور میں پھلتا اور پھولتا گیا۔ایوب خان نے
جولائی 1996 میں امریکی پارلیمان سے نہایت عاجزی اور انکساری کے ساتھ خطاب
میں پارلیمان کو حق الیقین دلایا کہ ایشیا میں ہونے والی کسی گڑ بڑ کے
سلسلے میں امریکیوں کے لئے پاکستان پہلا ملک ہوگا جو امریکیوں کو سر آنکھوں
پر بٹھائے گا۔ایوب خان کی شعلہ بیانی پر امریکن پارلیمان زور دار تالیوں سے
گونجنے لگی۔ ایوب خان نے کہا میں پاکستان سے آیا ہوں جو ایک طرف آپ
کااتحادی اور دوسری طرف دوست اور تزیراتی پارٹنرشپ ہے۔ایوب خان نے امریکی
امداد کی اہمیت پر روشنی ڈالتے ہوئے پیشین گوئی کی کہ اگر پاکستان مستحکم
ہوگا تو آپ معاشی طور پر ذیادہ مضبوط ہونگے۔پاکستانی صدر نے للچائی ہوئی
نظروں سے اپیل کی کہ آپ کے دنیا کے ساتھ جتنے اور جیسے عہد و پیمان ہوں
ہمیں کوئی اعتراض نہیں مگر خدا راہ امریکہ کوئی ایسا کام کرنے سے گریز کرے
جو پاکستان کو غیر مستحکم بنادے یا ہماری سیکیورٹی و سلامتی کے لئے جاں گسل
بن جائے مگر دکھ تو یہ ہے کہ امریکہ نے ایوب خان کی استدعا کو قابل در خود
اعتنا نہ سمجھا۔لیاقت علی خان سے لیکر آج تک امریکیوں نے ہماری بجائے اپنا
الو سیدھا کیا اور کڑے اوقات میں ہماری ڈولتی نیا کو بھنور کے سپرد کرکے
رفو چکر ہوگیا۔پاکستانی مجاہدین اور اسلام کے عشاق جمال حریت پسندوں نے
1988 میں امریکی شہہ پر سوویت یونین کا بت پاش پاش کردیا آج امریکی اپنے
محسنوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کرکے انکی نسل کشی کررہے ہیں۔۔ امریکہ
کے نزدیک دوستی پیار احسانات جذبات اور احساسات کی کوئی قدر و قیمت
نہیں۔دہشت گردی کی خود ساختہ جنگ میں امریکہ کی خاطر38 ہزار پاکستانی زندگی
کھو بیٹھے۔پاکستان تیسری دنیا کا معاشی طور پر مفلوک الحال ملک ہے۔افغان
امریکہ جنگ میں پاکستانی معیشت کو پہنچنے والے نقصانات سے دل خون کے آنسو
روتا ہے مگر امریکہ کی جانب سے ہمیں روزانہ ڈو مور کی دھمکیاں دی جاتی ہیں۔
ہیں۔امریکہ طالبان جنگ میں پاک معیشت کو پہنچنے والے نقصانات پر طائرانہ
نظر ڈالنے سے حقائق منکشف ہوتے ہیں۔کابل میں امریکی جنگ9 سال اور296 دنوں
میں60 کھرب ڈالر کو ہڑپ کیا ہے۔ امریکیوں اور اتحادیوں نے7 اکتوبر2001 کو
طالبان پر شب خون مارا تھا۔ناٹو کے132456 فوجیوں پر مشتعمل نیٹو فورسز نے
جنگ میں انسانیت کا خون بہایا۔ناٹو کے ساتھ افغان نیشنل آرمی کے11800
فوجیوں و اہلکاروں نے امریکی رہبری میں طالبان کے خلاف جنگ لڑی اور یہ
سلسلہ تاحال جاری ہے۔ طالبان کے خلاف جدید ترین مہلک اور سفاک ہتھیاروں سے
لیس لڑنے والی افواج قاہرہ کی تعداد402457 ہے جبکہ طالبان جنگجووں کی تعداد
صرف36 ہزار ہے۔طالبان کی حمایت کرنے والے حقانی نیٹ ورک کی تعداد7500
القاعدہ کی 500 حزب اسلامی کی10 ہزار ہے ۔ ناٹو کو چھٹی کا دودہ یاد دلانے
والے سرفروشوں کی تعداد55ہزار سے زائد نہیں ہے۔افغان جنگ نے امریکی معیشت
کو لرزا کر رکھ دیا جسکے منفی اثرات دنیا بھر میں محسوس کئے جارہے ہیں۔
امریکی صدر اوبامہ کی ڈیموکریٹس نے2008 کے صدارتی الیکشن میں 2014 تک افواج
کے انخلا کا وعدہ کیا تھا۔یوں بادل نخواستہ انخلا کا ڈرامہ کھیلا جارہا
ہے۔2001 سے لیکر اج تک اتحادی افواج کے ہزاروں سپاہی طالبان کے حملوں کی
بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔امریکی میڈیا نے13467 ہلاکتوں کی تصدیق کی ہے۔ امریکہ کے
افغانستان کے بیابانوں میں مرکھپ جانیوالوں کی تعداد5463 بتائی جاتی ہے
تاہم غیر جانبدار فوجی ماہرین نے اس تعداد سے دس گنا زائد ہلاکتوں کی نشان
دہی کی ہے۔گرفتار اور ہلاک ہوجانیوالے طالبان کی تعداد38 ہزار بتائی جاتی
ہے۔امریکی اعداد و شمار کے مطابق جنگ کا ایندھن بن جانیوالے معصوم افغان
شہریوں کی تعداد34 ہزار ہے مگر سچ تو یہ ہے کہ مرنے والے افغانوں کی تعداد
لاکھوں میں ہے۔افغان جنگ کا دائرہ کار فاٹا پشاور سے ہوتا ہوا پورے ملک میں
پھیل چکا ہے۔اب تک40100 پاکستانی امریکی نفرت کے رد عمل میں مارے جاچکے ہیں۔
سرکاری اور غیر سرکاری املاک کی تباہی سے پاکستان70 ارب ڈالر کا ناقابل
تلافی نقصان اٹھا چکا ہے مگر امریکہ سے ملنے والی امداد صرف17 ارب ڈالر
ہے۔پاکستان سترارب ڈالر کا معاشی نقصان کا ازالہ نہیں کرسکتا۔اس جنگ نے
عالمی سطح پر پاکستان کے امیج کو خاصا مجروح کیا ہے۔پاکستانی معیشت کا
جنازہ نکل چکا ہے۔پاکستان کو اس جنگ نے خود کش حملوں کا قہر عطا کیا ہے۔
ہماری عسکری اور سیاسی قیادت بالغ نظری سے ہوش مندانہ فیصلے کرے۔امریکہ
طالبان سے ڈائیلاگ کرسکتا ہے تو پھر ہم اپنے روٹھے ہوئے بھائیوں کو منانے
سے گریزاں کیوں ہیں؟ پاکستانی قوم اس جنگ سے زچ آچکی ہے وہ جنگ کا خاتمہ
چاہتی ہے۔ ارباب اختیار کو قائد عوام بھٹو کے قول کی روشنی میں عوامی جذبات
کا تحفظ کرنا چاہیے ورنہ وہی ہوگا جس کا انجام بھٹو نے اس قول میں بیان
کیا۔قائد عوام کہا کرتے تھے حکمرانوں عوام کی آواز پہچانو یہ اللہ کی اواز
ہے۔ اس اواز سے روگردانی کرنے والے ہمیشہ خدائی عذاب کا نشانہ بنتے ہیں۔
اگر ہم ایوب خان کے دورہ امریکہ سے لیکر اوبامہ تک پاک امریکہ تعلقات کا
جائزہ لیں تو امریکہ پاکستان کے لئے ہمیشہ طوطاچشم ثابت ہوا جو عالم اسلام
کے ساتھ ساتھ پاکستان کا خونی دشمن ہے حلیف یا دوست نہیں۔ |