آج سے چونسٹھ برس پیشتر تاریخ کی
بہت بڑی انسانی ہجر ت عمل میں لائی گئی اور نظر یہ یہ اپنایا گیا کہ
مسلمانان بر صغیر تخت برطانیہ سے چھٹکارا حاصل کر کے الگ خطہ حاصل کر یں گے
اور ایک خود مختار ، آزاد وباہمت مسلم ریاست دنیا کے نقشے پر ابھرے گی ،ایسی
آزاد مسلم ریاست جو دنیا بھر کے مسلمانوں اور دوسری قوموں کے لیے بھی ایک
زندہ و جاوید حقیقت کا روپ دھا رلے گی اور مسلمانان عالم اس کی ضیاءپاشیوں
سے مستفید ہو کر اپنی منزلیں متعین کریں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ یہ سارے
خواب چکنا چور ہو گئے، مملکت خداداد کو معرض وجود میں آئے نصف صدی سے زائد
کا عرصہ بیت چلا ہے ، کتنے ممالک ایسے ہیں جنہوں نے ہمارے ساتھ ہی تاج
برطانیہ کی قید سے چھٹکارا پایا اور وہ چند سالوں میں ہی تعمیر و ترقی اور
خو د انحصاری کے راستے پر چل نکلے لیکن صد افسوس کہ ہم آج بھی وہیں کھڑے
ہیں جہاں آج سے چونسٹھ برس قبل تھے ۔ آخر ان ممالک میں اور ہم میں یہ اتنا
بڑا تضاد کیوں ہے ؟ اس کی وجہ صرف یہی ہے کہ ان قوموں نے استعماری طاقتوں
سے مکمل آزادی حاصل کرنے کی ٹھان لی تھی جب کہ ہم آج بھی اس آزادی کو”
حقیقی آزادی “کا روپ نہ دے سکے ۔
اپنے جنم دن سے لے کر آج تک اس ملک کی باگ ڈور چور اچکوں ، لٹیروں اور غلط
ہاتھوں میں رہی ہے ، اس سے بڑی اور واضح مثال اور کیا ہو گی کہ بانی
پاکستان نے خود کہا تھا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں جب سوچتا ہوں کہ ملک
کی باگ ڈور خدا نخواستہ ان کے ہاتھ چلی جائے گی تو ایک لمحے کو آزادمسلم
ریاست کا خواب ٹوٹتا محسوس کرتا ہوں۔ اس مظلوم دھرتی کے ساتھ ہمیشہ سے
جمہوری طاقتیں سنگین قسم کا کھلواڑ کرتی آئی ہیں جس کے نتیجہ میں آج جب قوم
چونسٹھ واں یوم آزادی منانے جارہی ہے ,تباہی ، بربادی ، لاقانونیت اور قتل
و غارت گری ا س مملکت کی دہلیز پر دستک دے رہی ہے ۔ ملک کے ایک بڑے حصے”
منی پاکستان “میں تین جماعتی کشمکش عروج پر ہے جس کا ایندھن اب عام شہری
بھی بننے لگے ہیں اور اس کے ساتھ علمائے کرام اور دینی کارکنوں کے خون سے
بھی ہولی کھیلی جا رہی ہے ، شمالی علاقہ جات میں ریاست کے اندر ریاست قائم
کی جا رہی ہے اور متعصب اسماعیلی ’ ’آزاد آغا خان ریاست“ کے خواب دیکھ رہے
ہیں۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو نیٹو فورسز کے حوالے کر دیا گیا ہے اور
یہ خطہ گزشتہ سات سالوں سے ڈرونز حملوں اور نیٹو فوجیوں کی در اندازی کی زد
پر ہے جس سے اب تک پچیس سو سے زائد افراد لقمہ اجل بن چکے ہیں دوسری طرف
بغاوت کی آگ ہے جو بلوچستان کے در و دیوار سے سر اٹھائے بلند ترہورہی ہے ،
بلوچ مائیں باغی سپوتوں کو جنم دے کر ان کے ہاتھوںمیں آزاد بلوچستان کا
پھریرا تھما رہی ہیں اور آج کے دن یہ قوم اس بلوچ سرزمین پر اپنا سبز ہلالی
پرچم لہرانے سے قاصر ہے ۔ ڈیلی ”ڈان “کے معروف صحافی سرل المیڈا نے لکھا ہے
کہ اپنوں کی بے اعتنائی اور بے رخی کی وجہ سے بلوچوں کی نئی نسل تیزی سے
علیحدگی پسندی کی جانب مائل ہو رہی ہے ۔ مگر ارباب بست و کشاد اور دیگر
مذہبی ، سیاسی ، سماجی جماعتوں ہیں کہ خطے میں بغاوت کی اس بھڑکتی ہوئی آگ
کو بالکل نارمل اور لائٹ انداز میں لے رہی ہیں اور صورتحال کا ٹھیک طور سے
ادراک نہیں کیا جا رہا ۔
ذرا دیکھیے کہ ہم گزشتہ چونسٹھ برسوں میں اپنی منزل کے کتنے قریب پہنچ پائے
ہیں ؟ آزاد وطن کے ظہور پذیر ہوتے ہی ہم نے انہی گوروں کے آگے ہاتھ پاﺅں
پھیلانے شروع کر دیے تھے جن سے چھٹکارا پانے کے لیے لاکھوں مسلمانوں نے سر
دھڑ کی بازی لگا دی تھی۔ اپنی جھوٹی انا کی تسکین کی خاطر اورغلط رویوں کی
بدولت ہی محض چوبیس سال بعد ہم نے دھرتی کا نصف حصہ گنوا دیا تھا ، ہم لوگ
بنگالی بھائیوں کو” کالے مسلمان“ کا خطاب دے کر ان میں نفرتوں کی فصل کاشت
کرتے رہے جس کا انہوں نے ہم سے نہایت بھیانک قسم کا بدلہ لیا اور آخرکار
انڈین آرمی کا سہارا لے کر ہم سے اپنا حساب چکایا ۔ ستم بالائے ستم دیکھیے
کہ اس سانحہ کو وقو ع پذیر ہوئے چالیس سال کا عرصہ بیت چلاہے مگر ہماری
فکری گراوٹ اور اپنی غلطیوں سے سبق نہ سیکھنے کی روایت دیکھیے کہ آج بہادر
بلوچوں کی دھرتی پر پھر وہی بنگال کی غضب ناک ، تعصٓب پر مبنی اور قہر آلود
تاریخ دہرائی جا رہی ہے ۔ بنگلہ دیش کی صورت میں ایک بڑا خطہ ہم نے اس طرح
گنوا یا تو مغربی پاکستان کی صورت جو حصہ بچا اس کی ناگفتہ بہ صورتحال آج
ہم سب کے سامنے ہے ، ملک کی داخلی و خارجی صورتحال ، مذہبی و سیاسی منظر
نامہ، اپنے گردو پیش ، اپنے فوجی و سول اداروں ، پولیس اور عدالتوں کی حالت
زار دیکھیں کہ کیا ہم درست سمت کی جانب محو سفر ہیں؟ کرپشن کی بیماری ہے کہ
پوری ملت کو گھن کی طرح کھائے جا رہی ہے اور تمام ادارے دیوالیہ ہو چکے ہیں
، ریلوے ، واپڈا ، محکمہ تعلیم ، ہیلتھ ، پولیس ، ہائی وے غرض کس کس کا نام
لیا جائے ۔۔۔؟ہمارے حکمران جو کرپشن کے حوالے سے پوری دنیا میں سر فہرست
ہیں ایسی عقل و فہم سے عاری باتیں کرتے ہیں کہ انسان سر پکڑ کر رہ جاتا ہے
کہ خدایا کن نااہل لوگوں کے ہاتھ ہماری قیادت آگئی ہے ، ایسا لگتا ہے کہ ہر
شاخ پہ الو بیٹھا ہے اور گلستان کا انجام بڑا ہی بھیانک ہونے والا ہے ۔ریلوے
کے وزیر محترم نے اپنی ذمہ داری کیا خوب نبھائی ہے، فرمایا گیا کہ الحمد
اللہ آٹھ ٹرینیں روزانہ کی بنیاد پر بند کی جارہی ہیں، ماشاءاللہ ملازمین
کی تنخواہوں کے پیسے بھی اب ہمارے پاس نہیں ہیں، انشاءاللہ جلد سارا کام
ٹھپ ہو جائے گا۔ وزیر داخلہ کا اعلیٰ سطحی اجلاس میں سورت اخلاص کا تلاوت
فرمانا اور بار بار بھول جانا کیا ہمارے لیے کسی قومی المیے سے کم ہے ۔۔۔؟
ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ ملاحظہ ہو کہ پاکستان کا ہر شہری عالمی
سرمایہ دارانہ طاقتوں کا پچاسی ہزار روپے کا مقروض ہے ، اسی تنظیم نے مزید
بتایا کہ پاکستان کے ترقیاتی بجٹ کا پینتالیس فیصد کرپشن ، لوٹ مار کی نظر
ہو رہا ہے ۔ نااہل حکمرانوں نے ہر حوالے سے قوم کو بند گلی دھکیل دیا ہے ،
بھارت نے کشمیر سے آنے والے دریاﺅں پر کئی ڈیم تعمیر کر کے آپریشنل بھی
کرڈالے مگرہم ابھی تک کالاباغ ڈیم کے مخمصے سے ہی نہیں نکل پا رہے اور ہم
نے اس پر لسانیت کا پارہ چڑھا کر اس وسیع ترقومی مفادکے منصوبے کو بھی سرد
خانے کی نظر کر ڈالا ہے ۔ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور ذاتی دولت کا تو کوئی
حساب ہی نہیں جب کہ مملکت کے عام شہری کو غم روزگار سے ہی فرصت نہیں اور
اسے دو وقت کی روٹی بھی ڈھنگ سے نصیب نہیں ہوتی ، شہریوں کو ہمہ جہت مسائل
کا سامنا ہے اور انکی زیست اجیرن ہو کر رہ گئی ہے ۔ والدین معصوم بچوں کے
ہمراہ نہروں ، دریاﺅں میں کود کر مسائل زدہ زندگی کی قید سے چھٹکارا حاصل
کر رہے ہیں اورمائیں بچوں کے گلے میں برائے فروخت کی تختی لٹکائے آج کے اس
جشن یوم آزادی پر سوالیہ نشان ثبت کر رہی ہیں ۔ نوکر شاہی اور سیاستدانوں
کی کرپشن ، لوٹ مار ، بے روزگار ی اور اختیارات کے ناجائز استعمال نے ملک
کی چولہیں ہلا ڈالی ہیں ۔ ٹھوس و واضح پالیسی کے فقدان کے سبب اور دہشت
گردی کے خلاف جاری نام نہاد جنگ میں فرنٹ لائن کردار ادا کر نے پر ہم نے
اپنے ہی گھر کو آگ لگا دی ہے ۔ ڈرونز حملوں ، ٹارگٹ کلنگ ، قتل و غارت گری
، ڈکیتی ، چوری کی بڑھتی وارداتوں کو دیکھ کرگماں ہوتا ہے کہ یہاں پر جنگل
کے قانون سے بھی بد تر قانون رائج ہو چکا ہے۔
ارض وطن کے باسی کسی انجانے خوف اور ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہیں ، کلیجہ
لرزا دینے والی اندوہناک خبروں نے ان سے دن کا سکون اور رات کی نیندیں چھین
لی ہیں ۔ اگر معاشی ، سماجی ، معاشرتی و دیگر اعتبار سے ہم تیزی سے روبہ
زوال ہیں تو اسلامی نقطہ نگاہ کے مطابق بھی ہم مسلسل زوال پذیر ہو رہے
ہیں۔علمائے کرام و دینی کارکنوں کا سب سے زیادہ خون اسی دھرتی پر بہایا گیا
جو اسلام کے نام پر قائم کی گئی ، دینی ومذہبی قوتوں کو سب سے زیادہ
پاکستان میں مسائل و مشکلات کا سامنا رہا ہے ۔چند ٹکوں کے عوض ہم نے یوسف
رمزی ، ایمل کانسی ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی و دیگر سینکڑوں مسلم نوجوانوں کو
کفریہ طاقتوں کے ہاتھ فروخت کر دیا ، امریکی جیلوں میںمقید قوم کی بیٹی
عافیہ صدیقی آج بھی کسی محمد بن قاسم ؒکی منتظر ہے اورہم میں اتنی بھی
اخلاقی جرات نہیں کہ مسلم قوم کی اس باعزت و باعصمت بیٹی کی رہائی بارے آوز
بلند کر سکیں ۔ جن ظالموں نے اس مسلم بیٹی کو امریکہ کے ہاں بیچا وہ تو
دنیا و آخرت میں رسوا ٹھہرے سوال یہ پیدا ہوتا کہ من حیث القوم ہم نے اس
بیٹی کی رہائی بارے کیا کردار ادا کیا ؟ ۔
آج کے دن پاکستانی قوم سے میرا سوا ل ہے کہ کیا واقعی خود کو غیروں کے ہاتھ
گروی رکھ کر اور اپنے بیٹوں ، بیٹیوں کو کفرکے ہاتھ فروخت کر نے کا نام ہی
آزادی ہے۔۔۔؟کیاکفریہ فوجوں کو اپنے علاقے میں کھلی مداخلت کا حق دینے اور
اپنے مسلمان بھائیوں کو قتل کرنے کا سر ٹیکفکیٹ دینے کانام آزادی ہے ۔۔۔؟
کیا بھارتی دہشت گرد اور لاتعداد پاکستانیوں کے قاتل سر بجیت سنگھ کو جیل
میں ہر طرح کا پروٹوکول دینا آزادی کا مذاق اڑانے کے لیے کافی نہیں
ہے۔۔۔؟فوجی امداد کی بندش پر رب کے حضور سجدہ ریز ہونے کے بجائے متعصب
امریکی سی آئی اے کے سربراہ کے آگے گڑگڑا نے کو آزادی سے تعبیر کیا جا سکتا
ہے ۔۔۔؟ کیااپنے قومی و ملی ہیروز کے اسباق کو فرسودہ اور گئے زمانے کا چلن
کہہ کر سکول و کالجز کی نصابی کتب سے خارج کر کے ان شہداءکی روحوں کو
تڑپانے کا نام ہی آزادی ہے جنہوں نے گزشتہ چار جنگوں میں دشمن کے کشتوں کے
پشتے لگا دیے اور ملت کے دفاع کی جنگ لڑی۔۔۔؟
اس منظر نامے کو مد نظر رکھتے ہوئے ذرا سوچیے کہ کیا حقیقی آزادی اسی کا
نام ہے اور ہم ہر حوالے سے مکمل طور پر ایک آزادمسلم قوم کی حیثیت سے زیست
بسر کر رہے ہیں ؟ کیا یہی کچھ حاصل کرنے کے لیے ہم نے 1947ءمیں لاکھوں
مسلمان شہید کر وا دیے تھے ؟ کیا یہی منزل پانے کے لیے ہماری ماﺅں ، بہنوں
، بیٹیوں نے اپنی عصمتوں اور اپنی جانوں کی قربانی دی تھی ؟ کیا یہی وہ
مقاصد تھے جن کو حاصل کرنے کے لیے بیسیوں ٹرینیں ہزاروں نوجوان لاشوں کو
اٹھائے امرتسر سے لاہور پہنچی تھیں؟کیا ایسی ہی کسی آزادی کی خاطر ہمارے
شہداء، جانثاروں اور غازیوں نے چونڈہ ، ظفر وال اور کارگل جیسے گرم معرکے
بر پا کر کے پورے عالم کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا تھا۔۔۔۔؟ نہیں نہیں ًیہ وہ
آزادی تو نہیں جس کے خواب ہمارے آباﺅ اجداد نے اپنی آنکھوں میں سجا کر اپنے
ہنستے بستے گھرانے لٹا دیے تھے۔ اسے ہر گز مکمل آزادی قرار نہیںدیا جا
سکتابلکہ یہ ادھوری آزادی ہے جس سے ہم فقط الگ قطعہ ارضی تو حاصل کر پائے
ہیں مگر سیاسی ، سماجی ، معاشرتی اور ذہنی طور پر ہم آج بھی اسی گورے ا
نگریز اور دیگر استعماری طاقتوں کے غلام ہیں اور موجودہ حالات کو پیش نظر
رکھتے ہوئے ایسا لگ رہا ہے کہ۔۔۔۔ اب ہم سے۔۔۔۔۔ یہ قطعہ ارضی بھی۔۔۔۔
(خاکم بد ہن)چھینا جا رہا ہے ۔شاعر نثار ناسک نے ایسے ہی کسی آزادی کے بارے
میں سچ ہی تو کہا تھا کہ
ہم کو آزادی ملی بھی تو ایسے ناسک
جیسے کمرے سے کوئی صحن میں پنجرہ رکھ دے |