دیویندر فڈنویس :بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے میں ہم آئے


مہاراشٹر کے ایوان اسمبلی میں اقتدار کے فائنل سے قبل سیمی فائنل کھیلا گیا ۔ یہ اسمبلی کے اسپیکر کا انتخاب تھا ۔ ایوان کی کارروائی صبح 11 بجے شروع ہوئی۔ بی جے پی نے راہل نارویکر کو اسپیکر کے لیے امیدوار بنایا جبکہ ان کا مقابلہ کرنے کی خاطر شیوسینا کے راجن سالوی کو مہاوکاس اگھاڑی نے میدان میں اتار گیا ۔ بی جے پی کو اپنے 106 ارکان اسمبلی کے علاوہ شندے دھڑے کے تقریباً 40 اور 10 آزاد قانون سازوں کی حمایت حاصل تھی ۔ یہ تعداد اکثریت کے لیے درکار 145 سے کہیں زیادہ تھی ۔ اسپیکر کی رائے شماری نے تمام قیاس آرائیوں کا خاتمہ کرکے بتا دیا کہ ایکناتھ شندے کے ساتھ164 اور مہاراشٹر وکاس آگھاڑی کے پاس صرف 107 ؍ ارکان اسمبلی ہیں۔ نئے اسپیکر ویسے تو فی الحال بی جے پی میں ہیں مگر وہ کسی زمانے میں شیوسینا کے اندر تھے۔ 2014 میں جب ان کو شیوسینا نے ٹکٹ نہیں دیا تو وہ این سی پی میں چلے گئے لیکن شکست کے بعد بی جے پی کی پناہ میں آگئے۔ اس طرح ایک سابق موقع پرست شیوسینک اسپیکر بن گیا ۔ اس سے قبل ایک ابن الوقت شیوسینک کو وزیر اعلیٰ بنا دیا گیا۔ اس کے برعکس بی جے پی کے وفادار سپاہی دیویندر فڈنویس کو ڈپٹی وزیر اعلیٰ کا جھنجھنا پکڑا دیا گیا۔

دیویندر فڈنویس نے دو دن قبل ایک پریس کانفرنس میں ادھو ٹھاکرے پر بے اصولی ، ابن الوقتی، بدعنوانی اورداود ابراہیم سے متعلق سنگین الزامات لگائے تھے ۔ اس کے مواد کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں تھا اس کے باوجود ان کا انداز بیان قابل تعریف تھا ۔ اس دوران ان کے بغل میں باغی شیوسینک ایکناتھ شندے جگالی کررہے تھے ۔ ایسا لگ رہا تھا کہ گٹکا یا سپاری چبا رہے ہیں ۔ ویسے ممبئی کی زبان میں سپاری لینا ’اجرت پر قتل ‘ کے معنیٰ میں بھی استعمال ہوتا ہے۔اتفاق سے انہوں نے بی جے پی سے سپاری لے کر ادھو سرکار کو چونا لگایا اور غالباً اسی کو وہ پریس کانفرنس کے دوران بڑے مزے سے چبا رہے تھے۔ پریس کانفرنس میں دیویندر فڈنویس کا خطاب اور ایکناتھ شندے کی خاموشی توقع کے عین مطابق تھی ۔ وزیر اعلیٰ کا کام بول بچن اور اس کے نائب کی ذمہ داری نندی بیل کی طرح سر ہلانے کی ہوتی ہی ہے لیکن حیرت کی بات ہ شندے کی پر سکون کیفیت اور دیویندر فرد نویس کے چہرےکاتناو تھا ۔

اس پریس کانفرنس کے دوران بھگتوں نے سوچا ہوگا کہ حلف برداری سے قبل ہی ذمہ داری کا احساس ان پر طاری ہوگیا ہے حالانکہ پانچ سالہ دورِ اقتدار میں ویسی سنجیدگی کبھی نظر نہیں آئی تھی ۔ آگے چل کر پتہ چلا کہ وہ اندر ہی اندر وزیر اعلیٰ کا عہدہ چھن جانے کے غم میں گھلے جارہے تھے ۔ اقتدار کے جام کا بالکل ہونٹوں کے قریب آکر چھن جانے کا غم کس کو نہیں ہوگا؟ دیویندر فڈنویس پر اقتدار گنوانے کا موقع یہ دوسری بار آیا تھا ۔ پچھلی مرتبہ بھی انہوں نے اعتماد کا ووٹ حاصل کیے بغیر راہِ فرار اختیار کی تھی ۔ ڈھائی دن کے بعد استعفیٰ دینے سے ان کی بہت رسوائی ہوئی تھی اس لیے اس بار انہوں نے سرکار سے دور رہ کر حمایت کرنے فیصلہ کیا مگر اعلیٰ کمان نے اس کی اجازت نہیں دی نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز کرکے مزید ذلیل کردیا ۔ دیویندر فڈنویس جیسے مغرور سابق وزیر اعلیٰ کو یہ زیب نہیں دیتا ہے کہ وہ ایک ایسے فرد کا نائب بن جائے جس کی سیاست میں کوئی حیثیت نہیں ہے۔ بی جے پی کے پاس مرکز میں حکومت ہے ۔ وہ شیوسینا سے ٹوٹ کر کانگریس کے راستے سے آنے والے سابق وزیر اعلیٰ نارائن رانے کو مرکزی وزیر بناسکتی ہے تو دیویندر فڈنویس کو کم ازکم وزیر مملکت بناکر منایا سمجھایا جاسکتا ہے لیکن بی جے پی ہائی کمان نے اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

تعجب کی بات ہے کہ پچھلے دنوں ایک چارٹرڈ ہوئی جہاز سے دہلی کا سفر کرکےفڈنویس نے عصر حاضر کے نام نہاد چانکیہ امیت شاہ سے ملاقات کی تھی۔ پارٹی کے صدر جے پی نڈا سے بھی وہ مل کر آئے تھے۔ یہ خبر بھی آئی تھی کہ حکومت سازی سے متعلق ساری تفصیلات طے ہوچکی ہیں۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے کن لوگوں کو کون کون سے وزارت دی جائےگی اور شندے کے حامیوں کو کیا ملے گا یہ بھی طے ہوگیا ہے ۔ اس کے باوجود ڈھائی گھنٹے میں دیویندر فڈنویس کو اپنا بیان بدلنا پڑگیا ؟ ان کو بادلِ ناخواستہ ڈپٹی وزیر اعلیٰ کا عہدہ قبول کرنے پر کیوں مجبور ہونا پڑا؟یہ سوال اہم ہے۔دیویندر فڈنویس کے بارے میں کہا جارہا ہے کہ وہ پارٹی کے وفادار سپاہی ہیں اس لیے انہوں نے اعلیٰ کمان کے حکم کو تسلیم کرلیا لیکن یہ اقدام برضاو رغبت کیا گیا یا اس کے لیے زور زبردستی کرنی پڑی؟ ایسا لگتا ہے کہ فڈنویس اس رسوائی کے لیے راضی نہیں تھے لیکن پارٹی کے صدر جے پی نڈا نے ذاتی طور پر فون کرکے انہیں سمجھانے منانے کے بجائے اخباری بیان دے دیا ۔ اس بیان میں بظاہر فڈنویس کو کشادہ دل رہنما کہہ کر ان کی تعریف کی گئی تھی لیکن انکار کی گنجائش کو ختم کردیا گیا ۔ کھلے عام دیئے جانے والے اس حکم کی خلاف ورزی کرنے کا مطلب پارٹی سے بغاوت ہوتا ہے ۔ فی الحال بی جے پی کے اندر باغی تیور دکھا نے والے کے اندرکانگریس کے ریاستی صدر نانا پٹولے کی مانند اقتدار سے لڑنے کی ہمت و حوصلہ درکارہے۔

برہمن سماج مزاجاً مصالحت پسند ہونے کے سبب بغاوت سے کتراتاہے اس کے باوجود بہت سارے برہمن فسطائیت سے برسرِ پیکار ہیں لیکن جن کے ریڑھ کی ہڈی کو سنگھ کی شاکھا میں توڑ دیا گیا ہو وہ بیچارے مصلحت یا نظم و ضبط کے نام پر ہر طرح کی رسوائی کو برداشت کرلیتے ہیں ۔ دیویندر فڈنویس اور ان کے استاد نتن گڈکری کا شمار ایسے ہی لوگوں میں ہوتا ہےجو سنگھ سے قربت کے باوجود مودی اور شاہ سے ڈرے سہمے رہتے ہیں۔بی جے پی کے کچھ اندھے بھکت دانشور فی الحال یہ کہہ رہے ہیں کہ ادھو ٹھاکرے نے اگر سنجے راوت کے بجائے امیت شاہ کی بات مان لی ہوتی تو ان پر یہ وقت یعنی استعفیٰ دینے کی نوبت نہیں آتی۔ یہ بالکل درست بات ہے کیونکہ اگر اس عہدے پر فائز ہی نہیں کیے جاتے تو استعفیٰ کیسے دیتے ؟ اس طنز کا جواب خاموش طبع ادھو ٹھاکرے نے اس طرح دیا ہے کہ اگر ڈھائی سال قبل امیت شاہ اپنا عہد نبھاتے تو آج مہاراشٹر میں بی جے پی کا وزیر اعلیٰ ہوتا لیکن فڈنویس کی آرزومندی اور امیت شاہ کی کوتاہ اندیشی کا یہ نتیجہ نکلا کہ شیوسینا کے دو گروہوں کو باری باری سے حکومت چلانے کا موقع مل گیا اور سب سے زیادہ نشستیں جیتنے کے باوجود وہ اقتدار کی باگ ڈور نہیں سنبھال سکی ۔

یہ حقائق سامنے آ چکے ہیں کہ نائب وزیر اعلیٰ کے پاس کوئی خصوصی اختیار نہیں ہوتا ۔ یہ صرف ہاتھی کا دکھانے والا دانت ۔ اس کو ہر فائل کی وزیر اعلیٰ سے توثیق کروانی پڑتی ہے۔مہاراشٹر میں بی جے پی کے ساتھ ساتھ دیویندر فڈنویس کی حالت نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم کی سی ہوگئی ہے۔ دیویندر فڈنویس نے ایون بالہ اور قانون ساز کونسل میں بی جے پی ارکان کی کامیابی کا جشن پارٹی دفتر میں آکر منایا۔ ایکناتھ شندے کی بغاوت کے بعد بھی پارٹی کے دفتر میں ان کا ہنستا ہوا نورانی چہرا نظر آیا لیکن بی جے پی کی حکومت کے قیام کا جشن منانے کے لیے جب کارکنان جمع ہوئے تو دیویندر فڈنویس وہاں حاضر نہیں تھے ۔ ایک نائب وزیر اعلیٰ کی غیر موجودگی ان کی ناراضی کا جیتا جاگتا ثبوت نہیں تو اور کیا ہے؟ مہاراشٹر میں اس سے قبل چار لوگ وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائز رہنے کے بعد کابینی وزیر کی حیثیت سے اپنی ذمہ داری ادا کرچکے ہیں لیکن ان کی انا گدنویس جیسی نہیں تھی۔ دیویندر فڈنویس نے اپنے آپ کو ہمیشہ ہی پارٹی سے اوپر سمجھا ۔ انتخابی مہم کے دوران ان مشہور کا نعرہ تھا ’’میں آوں گا ہی‘‘۔ اقتدار گنوانے کے بعد انہوں نے کہا تھا میں سمندر ہوں اور لوٹ کر آوں گا۔ ایک بار تو یہاں تک کہہ دیا تھا کہ مجھے یہ محسوس ہی نہیں ہوتا کہ میں اقتدار سے محروم ہوچکا ہوں۔ اس طرح کے ہر بیان میں ’ہم ‘ یعنی پارٹی کا ذکر شاذو ناد ر ہی ہوتا تھا اور ہر جگہ ’’ میں ہی میں ہوں ، دوسرا کوئی نہیں ‘‘ کا سُر سنائی دیتا تھا ۔

ایک ایسے فرد کا جس کو نام مماثلت کے سبب نریندر مودی کا جانشین تک کہہ دیا گیا ہو نائب وزیر اعلیٰ بن جانا یقیناً ایک بہت بڑی رسوائی ہے۔ انہیں توقع رہی ہوگی کہ پریس کانفرنس میں اعلان کے بعد ہائی کمان ان کی بے غر ضی کو سراہنے پر مجبور ہوجائے گا اور اس نافرمانی کو ایثار و قربانی کا نام دے کر تعریف کرے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ہائی کمان نے دیویندر فڈنویس کو ان کی جگہ دکھا کر اپنی بات منوالی۔ ڈھائی سال قبل دیویندر فڈنویس کا جانا اس قدر رسواکن نہیں تھا جتنا کہ اس بار اقتدار میں آنا تھا۔ حلف برداری کے وقت بس رونا باقی رہ گیا تھا ۔ ویسے اگر آنسو آتے تب بھی گودی میٖڈیا اسے خوشی کے آنسو کہتا لیکن سچائی یہ ہے کہ دیویندر فڈنویس کا 106 ؍ ارکان اسمبلی کی حمایت کے باوجود وزیر اعلیٰ نہیں بن پانا اور 40؍ باغی ارکان کی مدد سے وزارت اعلیٰ کا عہدہ سنبھالنے والے ایکناتھ شندے کی قیادت میں نائب وزیر اعلیٰ بن جانے پر غالب کا مشہور مصرع معمولی ترمیم کے ساتھ صادق آتا ہے:’’بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے میں ہم آئے‘‘۔



 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449376 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.