روہت رنجن: یوگی کے ماتھے کا کلنک

یوگی ادیتیہ ناتھ نے اقتدار سنبھالنے کے بعد بڑے طمطراق کے ساتھ یہ دعویٰ کیا تھا کہ وہ جرائم سے پاک ریاست بنائیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اب ریاست کے اندر مجرم پیشہ لوگوں کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے۔ ان کے راج میں جرائم کا ارتکاب کرنے والوں کو یا تو ریاست سے فرار ہونا پڑے گا یا انہیں پرلوک پہنچا دیا جائے گا لیکن روہت رنجن کو گرفتاری سے بچاکر یوگی نے خود اپنے دعویٰ کی پول کھول دی اور یہ ثابت کردیا کہ وہ محض ایک فریب تھا ۔ ان کی سرکار مجرم کو پکڑنے کے بجائے انہیں تحفظ فراہم کرتی ہے۔ روہت رنجن جیسے لوگوں کو عدالتی وارنٹ کے باوجود گرفتاری بچانے کی گھناونی سازش کی جاتی ہے جو اپنے آپ میں توہینِ عدالت ہے۔ انہیں جیل پہنچانے میں مدد کرنے کے بجائے ایک فرضی شکایت پر گرفتار کرکے کسی نامعلوم عیش گاہ میں پہنچا دیا جاتا ہے ۔ اس کے بعد ضمانت کا بندو بست کرکے اسے فرار ہونے میں مدد کی جاتی ہے۔ اس طرح یوگی سرکار نے اپنے پے درپے اقدامات سے ایک مجرم کی مدد کرنے کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا ہے ۔

یوگی سرکار کے اس امتیازی سلوک نے کانگریس پارٹی کے ارکان کو زی نیوز کے اینکر روہت رنجن کے خلاف راہل گاندھی کا فرضی ویڈیو چلانے پر رپورٹ درج کرانے کے لیے دور دراز کے صوبہ چھتیس گڑھ میں پولیس سے رجوع کرنا پڑا کیونکہ وہاں ان کا وزیر اعلیٰ ہے۔ چھتیس گڑھ کی پولیس کورٹ سے وارنٹ لے کر صبح سویرے روہت کے اندرا پورم (ضلع غازی آباد) میں واقع گھر پر گرفتاری کی غرض سے جادھمکی ۔ اس سے خوفزدہ ہوکر ٹیلی ویژن کے پردے پر دہاڑنے والا شیر بھیگی بلی بن گیا ۔ اس نے اپنے کرم فرما اتر پردیش کی یوگی حکومت اور مقامی انتظامیہ سے مدد کی اپیل کی۔روہت رنجن نے اپنے ٹویٹ یہ لکھ کرکہ مقامی پولیس کو بتائے بغیر چھتیس گڑھ پولیس اس کی گرفتاری کے لیے گھر کے باہر کھڑی ہے سوال کیا کیا یہ قانونی طور پر درست ہے؟ اس سوال کا جواب تو یہ ہے کہ اگر کسی صوبے کی پولیس کے پاس عدالتی وارنٹ موجود ہوتو مقامی پولیس کو اطلاع دینا لازمی نہیں ہے ۔ اس کے باوجود پولیس والے مقامی تھانے سے تعاون کی خاطر رجوع کرتے ہیں لیکن جہاں مدد کے بجائے مخالفت کا امکان ہو وہاں ایسا کرنا نادانی ہے۔

اس حقیقت کے باوجود دباو میں آکرچھتیس گڑھ پولیس نے غازی آباد کے تھانے میں اطلاع دے دی جس کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ روہت رنجن اس قدر اہم آدمی ہے کہ اس کے ٹویٹ کا بہ صرف یوپی پولیس نے جواب دیا بلکہ چھتیس گڑھ پولیس نے بھی اپنے ٹویٹ میں کہا کہ اطلاع دینے کا کوئی ضابطہ نہیں ہے۔ تاہم اب انہیں اطلاع دے دی گئی ہے۔ اس ٹویٹ میں روہت کو یاد دلایا کہ پولیس ٹیم نے آپ کو عدالت کا گرفتاری وارنٹ دکھایا ہے۔روہت رنجن کی گرفتاری کا ہائی ٹیک ڈرامہ اب ٹویٹ پر چلنے لگا تھا ۔ اتر پردیش کی مظلوموں کی فریاد رسی کے وقت گونگی بہری بن جانے والی پولیس کو روہت کے اس ٹویٹ نے علیٰ الصبح بیدار کردیاکیونکہ اسے یوپی کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ، غازی آباد ایس ایس پی اور اے ڈی جی زون لکھنؤ کو ٹیگ کیا گیا تھا ۔

غازی آباد کی پولیس نے کمال پھرتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے ٹویٹ میں لکھا کہ معاملہ مقامی پولیس کے نوٹس میں ہے، اتر پردیش کے اندرا پورم تھانے کی پولیس موقع پر موجود ہے اور قاعدے کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ اس طرح کی مہربانی اگر عام لوگوں پر ہونے لگے تو سماج میں ظلم و جبر کا خاتمہ ہوجائے گا لیکن وہاں تو اس کے برعکس ہوتا ہے۔ میرٹھ کا طالب حسین روٹی اخبار میں باندھ کر دیتا ہے تو عقل کی اندھی پولیس کو وہ روٹی گوشت نظر آتی ہے اور اسے گرفتار کرنے کے بعد اس پر چاقو سے حملے کا الزام جڑ دیا جاتا ہے حالانکہ کاونٹر پر نہ چاقو ہوتا اور نہ کوئی پاگل اس قدر معمولی شکایت پر چاقو سے حملہ کرنے کی حماقت کر سکتا ہے لیکن اگر جھوٹ ہی بولنا ہے تو کیوں نہ بڑا جھوٹ بولا جائے جبکہ یقین ہو کہ مقامی مجسٹریٹ اس پر آنکھ موند کر یقین فرماکے پولیس کے احمقانہ موقف کی تائیدکر دیں گے ۔

روہت رنجن کا معاملہ پہلے تو غازی آباد اور چھتیس گڑھ کی پولیس کے درمیان تھا لیکن اچانک اتر پردیش کے گوتم بدھ نگر ضلع (نوئیڈا) کی پولیس حرکت میں آ کر فوراً موقع واردات پر پہنچ گئی اور ایک فرضی شکایت پر گرفتاری کی دعویدار بن گئی ۔اس طرح گویا چھتیس گڑھ پولیس اور یوپی پولیس کے درمیان روہت کو گرفتار کرنے کے لیے ہاتھا پائی کا ماحول بن گیا ۔ اپنی گلی میں تو ہر کوئی شیر ہوتا ہے کی مصداق اس رسہ کشی میں یوپی پولیس روہت کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ زی ٹی وی سے پھیلائی جانے والی بے شمار فیک نیوز کی مانند یہ ایک فرضی حراست تھی جس کا مقصد روہت جیسے جھوٹے اینکر کو چھتیس گڑھ پولیس کے ہاتھوں گرفتاری سے بچانا تھا ۔ اس کے ذریعہ یہ پیغام دیا گیا کہ اے گودی میڈیا کے اینکرو تم جتنا چاہو جھوٹ گھڑ کر پھیلاو تمہارا بال بیکا نہیں ہوگا ۔ ہم تمہارے آقا ہیں اور سارے اصول ضوابط کو بالائے طاق رکھ کر تمہاری حفاظت کریں گے۔ اس تحفظ کی یقین دہانی کے بغیر محض چند ہڈیاں ان لوگوں کو رات دن بھونکنے کے لیے آمادہ نہیں کرسکتی ہیں ۔

یوپی کی پولیس نے جب چھتیس گڑھ پولیس کے منصوبے کو خاک میں ملادیا تو اس کے خلاف کانگریس کارکنان کی بڑی تعداد نوئیڈا کے سیکٹر-20 پولیس اسٹیشن پہنچ شدید نعرے بازی کی ۔ وہ 'نوئیڈا پولیس سے پوچھ رہے تھے کہ روہت رنجن کو کن دفعات کے تحت گرفتار کیا گیا ہے اور کہاں رکھا گیا ہے؟ انہوں نے الزام لگایا کہ پولیس نے روہت کو جیل کے بجائے کسی ہوٹل یا کہیں اور رکھا ہے۔ ا س کے ساتھ ملزم والا سلوک نہیں کیا جارہا ہے بلکہ اسے وی وی آئی پی کی سہولتیں دی جارہی ہیں۔ یہ کیسی ستم ظریفی ہے کہ ایک طرف بھیما کورے گاوں میں پولیس حراست کے اندر موجود معروف دانشوروں اور بزرگ قیدیوں کو مچھر دانی تک دینے سے انکار کردیا جاتا ہے دوسری جانب روہت جیسے لوگوں کے عیش و آرام کا بھر پور خیال رکھا جاتا ہے۔ روہت رنجن کو غیر قانونی طور پر گرفتاری سے روک کر قانون کی دھجیاں اڑائی جا تی ہیں۔ یہ اس بات کا کھلا ثبوت ہے کہ روہت رنجن اور اس کا ادارہ حکمران بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے۔

ٹی وی اینکر روہت رنجن کے معاملے میں ڈھٹائی کا یہ عالم ہے کہ اس کو بچانے کی خاطر سینئر ایڈوکیٹ سدھارتھ لتھرا نے سپریم کورٹ جسٹس اندرا بنرجی اور جے کے مہیشوری پر مشتمل تعطیلاتی بنچ کے روبرو ی عدالت کے مخصوص احکامات کے باوجود سماعت کیلئے معاملہ اسی دن کی فہرست میں شامل نہیں کیے جانے کی شکایت کی ۔اس کے ساتھ یہ عرضی بھی درج کرائی گئی کہ مختلف ایف آئی آر کو اکٹھا کردیا جائے۔ اس گزارش کرنے کے حق میں یہ دلیل دی گئی کہ کہ قانون میں ایک ہی نوعیت کے اقدام پر متعدد ایف آئی آر درج کرانے کی اجازت نہیں ہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی کہا گیا براڈکاسٹر کے خلاف کیبل ٹیلیویزن نیٹ ورکس (ریگولیشن) ایکٹ1995اور پروگرامنگ قواعد کے تحت معاملہ کا احاطہ کیا جاچکاہے۔ زیر بحث معاملہ سے نمٹنے کیلئے چونکہ ایک خصوصی قانون موجود ہے تو مجرمانہ تعزیر یا ایف آئی آر درج کرانے کا سوال پیدا نہیں ہوتا۔ روہت کے وکیل نے کئی ریاستوں کی ایف آئی آر کے پیچھے ی دانستہ محرکات کا الزام لگایا گیا۔

اس معاملہ کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ سپریم کورٹ کے ججوں نے درخواست داخل ہونے سے قبل ہی تاریخ بھی دے دی جبکہ عمر خالد اور شرجیل امام جیسے بے قصور لوگوں کے فیصلے کو کئی ماہ سے معطل رکھا گیا ہے۔روہت رنجن کے معاملے میں جج حضرات کو جب فاضل وکیل نے بتایا کہ ہنوز روہت رنجن کی درخواست بھی نہیں لگائی گئی ہے تو وہ برہم ہوگئے کہ پہلے اس کی اطلاع کیوں نہیں دی گئی؟ روہت رنجن کی منورنجن کتھا کا بھی انجام ہندی فلموں کی طرح ہوا۔ عدالت عظمیٰ نے اس کی گرفتاری پر روک لگاتے ہوئے پولیس کو تحویل میں لینے سے بھی منع کردیا۔ اسی کے ساتھ مرکزی حکومت کو بھی اس بابت نوٹس جاری کردیا لیکن جب سیاّں بھئے کوتوال تو پھر ڈر کاہے کا ۔ اس طرح اترپردیش پولیس روہت رنجن کو گرفتاری سے بچانے میں تو کامیاب رہی لیکن محمد زبیر کے بارے میں اسے منہ کی کھانی پڑی ۔ سپریم کورٹ نے زبیر کو عبوری ضمانت دینے کا فیصلہ سناتے ہوئے یوپی پولیس کو نوٹس جاری کرکے جواب بھی طلب کیا ہے ۔ یہ حسن اتفاق ہے یوگی انتظامیہ کی رسوائی راہل کے بجائے زبیر کے ہاتھوں لکھی تھی ۔ اس معاملے میں یوپی پولیس بری طرح پھنس چکی ہے اور ایک زبردست رسوائی کے انتظار میں ہے۔ زبیر کی بابت یوپی سرکار کی جو حالت ہونی ہے اس پرمیر درد کا یہ شعر صادق آتا ہے؎
اذیت مصیبت ملامت بلائیں
ترے عشق میں ہم نے کیا کیا نہ دیکھا
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449841 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.