سنا ہے کسی زمانے میں ہندوستان کے اندر بے شمار راجہ
مہاراجہ حکومت کرتے تھے ۔وہ آپس میں ایک دوسرے خلاف نہ صرف سازشیں کرتے
بلکہ لڑتے بھڑتے بھی رہتے تھے۔ اس دور کے واقعات تاریخ کی کتابوں میں درج
ہیں لیکن اب تو تاریخی کتابوں کو بھی مسخ کرنے کا کام شروع ہوچکا ہے اس لیے
آئندہ نسلوں کی ان حقائق تک رسائی مشکل ہوگی ۔ یہ حسن اتفاق ہے کہ جو سنگھ
پریوار تاریخ کو توڑ مروڈ کر لیپا پوتی کے کام میں مصروف ہے وہی اپنی
حرکتوں سے اپنے ماضی کا نظارہ کروارہا ہے۔ یعنی موجودہ حکومت کی دھاندلی نے
عوام و خواص کو ماضی کے مطالعہ کی ضرورت سے بے نیاز کردیا ہے۔ اس کی تازہ
مثال زی نیوز کے اینکر پرڈیوسر روہت رنجن کی گرفتاری اور رہائی ہے۔ ہندی
زبان میں تفریح کو منورنجن کہتے ہیں ۔ اس روہت رنجن کی دلچسپ کہانی میں اسے
اصلی گرفتاری سے بچانے کی خاطر جعلی طور پرگرفتار کیا گیا اور پھر رہائی
بھی ہوگئی لیکن اس سے پہلے کے پھر سے اصلی گرفتاری عمل میں آتی اسےروپوش
کردیا گیا ۔ یعنی شرم سے منہ چھپاتے پھرنے والوں میں نوپور شرما کے بعد ایک
اور خوشگوار اضافہ ہوگیا ۔
یہ عجب اتفاق ہے کہ ایک طرف تو محمد زبیر کو اترپردیش کی پولیس نے ایک نئے
معاملے میں بلا جواز گرفتار کرلیا وہیں روہت رنجن کو نہایت سنگین جرم کا
ارتکاب کرنے کے باوجود فرار ہونے میں مدد کی ۔ اس مختصر سے ٹریلر نے ہندو
راشٹر نامی خوفناک فلم کے جلوے دکھا دئیے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ابھی سے
یہ حال ہے تو آگے کیا ہوگا؟ یہ نظام جھولے میں ایسا ہے تو جوان ہوکر کیسا
ہوگا؟زی نیوز کا سب مقبول عام پروگرام ڈیلی نیوز اینالسس(ڈی این اے) ہے۔
بڑے عرصہ تک سدھیر چودھری اس کو چلاتے رہے تھے اور اسی پروگرام نے ان کو زی
نیوز کا مدیر اعلیٰ بنادیا تھا۔اب ان کی چھٹی ہوچکی ہے اور ان کا ڈی این اے
روہت رنجن میں منتقل ہوچکا ہے۔ یہ چونکہ اس بدنامِ زمانہ چینل کا سب اہم
پروگرام ہے اس لیے اس کا مرکزی موضوع کوئی ایک فرد طے نہیں کرتا۔ اس پر
پروڈیوسر روہت رنجن کے ساتھ زی نیوز کے مالک سبھاش چندرا اور دیگر اہم
اہلکاروں نے غور خوض کیا ہوگا اور اس کے مواد پر بھی لازم گفتگو ہوئی ہوگی۔
اس لیے سب سے زیادہ ذمہ داری روہت کی ضرور ہے لیکن چینل سارے اہم عہدیدار
ذمہ دار ہیں۔ ان کا بال بیکا اس لیے نہیں ہوتا کیونکہ وہ سرکار کی گودی میں
بیٹھ کر اقتدار کے تلوے چاٹتے ہیں ۔
متنازع پروگرام کا مرکزی موضوع یہ تھا کہ راہل گاندھی نے اپنے حلاقۂ
انتخاب میں دفتر پر حملہ کرنے والے سی پی آئی کے کارکنان کو معاف کرنےکی
جو بات کہی ہے اس کو اُودے پور کے قاتلوں سے جوڑ دیا جائے۔ملک کے شمال مغرب
کا شہر اُودے پور اس وقت سارے ملک میں موضوع بحث بنا ہوا تھا ۔ کنہیا لال
درزی کے قاتلوں سے بی جے پی کے تعلقات منظر عام پر آرہے تھے ۔ اس سے بی جے
پی کے لیے اس واردات کا سیاسی فائدہ اٹھانا مشکل ہورہا تھا بلکہ الٹا
بدنامی ہورہی تھی ۔ اس کی جانب سے توجہ ہٹانے کی خاطر ایک نیا جھوٹ گھڑا
گیا ۔ سازش یہ تھی کہ وایناڈ میں دفتر کے حملہ آوروں کی بابت راہل گاندھی
نے جو کہا ہے کہ یہ اپنے بچے ہیں ان کی غلطی معاف کردی جائے کو اُودے پور
سے جوڑ دیا جائے ۔ یہ نہ تو کوئی غلط فہمی تھی اور نہ زبان کا پھسلنا تھا
بلکہ ایک ایسی سازش تھی کہ اس کے نتیجے میں راجستھان بھی گجرات کی سلگ سکتا
تھا ۔ وزیر داخلہ کے لیے تو یہ عام سا ردعمل ہوتا لیکن اس کے سبب گودھرا کے
بعد کی صورتحال پیدا ہوسکتی تھی۔
بی جے پی اول روز سے اس فراق میں ہے کیونکہ گجرات فساد کے بعد ہی وزیر
اعلیٰ کو وہ کامیابی ملی جس نے انہیں وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچایا اور اگر
اس کا اعادہ راجستھان میں ہوجائے نہ صرف صوبے میں پھر سے کمل کھل جائے گا
بلکہ مرکز میں امیت شاہ کو مودی کا سچا جانشین تسلیم کرلیا جائے گا۔ اس
سازش سے راہل گاندھی کی جان کو بھی خطرہ لاحق ہوسکتا تھا ۔ موجودہ ہیجانی
ماحول میں اگر اس جھوٹ کو لوگ سچ مان لیتے تو ان کا گھر سے نکلنا دوبھر
ہوجاتا اور اگر وہ عوام میں جاتے تو ہندو شدت پسندوں کو ان پر حملہ کرنے کا
جواز مل جاتا ۔ ای ڈی کے دفتر میں چکر لگواکر ڈرانے دھمکا نےمیں ناکام
ہوجانے والی مرکزی حکومت کو ’جیسی کرنی ویسی بھرنی ‘ کہہ کر اپنا دامن
جھٹکنے کا موقع مل جاتا لیکن خوش قسمتی سے کانگریس کے بروقت احتجاج نے اس
فتنہ انگیزی کا سدِ باب کردیا ۔ اس طرح پول کھل جانے کے بعد اپنے چینل پر
نمودار ہوکر روہت رنجن نے معافی مانگتے ہوئے کہا ’’ہمارے شو ڈی این اے میں
راہل گاندھی کا بیان اودے پور کے واقعہ سے جوڑ کرغلط تناظر میں چلایا گیا
تھا۔ یہ ایک انسانی بھول تھی جس کے لیے ہماری ٹیم معافی کی خواستگار ہے‘‘۔
سوال یہ ہے کہ کیا وہ محض ایک معمولی بھول چوک تھی یا گھناونی سازش کا حصہ
تھا جس کے پردے میں ایک سیاسی رہنما ،اس کی جماعت ، صوبائی حکومت اور اور
مخصو ص فرقہ یعنی مسلمانوں کو نشانہ بنا مقصود تھا ۔ کیا اس کی تلافی صرف
پردے پر آکر معافی کا ناٹک کرنے سے ہوجاتی ہے۔ لوگوں کو شیطانی غلطی کی
نہیں بلکہ انسانی غلطی کی ہی سزا ملتی ہے اور ہمارے سماج میں محمد زبیر
جیسے نہ جانے کتنے لوگ ہیں کہ جنہیں بغیر کسی بھول چوک کے پہلے دہلی میں
گرفتار کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پریشان کرنے کی خاطر بنگلورو لایا جاتا ہے
اور اس کےبعد اتر پردیش کی بدنام زمانہ پولیس کے تحویل میں دے دیا جاتا ہے۔
محمد زبیر کو بلا قصور گرفتار کرکے ہراساں کرنے والی اترپردیش کی پولیس
رنجن روہت کو بچانے کی خاطر کمر بستہ ہوجاتی ہے۔ اس کو کہتے ہیں اندھی نگری
چوپٹ راج جس میں جرائم کے خلاف صفر برداشت کی حکمتِ عملی کھل کر سامنے
آگئی اور پتہ چلا کہ وہ تو صرف ایک انتخابی جملہ تھا۔
راہل گاندھی دہلی میں رہتے ہیں ، زی نیوز کا دفتر نوئیڈا کے اندر واقع ہے
اور روہت رنجن کی رہائش غازی آباد میں ہے اس لیے فطری طور اس معاملے میں
شکایت ان تینوں مقامات میں سے کسی ایک جگہ درج ہونی چاہیے تھی لیکن غازی
آباد اور نوئیڈا اترپردیش میں ہے نیز دہلی کی پولیس امیت شاہ کے تحت کام
کرتی ہے اس لیے اس سے یہ توقع نہیں تھی کہ قرار واقعی کارروائی کرے گی بلکہ
معاملہ درج بھی ہوسکے گی ۔ اس لیے چھتیس گڈھ اورراجستھان کے شہروں میں ایف
آئی آر درج کی گئی ۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ فی الحال پولیس عوام
کی محافظ نہیں بلکہ ریاستی حکومت کی ایک پرائیویٹ آرمی بن چکی ہے۔ اس کے
نزدیک نظم و نسق یا عدل و انصاف سے زیادہ اہمیت اپنے سیاسی آقاوں کی
خوشنودی کا حصول ہے ۔ روہت رنجن کے معاملے میں وقوع پذیر ہونے والے واقعات
اسی حقیقت کی شہادت دیتے ہیں ۔ اس شرمناک بات کی جانب برسوں پہلے اردو کے
مشہور شاعر آنند نرائن ملا نے الہ باد ہائی کورٹ کے جج کی حیثیت سے اپنے
فیصلے میں لکھا تھا کہ ہندوستانی پولیس مجرموں کا ایک منظم گروہ ہے ۔
ظاہرہے ہر گروہ کا ایک سردار ہوتا ہے اور یہ گینگ صوبائی وزیر اعلیٰ کی
سربراہی میں کام کرتا ہے۔
ایسے میں عدلیہ کی ذمہ داری بہت بڑھ جاتی ہے لیکن وہاں بھی سب کچھ ٹھیک
ٹھاک نہیں ہے۔ ملک کے اندر عدلیہ کی دگرگوں حالت پر تبصرہ کرتے ہوئے سپریم
کورٹ کے چیف جسٹس نے بہت صحیح کہا ہے کہ سیاسی جماعتیں عدالت کے ذریعہ اپنے
اقدامات کی حمایت چاہتی ہیں ۔ جسٹس رمنا کے مطابق عدلیہ آئین کے تئیں
جوابدہ ہیں۔ سی جے آئی کو یاددلانا پڑا کہ عدلیہ ایک آزاد ادارہ ہے جو
کسی سیاسی پارٹی یا نظریہ کے آگےنہیں بلکہ صرف آئین کوجوابدہ ہے ۔ امریکہ
کے اندر سان فرانسسکوکی ایک تقریب میں انہوں نے کہا کہ ہم ملک کی آزادی کے
75 ویں سال میں ہیں۔ ہماری جمہوریہ 72 سال کی ہو گئی ہے لیکن مجھے افسوس کے
ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہم نے ابھی تک آئین کی طرف سے ہر ادارے کو تفویض
کردہ کردار اور ذمہ داری کی مکمل تعریف نہیں سیکھی۔یہ کھلا اعتراف اگر راہل
گاندھی یا اسدالدین اویسی کرتے تو ملک کی توہین کے بہانے ہنگامہ کھڑا کردیا
جاتا لیکن سپریم کورٹ کے آگے جعلی دیش بھگت بے بس ہیں ۔ سی جے آئی نے کہا
کہ یہ عوام میں پھیلی ہوئی جہالت ہے جو ان قوتوں کی مدد کے لیے آگے آرہی
ہے جن کا مقصد واحد آزاد ادارے یعنی عدلیہ کو تباہ کرنا ہے۔ سوال یہ ہے کہ
وہ قوتیں کون سی ہیں ؟ اور وہ ایسا کیوں چاہتی ہیں ؟ ان سوالوں پر اشاروں
کنایوں کے بجائے کھل کر بحث کا ہونا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے ورنہ روہت
رنجن کے بجائے محمد زبیر جیسے بے قصور جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھیجے جاتے
رہیں گے اور ریاض انور کا یہ شعر دوہرایا جاتا رہے گا؎
عدالت سے یہاں روتا ہوا ہر مدعی نکلا
کرم فرمائی سے منصف کی ہر مجرم بری نکلا
|