اسلام؛سائنس اور ہماری غلط فہمیاں
(بلال احمد حاجی, مشہد مقدس؛ایران)
سائنس و مذہب کی بحث ہمارے لئے نئی نہیں ہاں یہ ضرو ر
ہوا ہے کہ جس طرح ہر شام کے بعد سوایرا نمودار ہوتا ہے اسی طرح لفظ ‘سائنس’
کو بنیاد بنا کر اپنی مذہبی برتری کی دوکان چمکانے والوں کے پردے ضرور فاش
ہوئے ہیں۔ کیا سائنس مذہب کے مخالف ہے؟ کیا ہمارا مذہب اسلام ہمیں سائنسی
علوم حاصل کرنے سے روکتا ہے ؟ کیا مذہبی امور یعنی قرآن و حدیث کے سنجیدہ
طالبِ علم کیلیے سائنس ایک شجرِ ممنوعہ کا درجہ رکھتی ہے؟ ہمارا آج کا
مضمون اسی بحث پر مبنی ہے۔
لفظ ‘سائنس’ دراصل لاطینی لفظ ‘سائنشیا’ سے ماخوذ ہے جسکے معنی جاننے،
تجربہ کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کے ہیں۔ سائنس کی جدید تعریف کے مطابق ”
معلومات حاصل کرنے کی غرض سے قدرتی چیزوں کا مشاہدہ کرنے اور تجربات کے
ذریعے کوئی خاص نتیجہ حاصل کرنے کا نام سائنس ہے”۔ آپ کسی بھی عام انسان سے
اگر یہ سوال کریں کہ درختوں پر آنے والا پھول کِس طرح ایک مزیدار پھل میں
تبدیل ہو جاتا ہے ، وہ جواب دے گا کہ یہ سب خدا کی قدرت ہے لیکن اسی خدا نے
جو جستجو اور تحقیق کا حکم دے رکھا ہے اس سے دامن چھڑا جائیں گے۔اسی طرح
اگر مولوی نامی شخصیت کا لبادہ اوڑھے کسی محترم کے سامنے آپ غلطی سے یہ ذکر
کر بیٹھیں کہ نباتات کے علم کو سائنس کی ایک شاخ ‘باٹنی’ کا نام دیا جاتا
ہے تو فوراً کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور “دینی” اور “دنیاوی” علوم کی نام
نہاد تقسیم پر ایک لمبا لیکچر دے ڈالیں گے۔
سائنس و مذہب کی بحث ہمارے لئے نئی نہیں ہاں یہ ضرو ر ہوا ہے کہ جس طرح ہر
شام کے بعد سوایرا نمودار ہوتا ہے اسی طرح لفظ ‘سائنس’ کو بنیاد بنا کر
اپنی مذہبی برتری کی دوکان چمکانے والوں کے پردے ضرور فاش ہوئے ہیں۔ کیا
سائنس مذہب کے مخالف ہے؟ کیا ہمارا مذہب اسلام ہمیں سائنسی علوم حاصل کرنے
سے روکتا ہے ؟ کیا مذہبی امور یعنی قرآن و حدیث کے سنجیدہ طالبِ علم کیلیے
سائنس ایک شجرِ ممنوعہ کا درجہ رکھتی ہے؟ ہمارا آج کا مضمون اسی بحث پر
مبنی ہے۔
لفظ ‘سائنس’ دراصل لاطینی لفظ ‘سائنشیا’ سے ماخوذ ہے جسکے معنی جاننے،
تجربہ کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کے ہیں۔ سائنس کی جدید تعریف کے مطابق ”
معلومات حاصل کرنے کی غرض سے قدرتی چیزوں کا مشاہدہ کرنے اور تجربات کے
ذریعے کوئی خاص نتیجہ حاصل کرنے کا نام سائنس ہے”۔ آپ کسی بھی عام انسان سے
اگر یہ سوال کریں کہ درختوں پر آنے والا پھول کِس طرح ایک مزیدار پھل میں
تبدیل ہو جاتا ہے ، وہ جواب دے گا کہ یہ سب خدا کی قدرت ہے لیکن اسی خدا نے
جو جستجو اور تحقیق کا حکم دے رکھا ہے اس سے دامن چھڑا جائیں گے۔اسی طرح
اگر مولوی نامی شخصیت کا لبادہ اوڑھے کسی محترم کے سامنے آپ غلطی سے یہ ذکر
کر بیٹھیں کہ نباتات کے علم کو سائنس کی ایک شاخ ‘باٹنی’ کا نام دیا جاتا
ہے تو فوراً کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور “دینی” اور “دنیاوی” علوم کی نام
نہاد تقسیم پر ایک لمبا لیکچر دے ڈالیں گے۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی نازل کیا اُسی میں سے پیتے ہو اور
اُسی سے درخت ہوتے ہیں جن میں چراتے ہو ۔ تمہارے واسطے اُسی سے کھیتی اورِ
زیتون اورکھجوریں اورانگور اور ہر قسم کے میوے اگاتا ہے بے شک اِس میں ان
لوگو ں کے لیے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں ۔ ( سورہ النحل آیت 10؛آیت11)
مندرجہ بالا آیات پر ذرا غور کیجئے۔ ہمارا رب ہماری توجہ کن نشانیوں کی
جانب مبذول کروانا چاہ رہا ہے ؟ اور پھر آیت نمبر 11 کے آخر پر توجہ دیجئے
” بے شک اس میں ان لوگوں کیلئے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں” ۔ان آیات پر تدبر
کرنے سے پہلے اسی سورۃ کی آیات نمبر 12 اور 13 بھی ملاحظہ کیجیے۔
” اور رات اور دن اور سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا دیا ہے اور اُسی
کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں بے شک اس میں لوگوں کے لیے
نشانیاں ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں “۔ (النحل: 12)۔
” اور تمہارے واسطے جو چیزیں زمین میں رنگ برنگ کی پھیلائی ہیں اِن میں اُن
لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سوچتے ہیں”۔(النحل- 13)۔
مندرجہ بالا آیات پر اگر تدبر کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک تین
قسم کے لوگوں سے مخاطب ہے:
1۔ جو غور کرتے ہیں
2۔جو سمجھ رکھتے ہیں
3۔ جو سوچتے ہیں
شعورِ فِکر بلاگ
”اسلام، سائنس اور ہماری غلط فہمیاں“
islam and science quran
MUHAMMAD ATEEB ASLAM سائینس 07/02/2020 0 تبصرے 496 مناظر
سائنس و مذہب کی بحث ہمارے لئے نئی نہیں ہاں یہ ضرو ر ہوا ہے کہ جس طرح ہر
شام کے بعد سوایرا نمودار ہوتا ہے اسی طرح لفظ ‘سائنس’ کو بنیاد بنا کر
اپنی مذہبی برتری کی دوکان چمکانے والوں کے پردے ضرور فاش ہوئے ہیں۔ کیا
سائنس مذہب کے مخالف ہے؟ کیا ہمارا مذہب اسلام ہمیں سائنسی علوم حاصل کرنے
سے روکتا ہے ؟ کیا مذہبی امور یعنی قرآن و حدیث کے سنجیدہ طالبِ علم کیلیے
سائنس ایک شجرِ ممنوعہ کا درجہ رکھتی ہے؟ ہمارا آج کا مضمون اسی بحث پر
مبنی ہے۔
لفظ ‘سائنس’ دراصل لاطینی لفظ ‘سائنشیا’ سے ماخوذ ہے جسکے معنی جاننے،
تجربہ کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کے ہیں۔ سائنس کی جدید تعریف کے مطابق ”
معلومات حاصل کرنے کی غرض سے قدرتی چیزوں کا مشاہدہ کرنے اور تجربات کے
ذریعے کوئی خاص نتیجہ حاصل کرنے کا نام سائنس ہے”۔ آپ کسی بھی عام انسان سے
اگر یہ سوال کریں کہ درختوں پر آنے والا پھول کِس طرح ایک مزیدار پھل میں
تبدیل ہو جاتا ہے ، وہ جواب دے گا کہ یہ سب خدا کی قدرت ہے لیکن اسی خدا نے
جو جستجو اور تحقیق کا حکم دے رکھا ہے اس سے دامن چھڑا جائیں گے۔اسی طرح
اگر مولوی نامی شخصیت کا لبادہ اوڑھے کسی محترم کے سامنے آپ غلطی سے یہ ذکر
کر بیٹھیں کہ نباتات کے علم کو سائنس کی ایک شاخ ‘باٹنی’ کا نام دیا جاتا
ہے تو فوراً کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور “دینی” اور “دنیاوی” علوم کی نام
نہاد تقسیم پر ایک لمبا لیکچر دے ڈالیں گے۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی نازل کیا اُسی میں سے پیتے ہو اور
اُسی سے درخت ہوتے ہیں جن میں چراتے ہو ۔ تمہارے واسطے اُسی سے کھیتی اورِ
زیتون اورکھجوریں اورانگور اور ہر قسم کے میوے اگاتا ہے بے شک اِس میں ان
لوگو ں کے لیے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں ۔ ( سورہ النحل-آیت 10، آیت 11) ۔
مندرجہ بالا آیات پر ذرا غور کیجئے۔ ہمارا رب ہماری توجہ کن نشانیوں کی
جانب مبذول کروانا چاہ رہا ہے ؟ اور پھر آیت نمبر 11 کے آخر پر توجہ دیجئے
” بے شک اس میں ان لوگوں کیلئے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں” ۔ان آیات پر تدبر
کرنے سے پہلے اسی سورۃ کی آیات نمبر 12 اور 13 بھی ملاحظہ کیجیے۔
” اور رات اور دن اور سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا دیا ہے اور اُسی
کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں بے شک اس میں لوگوں کے لیے
نشانیاں ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں “۔ (النحل: 12)۔
” اور تمہارے واسطے جو چیزیں زمین میں رنگ برنگ کی پھیلائی ہیں اِن میں اُن
لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سوچتے ہیں”۔(النحل- 13)۔
مندرجہ بالا آیات پر اگر تدبر کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک تین
قسم کے لوگوں سے مخاطب ہے:
1۔ جو غور کرتے ہیں
2۔جو سمجھ رکھتے ہیں
3۔ جو سوچتے ہیں
اب اگر ہم سائنس کی تعریف کچھ یوں کر دیں کہ ” قدرتی چیزوں پر غور کر نے،
اُن پر سوچ بچار کرنے اور تجربات کے ذریعے انہیں سمجھنے کا نام سائنس ہے”
تو کیا اس تعریف میں اور جو اوپر بیان کی گئی ہے، کوئی مفہوم کا فرق موجود
ہے؟ یقیناً ایک سمجھ دار کی لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ مالکَ کائنات نے
بھی جگہ جگہ ہمیں اشارے دیے تاکہ ہم اُن اشاروں اور نشانیوں کو پہچان کر
اُس مالک کی تخلیق کو جان سکیں اور اسکی ذات کی کاریگری کا اقرار کر تے
ہوئے دراصل اپنے رب کی پہچان کر سکیں۔
شعورِ فِکر بلاگ
”اسلام، سائنس اور ہماری غلط فہمیاں“
islam and science quran
MUHAMMAD ATEEB ASLAM سائینس 07/02/2020 0 تبصرے 496 مناظر
سائنس و مذہب کی بحث ہمارے لئے نئی نہیں ہاں یہ ضرو ر ہوا ہے کہ جس طرح ہر
شام کے بعد سوایرا نمودار ہوتا ہے اسی طرح لفظ ‘سائنس’ کو بنیاد بنا کر
اپنی مذہبی برتری کی دوکان چمکانے والوں کے پردے ضرور فاش ہوئے ہیں۔ کیا
سائنس مذہب کے مخالف ہے؟ کیا ہمارا مذہب اسلام ہمیں سائنسی علوم حاصل کرنے
سے روکتا ہے ؟ کیا مذہبی امور یعنی قرآن و حدیث کے سنجیدہ طالبِ علم کیلیے
سائنس ایک شجرِ ممنوعہ کا درجہ رکھتی ہے؟ ہمارا آج کا مضمون اسی بحث پر
مبنی ہے۔
لفظ ‘سائنس’ دراصل لاطینی لفظ ‘سائنشیا’ سے ماخوذ ہے جسکے معنی جاننے،
تجربہ کرنے اور نتیجہ اخذ کرنے کے ہیں۔ سائنس کی جدید تعریف کے مطابق ”
معلومات حاصل کرنے کی غرض سے قدرتی چیزوں کا مشاہدہ کرنے اور تجربات کے
ذریعے کوئی خاص نتیجہ حاصل کرنے کا نام سائنس ہے”۔ آپ کسی بھی عام انسان سے
اگر یہ سوال کریں کہ درختوں پر آنے والا پھول کِس طرح ایک مزیدار پھل میں
تبدیل ہو جاتا ہے ، وہ جواب دے گا کہ یہ سب خدا کی قدرت ہے لیکن اسی خدا نے
جو جستجو اور تحقیق کا حکم دے رکھا ہے اس سے دامن چھڑا جائیں گے۔اسی طرح
اگر مولوی نامی شخصیت کا لبادہ اوڑھے کسی محترم کے سامنے آپ غلطی سے یہ ذکر
کر بیٹھیں کہ نباتات کے علم کو سائنس کی ایک شاخ ‘باٹنی’ کا نام دیا جاتا
ہے تو فوراً کانوں کو ہاتھ لگائیں گے اور “دینی” اور “دنیاوی” علوم کی نام
نہاد تقسیم پر ایک لمبا لیکچر دے ڈالیں گے۔
قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ:
وہی ہے جس نے آسمان سے تمہارے لیے پانی نازل کیا اُسی میں سے پیتے ہو اور
اُسی سے درخت ہوتے ہیں جن میں چراتے ہو ۔ تمہارے واسطے اُسی سے کھیتی اورِ
زیتون اورکھجوریں اورانگور اور ہر قسم کے میوے اگاتا ہے بے شک اِس میں ان
لوگو ں کے لیے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں ۔ ( سورہ النحل-آیت 10، آیت 11) ۔
مندرجہ بالا آیات پر ذرا غور کیجئے۔ ہمارا رب ہماری توجہ کن نشانیوں کی
جانب مبذول کروانا چاہ رہا ہے ؟ اور پھر آیت نمبر 11 کے آخر پر توجہ دیجئے
” بے شک اس میں ان لوگوں کیلئے نشانی ہے جو غور کرتے ہیں” ۔ان آیات پر تدبر
کرنے سے پہلے اسی سورۃ کی آیات نمبر 12 اور 13 بھی ملاحظہ کیجیے۔
” اور رات اور دن اور سورج اور چاند کو تمہارے کام میں لگا دیا ہے اور اُسی
کے حکم سے ستارے بھی کام میں لگے ہوئے ہیں بے شک اس میں لوگوں کے لیے
نشانیاں ہیں جو سمجھ رکھتے ہیں “۔ (النحل: 12)۔
” اور تمہارے واسطے جو چیزیں زمین میں رنگ برنگ کی پھیلائی ہیں اِن میں اُن
لوگوں کے لیے نشانی ہے جو سوچتے ہیں”۔(النحل- 13)۔
مندرجہ بالا آیات پر اگر تدبر کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ قرآنِ پاک تین
قسم کے لوگوں سے مخاطب ہے:
1۔ جو غور کرتے ہیں
2۔جو سمجھ رکھتے ہیں
3۔ جو سوچتے ہیں
اب اگر ہم سائنس کی تعریف کچھ یوں کر دیں کہ ” قدرتی چیزوں پر غور کر نے،
اُن پر سوچ بچار کرنے اور تجربات کے ذریعے انہیں سمجھنے کا نام سائنس ہے”
تو کیا اس تعریف میں اور جو اوپر بیان کی گئی ہے، کوئی مفہوم کا فرق موجود
ہے؟ یقیناً ایک سمجھ دار کی لیے اشارہ ہی کافی ہے۔ مالکَ کائنات نے بھی جگہ
جگہ ہمیں اشارے دیے تاکہ ہم اُن اشاروں اور نشانیوں کو پہچان کر اُس مالک
کی تخلیق کو جان سکیں اور اسکی ذات کی کاریگری کا اقرار کر تے ہوئے دراصل
اپنے رب کی پہچان کر سکیں۔
مزید اگر ان قرآنی آیات کے اندازِ تخاطب پر غور کیا جائے تو احساس ہو گا کہ
قرآن نے یہ نہیں کہا کہ “نشانیاں ہیں اہلِ ایمان کیلیے” یا نشانیاں ہیں
مومنین کیلئے” ۔قرآنِ نے اہلِ سمجھ، اور اہلَ فکر کو مخاطب کیا۔ وہ اہلِ
فکر غیر مسلم بھی ہو سکتے ہیں جو تحقیق کے سفر میں ہم سے کئی گنا آگے اسی
لیے ہیں کیونکہ ہم نے سائنس کو مذہب کے منافی سمجھ لیا اور وہ انہی علوم کی
اہمیت کو جان کر ہر شعبہ علم و فن میں اپنے نام کے جھنڈے گاڑ رہے ہیں۔
ڈاکٹر غلام جیلانی برق برِصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں ایک عظیم دانشور اور
ریسرچ سکالر گزرے ہیں۔ انہوں نے قیامِ پاکستان کے دو سال بعد 1949ء میں ”
دو اسلام” کے نام سےمسلمانوں کے نظریاتی ، علمی اور سائنسی زوال پر معرکۃ
الآراء کتاب لکھی ، اس کتاب کے ابتدائیہ میں سے چند سطور یہاں پیش کر رہا
ہوں۔
زمانہ گزرتا گیا، انگریزی پڑھنے کے بعد علومِ جدید کا مطالعہ کیا، قلب و
نظرمیں وسعت پیدا ہوئی ، اقوام و ملک کی تاریخ پڑھی تو معلوم ہوا۔ مسلمانوں
کی 128 سلطنتیں مٹ چکی ہیں، حیرت ہوئی کہ جب اللہ ہماراتھا تو اس نے خلافتِ
عباسیہ کا وارث ہلاکو جیسےکافر کو کیوں بنایا؟
مغلیہ سلطنت کا تاج الزبتھ کے سر پر کیوں رکھ دیا؟
اور تیونس، مراکو، الجزائراور لیبیا سے ہم مسلمانوں کو کیوں رخصت کیا؟
میں نے قرآن میں جا بجا یہ لکھا دیکھا۔۔۔ یہ دنیا دارالعمل ہے، یہاں صرف
عمل سے بیڑے پار ہوتے ہیں اور ہر عمل کی جزا و سزا مقرر ہے ۔۔۔ “انسان
کیلئے وہی کچھ ہے جسکی وہ کوشش کرتا ہے” ( القرآن)۔ میں نے کہیں بھی زبانی
خوشامدکا اجر زمرد، محلات اور حوروں کی شکل میں نہ پایا،، بلکہ میرے کانوں
نے تلواروں کی جھنکار سنی، غازیوں کے جھرمٹ دیکھےاور وہ دیوانے دیکھے جو
عزم و ہمت کا علم ہاتھ میں لیےمعانی حیات کی جانب بڑھ رہے تھے۔۔۔۔
قرآن مجید کے مطالعے کے بعد مجھے یقین ہو گیا کہ مسلمان ہر جگہ محض اس وجہ
سے پیچھے ہیں اور ذلیل ہو رہے ہیں کیونکہ اس نے قرآن کے عمل، ہیبت اور محنت
والے اسلام کو ترک کر دیا ہے۔۔۔۔ اور اسکی زندگی کا سارا سرمایہ محض چند
دعائیں اور چند تعویذ ہیں اور بس۔ اس دن مجھے یقین ہوگیا کہ اسلام دو ہیں:
ایک قرآن کا اسلام جس کی طرف اللہ بلا رہا ہے
دوسرا وہ اسلام جس کی تبلیغ ہمارے اسی لاکھ مُلا قلم اور پھپھڑوں کاسارا
زور لگا کر کر رہے ہیں۔۔۔” ۔
اپنی علمی کمتری کو مذہب کے لبادے میں چھپا کر ناحق ہماری قوم میں سائنس کو
“کافر کا علم ” کہہ کر پرچار کیا جا رہا ہے۔ آپ تحقیق اور جستجو کے میدان
میں ہماری بے رغبتی کا اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ پاکستان میں شائد ہی
کوئی سنجیدہ تحقیق کا ادارہ موجود ہو جہاں صیحیح معنوں میں طلباء کو تحقیق
سے روشناس کروایا جاتا ہو۔ آپ ہمارے ڈگری یافتہ نوجوانوں کی ذہنی صلاحیت کا
اندازہ اس بات سے لگا لیں کہ دنیا ٹیکنالوجی میں نت نئے تجربات کر رہی ہے
اور ہم آلو میں اللہ کا نام تلاش کر رہے ہیں۔ معجزات سے انکار نہیں، لیکن
میری مُلائوں سے گزارش ہے کہ خدارا میری قوم کو عمل، جستجو، تحقیق اور تدبر
والا اسلام سِکھائیں، آج کا نوجوان سائنس میں ، ٹیکنالوجی میں دلچسپی رکھتا
ہے تو اسے سکھایا جا ئے کہ کس طرح اسلام سائنسی علوم اور جستجو کو ابھارتا
ہے، انہیں قرآنی اشاروں پر تحقیق کی جانب مائل کریں،اپنے جمعہ کے خطبات میں
نامور اسلامی شخصیات، سائنسدانوں اور فلاسفرز کا ذکر کریں تاکہ ان میں تدبر
اور غورو فکر کرنے کی عادت پیدا ہو سکے اور یہی سوال اقبال بھی نوجوانوں سے
کرتے نظر آتے ہیں کہ:
کبھی اے نوجواں مسلم! تدبر بھی کیا تو نے؟
وہ کیا گردُوں تھا تو جس کا ہے اِک ٹوٹا ہوا تارا
|
|