عشرہ محرم الحرام قرآن و حدیث کی روشنی میں

اﷲ سبحانہ وتعالیٰ کا ارشاد ہے اِنَّ عِدَّۃَ الشُّہُوْرِ عِنْدَ اللّٰہ اثْنَا عَشَرَ شَہْراً فِیْ کِتَابِ اللّٰہِ یَوْمَ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالاَرْضَ مِنْہَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌ۔اﷲ کے نزدیک مہینے گنتی میں بارہ ہیں، اس روز سے کہ اس نے آسمانوں او رزمین کو پیدا کیا۔ اﷲ کی کتاب میں سال کے بارہ مہینے لکھے ہوئے ہیں، ان میں سے چار مہینے ادب کے ہیں۔ (سورہ التوبہ: 36)

ادب واحترام والے مہینے
یہ جو ارشاد فرمایا گیامِنْہَا اَرْبَعَۃٌ حُرُمٌان بارہ مہینوں میں سے چار مہینے حرمت والے (ادب کے) ہیں، ان کو حرمت والا دو معنی کے اعتبار سے کہا گیا، ایک تو اس لیے کہ ان میں قتل وقتال حرام ہے، دوسرے اس لیے کہ یہ مہینے متبرک اور واجب الاحترام ہیں، ان میں عبادات کا ثواب (دیگر ایام کے بالمقابل) زیادہ ملتا ہے۔ ان میں سے پہلا حکم تو شریعت اسلام میں منسوخ ہوگیا، مگر دوسرا حکم احترام وادب اور ان میں عبادت گزاری کا (خصوصی) اہتمام، اسلام میں بھی باقی ہے،حجۃ الوداع کے خطبہ یوم النحر میں رسولِ کریمﷺ نے ان مہینوں کی تشریح یہ فرمائی کہ تین مہینے (تو) مسلسل ہیں، ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور ایک مہینہ رجب کا ہے (معارف القرآن:372/4)

چار مہینوں کی عبادت کا ثواب
تمام انبیاء علیہم السلام کی شریعتیں اس پر متفق ہیں کہ ان چار مہینوں ذی القعدہ، ذی الحجہ، محرم الحرام اور رجب میں ہر عبادت کا ثواب اور دنوں سے زیادہ ہوتا ہے اور ان میں اگر کوئی گناہ کرے، تو اس کا وبال اور عذاب بھی زیادہ ہے (معارف القران: 370/4)امام جصاصؒ نے احکام القران میں فرمایا:اس میں اشارہ اس بات کی طرف ہے کہ ان متبرک مہینوں کا خاصہ یہ ہے کہ ان میں جو شخص کوئی عبادت کرتا ہے، اس کو بقیہ مہینوں میں بھی عبادت کی توفیق اور ہمت ہوتی ہے، اسی طرح جو شخص کوشش کرکے ان مہینوں میں اپنے آپ کو گناہوں اور برے کاموں سے بچالے، توسال کے باقی مہینوں میں اس کو ان برائیوں سے بچنا آسان ہوجاتا ہے اسلئے ان مہینوں سے فائدہ نہ اٹھانا ایک عظیم نقصان ہے (معارف القرآن372-373/4 ، احکام القرآن163/3)

ماہِ محرم کے پہلے عشرہ کی فضیلت
علامہ ابن رجبؒ فرماتے ہیں ہمارے اسلاف تین عشروں کی بہت عظمت ولحاظ کرتے تھے، ایک رمضان المبارک کا آخری عشرہ، دوسرا ذی الحجہ کا پہلا عشرہ اور تیسرا محرم الحرام کا پہلا عشرہ۔نیز فرماتے ہیں: بعض نے کہا ہے کہ اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے تیس دن کے بعد چالیس دن کی تکمیل کے لیے جن دس دنوں کا اضافہ کیا تھا، وہ یہی محرم الحرام کے دس دن تھے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کو دس محرم الحرام کے دن باری تعالیٰ سے ہم کلام ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ آگے فرماتے ہیں: رسول اﷲ ﷺ نے محرم الحرام کی نسبت اﷲ تعالیٰ کی طرف فرمائی، اس کے شرف اور خصوصی فضیلت پر دال ہے، کیوں کہ اﷲ تعالیٰ اپنی خصوصی مخلوق کی نسبت ہی اپنی طرف فرماتا ہے۔(لطائف المعارف80-81)

محرم میں تقریبات کا حکم
بعض لوگ محرم الحرام میں نکاح کو معیوب سمجھتے ہیں، لیکن یہ خیال درست نہیں ہے۔ حضور ﷺ کا اپنا نکاح حضرت خدیجہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ محرم میں ہوا اور اسی طرح حضرت علی رضی اﷲ عنہ کا نکاح حضرت فاطمہ رضی اﷲ عنہا کے ساتھ محرم ہی میں ہوا۔ (اشرف الفتاویٰ45/1)

ماہ محرم میں روزہ کی فضیلت
رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا رمضان کے بعد افضل ترین روزے اﷲ تعالیٰ کے مہینے ’’محرم‘‘ کے ہیں(رواہ مسلم: 1163، واللفظ لہ، وابوداؤ:2429، والترمذی: 740) نعمان بن سعد حضرت علی رضی اﷲ عنہ سے نقل کرتے ہیں کہ کسی نے ان سے پوچھا کہ آپؓ رمضان کے علاوہ مجھے کس مہینہ میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: میں نے اس کے متعلق ایک آدمی کو رسول اﷲﷺ سے سوال کرتے ہوئے سنا، میں اس وقت آپﷺ کی خدمت میں حاضر تھا، اس نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسولﷺ! آپ مجھے رمضان کے علاوہ کون سے مہینے میں روزے رکھنے کا حکم فرماتے ہیں؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: اگر تم رمضان کے بعد روزہ رکھنا چاہو تو محرم کے روزے رکھا کرو، کیونکہ یہ اﷲ کا مہینہ ہے، اس میں ایک ایسا دن ہے جس میں اﷲ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی تھی اور اسی دن دوسری قوم کی توبہ قبول کرے گا (ترمذی:741)ایک روایت میں ہے کہ جس نے محرم الحرام کے مہینہ میں ایک دن کا روزہ رکھا، اس کو ہر ایک روزہ کا ثواب، تیس دنوں کے روزوں کے ثواب کے بقدر دیا جائے گا (الترغیب والترہیب للمنذری: 1503 )

عاشورہ کا پسِ منظر
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں قریش زمانہ جاہلیت میں عاشورہ کا روزہ رکھتے تھے، پھر رسول اﷲﷺ نے بھی اس دن روزہ رکھنے کا حکم دیا، تا آنکہ رمضان کے روزے فرض ہوگئے تو یوم عاشورہ کے روزے کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اب جس کا جی چاہے یومِ عاشورا کا روزہ رکھے اور جس کا جی چاہے نہ رکھے(بخاری:1893 مسلم 1125)حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ نے فرمایا: نبی کریمﷺ مدینہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا، تو آپﷺ نے ان سے اس کا سبب دریافت کیا، تو انہوں نے بتایا کہ یہ ایک نیک اور اچھا دن ہے، اسی دن اﷲ تعالیٰ نے بنی اسرائیل کو ان کے دشمن یعنی فرعون سے نجات دی تھی، اسی لیے موسیٰ علیہ السلام نے اس دن کا روزہ رکھا تھا، رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: پھر ہم موسیٰ سے تمہاری بہ نسبت زیادہ قریب ہیں اور اس کے تم سے زیادہ مستحق ہیں، چنانچہ آپ نے اس دن روزہ رکھا اور صحابہ کو بھی اس کا حکم دیا (بخاری : 2004، مسلم:1130)اس سے قبل حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی ایک روایت گزر چکی کہ مشرکینِ قریش زمانہ جاہلیت ہی سے اس دن روزہ رکھتے تھے، غالباً یہ کسی نبی اﷲ کی باقیات میں سے ہوگا، اور رسول اﷲﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے انصار کو بھی اس کا حکم دیا تھا،روایتوں میں یہ بھی ہے کہ عیسائی بھی اس دن روزہ رکھتے تھے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ گزشتہ شریعتوں میں اس دن کا روزہ مشروع تھا (تفہیم البخاری780/1)

عاشورہ کے روزہ کی فضیلت واحکام
حضورﷺ سے عاشورا کے روزے کے متعلق دریافت کیا گیا ، تو آپ نے ارشاد فرمایا: عاشورا کا روزہ، گزشتہ ایک سال کے گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے(مسلم:1162، ابو داؤد:2425)حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے: جب آنحضرت ﷺ نے یومِ عاشوراء میں روزہ رکھنے کو اپنا اصول ومعمول بنایا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا، تو بعض صحابہ نے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! اس دن کو تو یہود ونصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (گویا یہ ان کا قومی ومذہبی شعار ہے) اور خاص اس دن ہمارے روزہ رکھنے سے ان کے ساتھ اشتراک اور تشابہ ہوتا ہے، تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے، جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات باقی نہ رہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا: انشاء اﷲ جب آئندہ سال آئے گا تو ہم نویں محرم کو بھی روزہ رکھیں گے،حضرت عبداﷲ بن عباس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ لیکن آئندہ سال ماہ محرم آنے سے قبل ہی رسول اﷲﷺ وفات پاگئے (مسلم:132، ابن ماجہ: 1736)اسی لیے فقہاء کرام نے لکھا ہے کہ محرم کی دسویں تاریخ کا روزہ اور اس کے ساتھ ایک دن پہلے یا بعد یعنی نویں یا گیارہویں تاریخ کا روزہ رکھنا مستحب ہے، اور صرف عاشورا کا روزہ رکھنا مکروہِ تنزیہی ہے، اسلئے کہ اس میں یہود کی مشابہت ہے ( شامی :302/3 وانظر نصب الرایہ: 2/456)البتہ حضرت مولانا محمد منظور نعمانیؒ فرماتے ہیں کہ: ہمارے زمانہ میں چونکہ یہود ونصاریٰ وغیرہ یومِ عاشوراء کا روزہ نہیں رکھتے، بلکہ ان کا کوئی کام بھی قمری مہینوں کے حساب سے نہیں ہوتا، اس لیے اب کسی اشتراک اور تشابہ کا سوال ہی نہیں، لہٰذا فی زماننا رفعِ تشابہ کے لیے نویں یا گیارہویں کے روزہ رکھنے کی ضرورت نہ ہونی چاہیے۔ (معارف الحدیث: 387/4)یہ بھی خیال رہے کہ ان روایات میں جن گناہوں کی معافی کا ارشاد اور وعدہ ہے اس سے مراد صغائر ہیں، باقی کبیرہ گناہوں کی معافی کی بھی امید رکھنی چاہیے، مگر ان احادیث کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ ان کے بھروسہ پر گناہ کرنے لگے۔ بلکہ گناہوں پر نادم ہو اور پاکباز رہنے کی کوشش کرتا رہے، تو یہ چیزیں انشاء اﷲ مددگار ثابت ہوں گی۔

عاشورہ کے دن اہل وعیال پر وسعت
رسول اﷲﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص عاشورا کے دن اپنے اہل وعیال پر رزق میں وسعت کرے، اﷲ سبحانہ وتعالیٰ پورے سال اس کے رزق میں برکت ووسعت فرمائیں گے۔(شعب الایمان:3795)

یومِ عاشورہ پر مسلمان کیا کریں؟
عاشورہ کہ موقع سے لوگوں نے بہت سی واہی تباہیں باتیں ایجاد کر رکھی ہیں،علامہ ابن تیمیہؒ ان کے متعلق فرماتے ہیں اس سلسلہ میں نہ حضرت نبی کریمﷺ سے کوئی صحیح حدیث وارد ہوئی ہے اور نہ کسی صحابی سے کوئی اثر، اسے ائمہ مسلمین، بشمول ائمہ اربعہؒ و غیرہم نے مستحب گردانا ہے اور نہ کسی مستند کتاب میں اس کا تذکرہ منقول ہے،حضرت نبی کریمﷺ، صحابہ کرامؓ اور تابعین عظامؒ سے اس کے متعلق کوئی روایت نہیں، نہ صحیح، نہ ضعیف، نہ کتب صحاح میں اس کا ذکر ہے اور نہ کتب سنن میں اور خیر القرون سے بھی ایسی کوئی روایت معلوم نہیں ہوتی جن میں ان کا تذکرہ ہو (مجموع الفتاویٰ: 299/25)
 
Salman Usmani
About the Author: Salman Usmani Read More Articles by Salman Usmani: 182 Articles with 159601 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.