اگر سیاست کی بات کی جائے تو اسلام کا سیاست سے گہرا تعلق
ہے۔سیاست اور اسلام کا تعلق اس طرح سے ہے جیسے دل اور خون کا تعلق ہے۔اگر
دل میں خون کی رسائی رک جائے تو دل بند ہو جاتا ہے اسی طریقے سے اگر سیاست
میں اسلام کے احکام کو لاگو نہ کیا جائے تو سیاست بھی مر جاتی ہے۔ہمارے
نزدیک مرنے کا مطلب وجود کا ختم ہو جانا ہے۔اگر سیاست کی مرنے کی بات کی
جائے جو اب سیاست کی جا رہی ہے، وہ انگریزوں کے چمچوں اور منافقوں کی
جائے۔اگر پاکستان کو سیاسی بحران سے نکالنا چاہتے ہیں اور دوبارہ کامیابیوں
کی طرف لے کے جانا چاہتے ہیں تو پھر پاکستان کی سیاست کو دوبارہ اسلام
کیاحکام کی طرف لوٹنا ہو گا۔
1400 سال قبل حضور سید المرسلین خاتم النبیین صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم نے
سیاسی نرسری کی بنیاد رکھی ، تمام حاکمان وقت کو درسِ سیاست سے روشناس
کروایا۔ حضور نبی کریم ا کے صحابہ کرام ص نے بھی سیاسی فیصلوں سے امت مسلمہ
پر واضح کر دیا کہ اگر مسلمان سرزمین پر ہمیشہ کامیاب ہونا چاہتے ہیں تو
انھیں اسلامی احکام پر عمل کرنا ضروری ہے۔خلیفہ اول سراپا صدق حضرت ابوبکر
صدیق ص بے مثال حکمران تھے۔ نور مجسم خاتم النبیین صلی ﷲ علیہ وآلہ وسلم کے
وصال ظاہری پر کچھ لوگ اسلام کے بعض احکام کے منکر اور مرتد ہوگئے تھے اور
کچھ لوگوں نے کہا کہ زکوٰۃ نھیں دیں گے اس کی فرضیت نص قطعی سے ثابت
نھیں۔حضرت ابوبکر صدیق رضی ﷲ تعالیٰ عنہ نے ان سے جہاد کا ارادہ فرمایاتو
حضرت عمر رضی ﷲ تعالیٰ عنہ اور دوسرے صحابہ کرام نے آپ ؓ سے کہا کہ اس وقت
منکرین زکوٰۃ سے جنگ کرنا مناسب نھیں۔فرمایا! خدائے ذوالجلال کی قسم! اگر
وہ لوگ ایک رسی یا بکری کا ایک بچہ بھی حضور ا کے زمانے میں زکوٰۃ دیا کرتے
تو اب اس کے دینے سے انکار کریں گے تو میں ان سے جنگ کروں گا۔زکوٰۃ کا
انکار کرنے والوں سے حضرت ابوبکر صدیق ص کے جہاد کے نتیجے میں حضرت صدر
الافضل ؒ تحریر فرماتے ہیں! کہ یہاں سے مسلمانوں کو سبق لینا چاہیے کہ ہر
حالت میں حق کی حمایت اور نا حق کی مخالفت ضروری ہے اور جو قوم ناحق کی
مخالفت میں سستی کرے گی وہ جلد تباہ ہو جائے گی ۔
دور حاضر کی سیاست میں حق کو بیان کرنا ہی سب سے بڑا جرم ہے۔آج حق کو بیان
کرنے والوں کو مٹانے کی کوشش کی جاتی ہے کیوں کہ جب حق واضح ہو تا ہے تو
سیاہ اور سفید میں فرق نظر آنے لگتا ہے۔ آج کی سیاست میں باطل ہے۔عہد حاضر
کے سیاستدان ،سیاست کا سبق تاریخ اسلام سے لینے کے بجائے انگریزوں کی
کتابوں سے لیتے ہیں۔اسی لیے آج ہمارے ملک میں غریب کو انصاف ملنا ایسا ہے
کہ جیسے لسی کو دودھ بنانا۔جیسے یہ ناممکن ہے اسی طرح ہمارے ملک میں غریب
کو انصاف ملنا نھیں۔پہلے مسلمان دوسرے مسلمان کی عزت کے محافظ تھے لیکن آج
ایک دوسرے کو رسوا کرنے کے لئے ہر حد سے گزر جاتے ہیں۔آج عدالتوں میں انصاف
کا ترازو اٹھ چکا ہے۔آج ہر کوئی اپنا سکہ منوانا چاہتا ہے۔سکہ منانے والوں
کو یہ بھی نھیں معلوم کہ وہ کھرا یا کھوٹا۔ اب ہمیں کھرا اور کھوٹا میں
پہچان سیکھنی ہوگی۔کھرا وہی ہوگا کہ جو سیاست ،حق کے ساتھ کرے گا۔جو ناحق
بات کے ساتھ کرے گا وہ کھوٹا ہی ہوگا۔آج اس قوم کو اپنے اندر شعور بیدار
کرنے کی ضرورت ہے۔ آج پاکستان کا کوئی بھی ادارہ انصاف کے ترازو میں فیصلہ
نھیں کرتا۔ انصاف کرنے کے لیے انصاف کی بصیرت کا ہونا ضروری ہے۔ اگر یہ قوم
چاہتی ہے کہ دوبارہ ہم پوری دنیا میں حکومت کریں اور انصاف کا بول بالا ہو
اور مسلمانوں کی ہر طرف عزت ہو تو پھر انھیں اسلام اور حق کی پہچان کرنی ہو
گی۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان ہونے کے باوجود بھی ہمارے ملک پاکستان میں
اسلام کی بات کرنے والوں کو خاموش کروا دیا جاتا ہے۔
اﷲ تعالیٰ سورہ الصف میں میں فرماتا ہے کہ: نَنَصْرٌ مِّن اللَّہِ وَفَتْحٌ
قَرِیبٌ (اﷲ کی مدد اور جلد فتح یابی ہے، ایمان والوں کو خوشخبری دے دو ۔)
اور میرے رب کا وعدہ ہے کہ جو ایمان کے ساتھ کھڑے ہیں کہ ان کے لئے مدد اور
فتح قریب ہے۔اگر آج بھی امت مسلمہ ایمان کے ساتھ کھڑی ہو جائے اور کافروں
کے نظر میں نظر ڈال کے حق بات بیان کرنے لگے ۔ہمیں اﷲ پر یقین ہے کہ انشاء
اﷲ وہ وقت دور نھیں جب پوری امت مسلمہ دوبارہ یکجا ہو جائے گی۔
اقبال نے کیا خوب کہا ہے
درا اور سکندر سے وہ مرد فقیر اولیٰ
ہو جس کی فقیری میں بوئے اسد اﷲی
دور حاضر میں امت مسلمہ کو یکجا کرنے والی ایک ہی جماعت ہے اور تحریک لبیک
پاکستان ہے جو حق بیان کرنے کے ساتھ ساتھ امت مسلمہ کو ایک میدان یکجا بھی
کرے گی۔اﷲ تعالیٰ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلامی احکام کا نفاذ کرنے
والی تحریک لبیک پاکستان کو فتح نصیب فرمائے۔آمین ثم آمین۔
سیدہ خیر النساء ہمدانیہ
|