مہاراشٹر میں بالواسطہ مرکز کی حکمرانی!

مہاراشٹر میں شیوسینا میں وزیراعلی ایکناتھ شندے کی ایک بڑی بغاوت کے بعدگورنربھگت سنگھ کوشیاری کی "چھتر چھایا" میں بی جےپی کی حمایت سے حکومت تشکیل دی گئی تویہ محسوس ہورہا تھاکہ بی جے پی کے تجربہ کار نائب وزیراعلی دیویندر فڈنویس کی مدد سے شندے جلد ہی مضبوطی سے اپنی کابینہ بنالیں گے ،لیکن ایسا نہیں ہوا،دراصل انہیں فڈنویس نے ہائی کمان کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے اوردل پر پتھر رکھ کر شندے کو وزارت اعلیٰ کی کرسی 'طشتری میں سجا کر' پیش کردی گئی۔جوکہ انہیں سنبھالنا مشکل لگ رہاہے،اگر فڈنویس دلچسپی نہ لیں تو مشکل امر ہے۔دل پر پتھر کی بات ریاستی بی جے پی صدر چندر کانت پاٹل بھی کرچکے ہیں۔

ریاست میں شیوسینا میں بغاوت کے نتیجے میں ادھو ٹھاکرے کی قیادت میں مہاراشٹر وکاس اگھاڑی (ایم وی اے )کی حکومت کا ختم کیا گیا،اس کے کئی اسباب رہے ہیں۔اور اسے بی جے پی انتقامی کارروائی بھی کیاجارہا ہے۔جبکہ کئی طرح کی مہربانیوں کے حاصل ہوتے آئین اور اصولوں کو بالائے طاق رکھ کر بی جے پی نے باغیوں کی مدد سے حکومت قائم کردی ،اس عرصے میں کیا کچھ پیش آیا ہر کوئی مہاراشٹرین لاعلم نہیں ہے۔اس اہم ترین میں معاملے میں سپریم کورٹ نے کوئی خاص دلچسپی نہیں دکھائی یا پھونک پھونک کر قدم رکھا۔ویسے عزت مآب محترم گورنر بھگت سنگھ کوشیاری نے یہ بتانے کی زحمت نہیں کی کہ باغی شیوسینک ایکناتھ شندے نے کتنے اراکین اسمبلی کی فہرست پیش کی ہے اور بی جے پی نے اُن کے حق میں جو مکتوب پیش کیا ہے،اُس کامتن کیا ہے۔

شندے گروپ نے ممبئی سے صورت اور پھر آسام اور گواتک یہی دعوی کیا کہ شیوسیناکے اراکین اسمبلی کی اکثریت نے اُن حمایت کی یے۔

شندے نے مذکورہ اراکین یا باغیوں سمیت آزاد اراکین کو ذرائع ابلاغ کے سامنے پیش نہیں کیا ،اسی چیز نے اُن کے دعوے کو کھوکھلا ثابت کردیا ہے ۔اب تک بلند وبالا دعوے کیے جارہے ہیں،لیکن سچائی کودبا کر رکھا گیا ہے۔اتنا ضرورکہہ سکتے ہیں کہ یہ باغی لوٹ کر گھر نہیں آئے ہیں اور شیوسینا سربراہ ادھو ٹھاکرے اور اُن کے صاحبزادے اُمید لگائے ہوئے ہیں اور اس کا بھی پتہ نہیں کہ وقت کب بدل جائے۔البتہ ریاستی گورنر مطمئن نظر آتے ہیں کیونکہ ایک ماہ گزر جانے کے بعد بھی دونوں لیڈروں کے بالترتیب وزیراعلی اور نائب وزیراعلی حلف لینے کے بعد تیسرے فرد کو کابینہ میں شامل نہیں کیا گیا ہے۔دہلی اور ممبئی گھر آنگن ہوچکا ہے اور ایک زمانے میں اپوزیشن اور میڈیا ہائی کمان کی دخل اندازی کے لیے کانگریس پارٹی کو کوستے تھے ،بالکل مہاراشٹر میں یہی عالم ہے ،لیکن سبھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔کل پرسوں دہلی کا پانچواں اور چھٹا چکر لگ چکا ہے ،ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایک مہینے پہلے بھی اور پھر ایک بار پانی کی طرح بہایا جارہا ہے۔دراصل ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنہوں نے برسوں کی وفاداری کو چھوڑ کر شندے اور بی جے پی کو اپنایا،انہیں کابینہ میں کچھ نہ کچھ ضرور چاہیے ۔یہی وجہ ہوسکتی ہے کہ وزیراعلی شندے کو اپنی کابینہ کی تشکیل میں دشواری پیش آ رہی ہو۔

ریاستی کابینہ میں دیر سویر سے کہیں بی جے پی اور باغی شیوسینکوں کی حکومت پٹری سے نہیں اتر جائے ،لیکن اس بات کا بھی امکان ہے کہ مہاراشٹر میں حکومت کی تشکیل اور اصل شیوسینا کے بارے میں عدالتوں اور الیکشن کمیشن کے روبرو دونوں گروہوں کی درخواستیں پہنچی ہیں اور جبکہ سیاسی طورپر بھی سرگرمیاں جاری ہیں،سنگھ پریوار کی کوشش ہے کہ ادھو ٹھاکرے کو منا لیا جائے ،لیکن فی الحال تصویر صاف نہیں ہے۔پھر اراکین کی بے چینی کو کم کرنے کے لیے بھی تاخیر کرنا مقصد میں شامل ہو۔

حقیقت یہ ہے کہ حکومت بچانے اور ٹھوس اقدام کرنے کے چکر میں عوامی ناراضگی نہ۔مول لینا۔پڑے کیونکہ حال میں طوفانی بارشوں نے مراٹھواڑ اور ودربھ جیسے علاقوں میں تباہی مچائی ہے اورعام آدمی اور خصوصاً کسان بے حال ہے۔ایک اکیلا وزیراعلی کیا بھاڑ جھونکے گا،ویسے اس میں ضد کا عنصر بھی کارفرما ہے ،ورنہ کم از کم بی جے پی کے سنئیر لیڈروں کی حلف برداری کرائی جاسکتی تھی ،لیکن یہ ممکن نہیں ہوسکااوربی جے پی سوادوسال کا عرصہ مستحکم رہ کر گزار چاہتی ہے ،اُس نے پہلے بلدیاتی انتخابات اور پھر 2024 کے لوک سبھا الیکشن پر نظررکھی ہوئی ہے۔ سارے اپیسوڈ میں وزیراعظم اور وزیر داخلہ کا ' آشیرواد' جو شامل ہے ،بلکہ امت شاہ تو اس کے ستر دھار کہے جاتے ہیں ،پہلے بھی ایم پی اورکرناٹک میں اس طرح کھیلا کھیل چکے ہیں اور بی جے پی لیڈر اور اداکار متھن چکرورتی بھی مغربی بنگال میں یہی کھیل کھیلنے والے ہیں۔اس کا اشارہ دیا جاچکا ہے۔

فی الحال مہاراشٹر کی ہی بات کرتے ہیں ،یہاں تمام کاروبار د پڑا ہے اور منترالیہ میں انتظامی امور اور دیگر سرگرمیاں صفر نظرآرہی ہیں ،اگر جلد ہی کچھ نہیں کسی گیا تو مزید ایک اور بغاوت کے ساتھ ساتھ عوامی ناراضگی کا سامنا کرناپڑسکتا ہے۔لیکن مرکز کو یہاں اپنی بالادستی برقرار رکھنی ہے اور یہ کہنے میں کوئی جھجھک نہیں ہے کہ مہاراشٹر پربالواسطہ مرکزی حکومت کی حکمرانی ہے۔

Javed Jamaluddin Javed
About the Author: Javed Jamaluddin Javed Read More Articles by Javed Jamaluddin Javed: 53 Articles with 39952 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.