اصولی بات یہی ہے کہ عوام کے
ووٹوں سے جو حکومت بھی معرض ِ وجود میں آئے ، وہ اپنی آئینی مدت پوری کرے،
کیونکہ عوام سے ووٹ لیتے وقت یہ بات ہر کسی کے پیش نظر ہوتی ہے کہ جو لوگ
منتخب ہونگے وہ حکومت بنائیں گے ، اور وہ حکومت پانچ سال کے لئے ہوگی۔بد
قسمتی سے پاکستان میں اب تک صرف دو اسمبلیوں کو اپنی مدت پوری کرنے کا موقع
میسر آیا ہے، ایک جمہوری دور تھا اوردوسرا آمریت کا زمانہ، ورنہ دیگر
اسمبلیوں کو تو ڈیڑھ سے تین سال کی مدت کے اندر ہی اندر اپنے مفادات اور
ذاتی مخالفت کی بھینٹ چڑھا دیا گیااورانہیں مختلف الزامات لگا کر رخصت
کردیا گیا۔
قوم نے موجودہ حکمرانوں کو بھی مینڈیٹ دیا ہے کہ وہ اپنا حق حکمرانی
اداکریں، ملک و قوم کی فلاح کے لئے اپنی بہترین صلاحیتیں بروئے کا
رلائیں،اور ملک کو خوشحالی کی راہ پر لے چلیں، ان کو موقع دیا گیا ہے کہ وہ
اپنے منشور کی روشنی میں عوام کی بنیادی ضرورتوں کا خیال رکھیں، ان کی
تعلیم اور صحت کے بہترین مواقع فراہم کریں،عوام کے مال و جان کی حفاظت کی
ذمہ داری نبھائیں،ان کو اختیار دیا گیا ہے کہ وہ ایسی منصوبہ بندی کریں جس
کی بنیا دپر ملک آنے والے سالوں میں ایک ترقی یافتہ ریاست بن کر سامنے آئے۔
گزشتہ الیکشن میں عوام نے بہرحال ان جماعتوں کے امیدواروں کو ووٹ کے اعتماد
سے نوازا تھا جو اس وقت حکومتی اتحاد میں شامل ہیں، لیکن ملک میں جو حالات
اب پیدا ہوچکے ہیں، ان کی مثال اس سے قبل کے ادوار میں شاید نہ ملے۔ تقریباً
ساڑھے تین سال کے عرصہ میں حکومتی سطح سے ایسا کوئی اقدام نظر نہیں آیا جو
بجلی کی لوڈشیڈنگ میں کمی کا باعث ہو، گویا حکومت نے اتنے بڑے بحران کے
بارے میں بھی شاید کبھی سنجیدگی سے غور نہیں کیا، کیونکہ حکمرانوں کو احساس
ہی نہیں کہ عوام لوڈشیڈنگ کے عذاب سے کس طرح نبرد آزما ہورہے ہیں، اس کی
وجہ سے انہیں کن کن مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، کیونکہ خود ان کے عشرت
کدے لوڈشیڈنگ نامی بلائے ناگہانی سے محفوظ ہیں۔
مہنگائی کا عالم یہ ہوگیا ہے کہ اب رمضان المبارک میں اگر کوئی اپنے بچوں
کے دباؤ میں آکر پھل خریدنے بھی چلا جائے تو اول تو خالی ہی واپس آجائے گا
یا پھر ایک آدھ سیب،چند دانے انگور دو تین امرود اور اسی طرح دیگر پھلوںمیں
سے بھی خوشہ چینی کرتا،آدھا کلو پھل شاپر میں ڈالتا ،سر جھکاتا،نظریں چراتا
گھر پہنچ جائے گا،جہاں فروٹ چاٹ کا ذائقہ تبدیل کرنے اور اس میں حقیقت کا
رنگ بھرنے کے لئے اس کے پاس وافر پھل ہوتا ہے، آدھا پاؤ کھجور لاکر بھی اسے
اونچی جگہ پر رکھا جاتا ہے ، کیونکہ فی زمانہ ایسی چیزیں بچوں کی پہنچ سے
دور ہی رہنی چاہیئں۔
بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے علاوہ ان کی قیمتوں میں اضافہ اب روز کا معمول
بن گیا ہے، عوام کو یہ چیزیں تو نہیں ملتیں ، لیکن ان کے بھاری بل مل جاتے
ہیں، ایک بل ادا نہ کرسکنے کے بعد دوسرے بل کے موقع پر میٹر کاٹ دیا جاتا
ہے، جبکہ وزیر اعظم سے لے کر بہت سے سرکاری ادارے واپڈا کے کروڑوں کے مقروض
ہیں، نہ ان کے کوئی میٹر کاٹتا ہے ، نہ انہیں ریکوری کے سلسلہ میں جیل کی
ہوا کھانی پڑتی ہے۔پٹرول کی قیمتوں کا جن حکومت کے بس سے بھی نکل چکا ہے،
ڈیزل پٹرول سے بھی بازی لے گیا ، اب حکومت سی این جی گیس کے پیچھے پڑی ہے،
اس کی پوری کوشش ہے کہ گیس کی قیمت بھی پٹرول کے برابر آجائے، امید ہے
حکومت اس معاملہ میںضرور کامیاب ہوجائے گی۔
اب حکومت پر عوام کی طرف سے کئے گئے اعتماد کے پرخچے اڑائے جارہے ہیں،
مینڈیٹ کی مکمل توہین ہورہی ہے،اگر اصول یہ تھا کہ حکومت پانچ سال پورے کرے
، تو اصول یہ بھی ہونا چاہیئے کہ حکومت بھی عوام سے کئے گئے وعدے پورے کرے،
اگر وعدے پورے نہیں ہوتے توگویا ووٹ لے کر خدمت کرنے کا معاہدہ معطل ہوگیا۔
لیکن اگر موجودہ حکمرانوں کو رخصت کردیا جائے تو پھر کیا ہوگا؟یہاں تو ہر
آنے والا ہر جانے والے سے زیادہ غاصب ثابت ہورہا ہے۔ قوم اسی دوراہے پر
کھڑی سر پیٹ رہی ہے، کوئی راستہ سجھائی نہیں دیتا۔ |