پاکستان ہوا75سال کا
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
پاکستان ہوا75سال کا ڈاکٹر رئیس صمدانی اللہ کے فضل و کرم سے پاکستان75برس کا ہوگیا۔ اللہ تعالیٰ اسے قائم، دائم اور آباد رکھے، دشمنوں کی میلی آنکھ سے محفوظ رکھے،شاد و آباد رہے، نیک اور صالح اور وطن سے محبت کرنے والے، مخلص، ایماندار حکمراں نصیب کرے، بہادر افواج جواں مردی اور بہادری سے وطن کی حفاظت کرتی رہیں، ربِ کریم انہیں پاکستان پر اٹھنے والے غلط ہاتھوں کو تن سے جدا کرنے کی طاقت اور ہمت عطا فرمائے۔ پاکستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے والوں کی آنکھیں نکال نے جرات عطا فرمائے۔ قیام پاکستان 14اگست خوشی و شادمانی کادن ضرور ہے لیکن یہ ہمیں اپنا احتساب کرنے کی دعوت بھی دیتا ہے۔ کہ جس وطن نے ہمیں آزادی کے سانس لینے کی استطاعت دی، دنیا کے سامنے ایک آزاد ریاست کے باسی ہونے کا فخر عطا کیا۔ ہم فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ہم دنیا کی بڑی اسلامی اور جوہری قوت کے شہری ہیں، ہمارا سبز پاسپورٹ فخر کا نشان ہے۔ سینکڑوں پاکستانی دنیا کے مختلف ممالک میں فخریہ انداز سے محنت مزدوری کررہے ہیں،وہ پاکستان کا نام روشن کرنے کا باعث ہیں۔ جس دھرتی نے، جس ماں نے ہمیں اتنا کچھ دیا قیام پاکستان کا دن ہمیں سوچ و بچار کی دعوت دیتا ہے، اپنا محاسبہ کرنے کی فکر عطا کرتا ہے کہ اس نے ہمیں کیا دیا اور ہم نے اسے کیا دیا۔ وطن عزیز پر حکمرانی کرنے والے ایسے حکمران دیے جنہوں نے قوم کو بیرونی قرضوں پر گزر بسر کرنے والی قوم بنا کر رکھ دیا۔ یہ حکمراں اوپر سے نازل نہیں ہوئے، کسی بیرونی ملک نے نہیں بھیجے یہ ہمارے ہی باسی اور منتخب کردہ رہے۔آخر کہاں غلطی ہوئی، کہا ں کوتاہی ہوئی، کس نے اس قوم کو غلط انتخاب کی جانب ڈالا دیا، یہ وہ سوال ہیں جن کا جواب ہمیں تلاش کرنا ہوگا، سوچنا ہوگا کہ ہم اپنے حکمرانوں کے انتخاب میں بار بار کیوں غلطی کا شکار ہورہے ہیں، کیا ہماری قوم میں پاکستان کو حقیقی معنوں میں ترقی کی راہ پر گامزن کرنے، پاکستانی قوم کی بھلائی کا سوچنے والے حکمراں نا پید ہوچکے ہیں۔ جائزہ لیناہوگا کہ ان 75سالوں میں ہم پر کس کس نے حکمرانی کی۔ حکمران بننے سے قبل کے دعووں کو بھول جائیے کرسی پر بیٹھنے کے بعد ان کا طرز عمل کیا رہا، انہوں نے وطن عزیز کے لیے کیا کیا، انہوں نے غریب پاکستانیوں کو غربت سے نکالنے کے لیے کیا اقدامات کیے۔ سر سری جائزہ ہی ہمیں بتا دیتا ہے کہ ابتدائی حکمرانوں کو چھوڑ کر باقی سب نے پاکستانی قوم کوسبز باغ دکھائے، دودھ کی نہریں بہا دینے کے جھوٹے نعرے لگائے، کشکول توڑ دینے کی باتیں کیں۔ جب کے ان کا عمل اس کے برعکس رہا، نہ تو غربت کا خاتمہ ہوا، نہ غریب کی حالت بدلی، نہ کشکول ہاتھ سے چھوٹا۔ قرضے اس قوم کا مقدر بنانے والے یہی جھوٹے حکمران رہے۔ ان کی اپنی جائیدادیں، دولت وقت کے ساتھ ساتھ آسمان کو چھوتی رہیں اور ملک غربت کے اندھیروں میں، مقروض سے مقروض تر ہوتا چلا گیا۔ قائد اعظم محمد علی جناح جن کی سیاسی بصیرت کو سلام کہ انہوں نے ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کے حصول کو عملی جامہ پہنایا جس کا خواب شاعرِ مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال نے دیکھاتھا۔ قائد نے تو ایک مضبوط، مستحکم، جمہوری، اسلامی ریاست حاصل کر کے دیدی تھی ہم نے75سالوں میں اس کے ساتھ کیا سلوک کیا، کیا قائد اعظم نے مقروض پاکستان دیا تھا، کیا انہوں نے یہ کہا تھا کہ اگر تمہیں اس مملکت خداداد کی حکمرانی کسی بھی طرح حاصل ہوجائے تو اپنی دولت میں خوب اضافہ کرنا، ملیں بنانا، کارخانے لگانا، شوگر ملیں لگانا، اسٹیل ملیں لگانا، آف شور کمپنیاں بنا نا، ملک کی دولت بیرون ملک لے جانا، اپنی کرسی کو ہر صورت میں قائم رکھنے کے لیے ملک کو داؤ پر لگا دینا۔ پہلے وزیر اعظم قائد ملت خان لیاقت علی خان کو پاکستان دشمن قوتوں نے اپنے راستے سے ہٹادیا، پاکستان میں گویا اقتدار کی جنگ شروع ہوگئی۔ ایک کے بعددوسرا حکمران آتا رہا، 1958میں فوج کے سربراہ جنرل محمد ایوب خان نے تاریخ میں پاکستان کے پہلے فوجی آمر ہونے کا اعزاز حاصل کیا۔ ایک وقت آیا کہ ایوب خان سے قوم بیزار ہوگئی، جنرل یحییٰ خان کا دور شروع ہوا جس میں سقوط ڈھاکہ رونما ہوا، پاکستان کے بطن سے جنم لینے والا مشرقی بنگال ”بنگلہ دیش“ بن گیا۔ بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیاء الحق، پھر غلام اسحاق خان صدارت کے منصب پر فائز ہوئے، انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر اقتدار میں آئیں لیکن انہیں صدر مملکت نے نکال باہر کیا، غلام مرتضیٰ جتوئی، بلخ شیر مزاری عارضی وزیر اعظم بنے۔ پھر نواز شریف صاحب کی پہلی باری آئی، غلام اسحاق خان نے انہیں نکال باہر کیا،معین الدین قریشی وزیر اعظم کے طور پر لائے گئے،انتخابات کے نتیجے میں بے نظیر کی دوسری باری آئی وہ اسی ڈگر پر قائم رہیں، اس بار وہ اپنے ہی صدر فاروق لغاری کے ہاتھوں اقتدار سے محروم کر دی گئیں۔ ملک معراج خالدکے بعد نواز شریف اقتدار میں آئے، یہ ان کی دوسری باری تھی1999میں جنرل پرویز مشرف پاکستان کے چوتھے فوجی حکمراں بن گئے۔ انہیں وردی اتارنا پڑی جس کے نتیجے میں ان کی صدارت بھی چلی گئی۔ میاں محمد سومرو صدر بنے۔ پرویز مشرف کے دور میں ظفر اللہ جمالی، چودھری شجاعت حسین اور شوکت عزیر وزیراعظم رہے۔ پرویز مشرف کے بعد آصف علی زرداری صدارت کے منصب پر فائز ہوئے۔ وزیراعظم یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف ہوئے۔ انتخابات2013کے نتیجے میں نواز شریف کی تیسری باری آئی اور وزیر اعظم کے منصب پر فائز ہوئے۔ نواز شریف صاحب کا یہ تیسرا دور عمران خان کے ہاتھوں مشکل اختتام کو پہنچا۔ 2018کے عام انتخابات میں عمران خان اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور تخت اسلام آباد پربراجمان ہوگئے۔ کپتان کی حکمرانی ساڑے تین سال قائم رہی، آخر انہیں اندرونی و بیرونی طاقت کے زور پر اقتدار سے بے دخل کردیا گا۔ تمام ہی مخالف جماعتوں نے عمران خان کے خلاف اتحاد قائم کر کے شہباز شریف کی سرپرستی میں حکومت قائم کی ہوئی ہے۔ اب یہ حکومت کب تک چلتی ہے، سیاسی صورت حال ہم سب کے سامنے ہے۔ اللہ پاک جو کچھ بھی کرے وہ پاکستان کے حق میں بہتر ہو۔یہ ہے پاکستان کی74سالہ سیاسی تاریخ،اس دوران کتنے ہی ملک آزاد ہوئے وہ ترقی کر کے کہیں آگے نکل چکے ہمیں اقتدار کے حصول، اقتدار کو بچانے، ایک دوسرے کو نیچا دکھانے، تذلیل کرنے، کیچڑ اچھالنے سے ہی فرصت نہیں۔ ہم خراب میسج بھیجنے پر اپنی انرجی صرف کررہے ہیں۔ کئی کئی گھنٹے ٹی وی چینل اسی موضوع پر گفتگو کر رہے ہیں۔ اللہ اسے تاابد قائم و سلامت رکھے۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎ ہم تو مٹ جائیں گے اے ارض وطن لیکن تجھ کو زندہ رہنا ہے قیامت کی سحر ہونے تک
|