کزن مہینہ بھر کی چھٹی پر پاکستان آۓ ہوۓ تھے انجینئر تھے
عراق میں ایک کنسٹرکشن کمپنی سے منسلک تھے اس زمانے ایران عراق جنگ کو طویل
عرصہ ہو گیا تھا اور ابھی جاری تھی۔
واپسی سے پہلے الوداعی ملاقات کے لیۓ آۓ ہم نے پوچھا اتنے عرصے بعد آۓ اور
اتنی جلدی انکا جواب تھا بھائی ایک مہینہ بھی بہت دے دیا کمپنی نے اور کام
بھی ہے وھاں کافی تم کو اندازہ ہو گا۔ ھاں اندازہ تو ہے مگر ان حالات میں
آہی گۓ تھے تو سمجھ نہیں آرھا پھر جاکیوں رھے ہیں وھاں ان جنگی حالات میں۔
نہیں جنگی حالات کا مسئلہ نہیں ہم لوگوں کو کام کے دوران کوئی پریشانییا
غیر محفوظ ہونے کا ڈر نہیں ہوتا۔ فوجیں لڑ رہی ہیں واقعات ہوتے رہتے ہیں
مگر کاروبار زندگی رواں دواں ہے۔ ویسے وہاں کے عوام حکوت کے حوالے سے کیا
کہتے ہیں؟ لوگ کس کو ذمہ دار ٹہراتے ہیں ان حالات کا کیونکہ بین الاقوامی
دنیا کو زیادہ بہتر انداز سے اگر یہ قائل نہیں کرپارہے تو دوسرے لوگ باگ
ڈور سنبھالیں۔
ہمارے ان کزن کا جواب ہمارے لیۓ بہت حیران کن یقین نہ کرنے والا تھا اور
انہی الفاظوں کے ساتھ ہمارے ذھن میں محفوظ ہے وہ یہ تھے”یار فوجیں محاذ پر
مصروف ہیں حکومت چلانے والے چلا رہے ہیں وہاں عوام کے یہ ٹینشن نہیں ہیں سب
اپنے کام سے کام رکھتے ہیں۔ ” انھوں نے مزید بتایا کہ وہاں ایسا ماحول ہی
نہیں کہ لوکل بھی کاروبار مملکت پر گفتگو کریں اس لیۓ ایک سکون سا رہتا ہے۔
یہ وہ وقت تھا جب وطن عزیز میں باوردی حکمراں بیٹھا تھا اور بغیر وردی والے
اپنی باری کے لیۓ جدوجہد میں مصروف تھے۔ قوم ہماری ہمیشہ کی طرح اس وقت
تقسیم تھی کچھ کو وردی والا بھلا لگتا کچھ بغیر وردی والوں کے ساتھ جلسے
جلوس اور نعروں میں مصروف رہتے اور کچھ نے اپنا مستقبل داڑھی والوں کے ساتھ
وابستہ کیا ہوا تھا باقیوں کا خیال کاروبار مملکت سے دور رہنے میں بھلائی
ہے کا تھا۔
یہ تقسیم ویسے بھی حکمرانوں کو سوٹ کرتی ہے۔ اگر کوئی گروپ پریشانی کا باعث
ہو رھا ہے تو ایک نیا گروپ معرض وجود میں آجاتا ہے اس گروپ کو کمزور کرنے
کے مشن پر اور یہ بڑا تیر بہدف نسخہ رھا ہے ہمارے وطن میں۔ اس نۓ گروپ کو
ایک نیا دلکش بلکہ پرکشش نعرہ دے کر میدانمیں اتارا جاتا ہے اور دور جدید
میں اس نعرے کو ہم بیانیہ سے تعبیر کرتے ہیں۔مثالیں بہت ہیں سمجھنے اور
دیکھنے والی نظر چاہیۓ ہوتی ہے کوئی راکٹ سائنس نہیں۔
اب ذرا ہماری عوام کی سوچ ان کی قوت فیصلہ اور ان کا معاملات کو سمجھنے کا
پیمانہ دیکھیۓ واضح رہے کہ ہمارا منحیث القوم اپنے متعلق بہت سمجھدار اور
جہاندیدہ ہونے کا اگر دعوی نہیں تو سمجھنا بہرحال ہے۔ ہمارے اپنے اعمال
ہمارے زندگی گزارنے کے طریقے مختلف مسائل سے نبٹنے کا انداز کیا ہے وہ سب
ہم اور ہماری مرضی کے تحت کرتے ہیں اور کرنا بھی چاہیۓ کیونکہ ہم آزاد قوم
ہیں اور آزادی کا وہ تصور اور سوچ رکھتے ہیں جتنی دوسری آزاد قوموں کی بس
سوچ ہے۔ ویسےیہ معاملہ برصغیر سے جڑا ہوا ہے۔
ہمارے سیاستداں ہمارے مزاج سے کیسے فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہم نقصان کیسے
اٹھاتے ہیں اس کے لیۓ اگر سیاسیات کے طالب علم کو وطن عزیز کے پچھتر گزرے
ہوۓ سال ہم بطور کیس اسٹیڈی دے دیں تو وہ بہت اچھا پوسٹمارٹم کردیگا۔
تھوڑا سا تجزیہ ہم بھی کرلیں۔ اوپر جو بات کہی گئ کہ حکمراں عوام کو تقسیم
کرکے زیادہ آسانی سے حکومت کرلیتے ہیں تو اس کو سمجھنے کے لیۓ موجودہ
صورتحال کا نقشہ اپنے سامنے رکھیۓ۔ ہم کتنے حصوں میں بٹے ہوۓ ہیں بلکہ اب
تو اتنے حصے ہیں کہ اپنے ہمارے حصے میں تو کچھ بچا ہی نہیں کیونکہ ہم اپنا
ذہن دل و دماغ ان سیاسی پارٹیوں کے حوالے کر چکے ہیں۔
آپ اپنے گھر سے شروع کریں دفتر کارخانہ کاروباری مراکز ہوں یا ہوٹل ہوں غرض
کوئی بھی ایسی جگہ جہاں گفتگو کرنے کا موقع مل جاۓ دنیا میں جیسے ہوتا ہے
علیک سلیک خیروعافیت کے بعد روزمرہ کے مسائل جن کا سبب سواۓ گفتگو کرنے
والے اور مخاطبین کے سب ہوتے ہیں پر گفتگو اس میں تعلیم صحت ٹریفک اور
مختلف پبلک سروس کے اداروں کی نااہلی کے بعد سیاست ایک پسندیدہ موضوع ہے جس
پر جاہل قابل بچہ بڑا بوڑھا شعور رکھنے والا یا اس سے نابلد سب خوب زور
آزمائی کرتے ہیں۔
سیاسی شعور کا عالم ہمارا یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کو کوئی دلچسپی نہیں
ہوتییہ جاننے میں کہ ہم جس سیاسی جماعت کو اپنے مسائل کا حل سمجھتے ہیں اس
کا منثور کیا ہے وہ اس پر عملی جامع کیسے پہناۓ گی مختلف ایشوز کو سمجھنے
کی چاہے وہ ملکی ہوں یا بین الاقوامی نوعیت کے ان کی ٹیم میں اہلیت رکھنے
والے ہیںیا نہیں۔ ہم دوڑ پڑتے ہیں نعرے یا بیانیے کے پیچھے اور بھنگڑا اور
دھرنے کا ٹائم بہت ہوتا ہے ہمارے پاس پھر شخصیت پرستی تو ہم میں سرائیت کر
چکی ہے۔ سیاسی جماعت کو پرکھنا ہمارا مسئلہ نہیں بس صرر یا چئرمین کی بنیاد
پر ہم جانچتے ہیںیہی وجہ ہے کہ سربراہ اس کو خاندان کی پارٹی سمجھ کر چلاتا
ہے یعنی اپنے بعد اولاد۔ آپ جائزہ لے لیں بہت سی پارٹیاں اب وجود ہی نہیں
رکھتیں اپنے قائد کے ادھر ادھر ہو جانے کے بعد اگر کچھ پارٹیاں ہیں بھی تو
گروپس میں تقسیم اور منتشر اور باپ پارٹیاں ہیںیعنی ابا کے بعد بیٹا بیٹییا
پوتا پارٹی کے معاملات دیکھ رھا ہے تو برسوں سے قائم ہیں انتخابات براۓ نام
ہوتا ہے ان سیاسی جماعتوں میں بس خانہ پری جو الیکشن کمیشن بھی نظر انداز
کرتا ہے۔
اب اس تمام صورتحال کے باوجود ہم اس سیاسی. ماحول کو اپنے اوپر طاری کرتے
ہوۓ اپنے خاندانی اور سماجی تعلقات کو کیسے تباہ کر لیتے ہیں سمجھنے کی
کوشش کرتے ہیں۔
ہم میں سے اکثریت اپنے آپ کو کسی نہ کسی جماعت سے جزباتی طور پر وابستہ
کرلیتی ہے۔ اور اس کے خلاف نہ کچھ سننا برداشت میں ہوتا ہے نہ اس کے مقابلے
میں کسی دوسری پارٹییا سربراہ کی تعریف ہضم ہوتی ہے۔ یہ دراصل اب انا کا
مسئلہ بن چکا ہوتا ہے۔ ہم جانتے ہیں جس جماعت کے ہم شاہ سے زیادہ شاہ کے
وفادار بن رھے ہیں اس کا سربراہ تو کیا کوئی ورکر بھی ہم سے رابطے میں نہیں
مگر یہ انائیت اب ہمیں جھکنے نہیں دیگی۔ ہم گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے
اپنی لاڈلی جماعت کی تعریفوں کے پل باندھتے ہیں اور باقی تمام کے بخیۓ
ادھیڑتے ہیں جبک حقیقتیہ ہے کہ جانتے کچھ نہیں۔ لفافی صحافت بد اچھا بدنام
برا کو بنیاد بنا کر ہماری ذہن سازی کرتی ہے ایک مخصوص چینل ہمارا وہ کنواں
ہوتا ہے جس کے ہم مینڈک ہوچکے ہوتے ہیں اور جس سے اچھا کوئی ہوتا ہی نہیں۔.
مگر اس غیر حقیقت پسندانہ بحثابحثی میں ہم آپس کے تعلقات کو تباہ کررہے
ہیں۔ سوشل میڈیا سے پہلے دو چار آدمیوں میں سیاسی بحث اور اختلاف کے نتیجہ
میں بیچ بچاؤ کروادیا جاتا تھا۔ اب اپنے اپنے گھروں میں بیٹھ کر ایک دوسرے
کو لعن طعن کرتے ہیں تعلقات ختم تک ہوتے دیکھا گیا ہے۔ کیونکہ جب انا
درمیان میں آگئ تو مجھ سے بہتر نہ کسی کی راۓ ہو سکتی ہے نہ ذات۔
اپنے آپ کو دوسروں کی دل آزاری سے بچائیں ممکن ہے آپ جس کسی کے لیۓ اچھے
خیالات نہیں رکھتے مگر جس کو آپ ایسا پیغام بھیجیں گے اگر اس کو اس سے
عقیدت ہوگی تو یہ دل آزاری کا سبب ہوگا۔ کسی کی دل آزاری اللہ کو ناراض
کرنے کا سبب بنتی ہے۔
ان کا جو کام ہے وہ اہل سیاست جانیں . . . . . . میرا پیغام محبت ہے جہاں
تک پہنچے
|