خوشبو کا سفر

بہت عرصہ پہلے بلوچستان میں جانے کا اتفاق ہواتھا۔ وہاں کے مشاہدات کا ایک دل گزار تجزیہ بھی ہے اورسفرنامہ بھی۔

بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑ

خوشبو کا سفر(بلوچستان کا سفر نامہ)
ابتدائیہ
جیسے جیسے گاڑی اپنے راستے پر آگے بڑھتی جاتی تھی ، فضا میں پھیلی خوشبو اعصاب کو مسحور کیے جارہی تھی ۔ سڑک کے دونوں جانب سیبوں کے باغات تھے ۔ یہ مہک انہیں سیبوں سے اٹھ رہی تھی ۔اس وقت ہم اوڑک کی جانب سفر کر رہے تھے جو کہ کوئٹہ کے نواح میں ایک سر سبزو شاداب جگہ ہے ۔یہ سفر جس کی میں روئیداد آپ کو سنانے جا رہی ہوں ، گرمیوں کی چھٹیوں کا ایک تفریحی دورہ تھا ۔ سفر سے واپسی پر رشتے داروں اور دوستوں سے بلوچستان کی ثقافت اور رسم و رواج پر سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی ۔ لیکن میں نے محسوس کیا کہ میں سفری احوال کے علاوہ کچھ اور بھی کہنا چاہ رہی ہوں ۔ اس کے لیے ضروری تھا کہ اپنے احساسات کو قلم کی زبان ملے ۔ گاڑی تو آگے بڑھ ہی رہی تھی مگر مجھے لگا کہ اس سفر نے میری ذات کے بند دریچے کھول دیے ہیں ۔

روانگی
جب ہم راولپنڈی سے کوئٹہ کے لیے عازمِ سفر ہوئے تو موسلادھار بارش شروع ہو چکی تھی ۔ ائرپورٹ پر ہڑبونگ کا سماں تھا ۔ راولپنڈی سے کوئٹہ کی پرواز کا دورانیہ صرف ایک گھنٹے کا ہے لیکن موسم کی خرابی کے باعث پرواز میں تاخیر تھی ۔ قطاروں میں کھڑے لوگ سامان لوڈ کروانے اور بورڈنگ کارڈ کے اجراء کے لیے پریشان کھڑے تھے ۔ من حیث القوم ہمارے ہاں نظم و ضبط کی بے حد کمی ہے ۔ لگتا ہے کہ پوری قوم کو ایک سخت تربیتی کورس کی ضرورت ہے جس میں یہ سکھایا جائے کہ عوامی مقامات پر ایک ذمہ دار شہری کے بطور ہمیں کن ادب و آداب کا خیال کرنا چاہیے - شاعر نےہمارے بارے ہی کہا ہے کہ :
سبق پھر پڑھ صداقت کا، عدالت کا، شجاعت کا
لیا جائے گا تجھ سے کام دنیا کی امامت کا

دنیا کی رہنمائ تو ہم نے کیا کرنی ہے ! یہاں تو اپنے ہی حالات سنوارنے کے لالے پڑے ہوئے ہیں ۔ ائرپورٹ پر لوگوں کے جم غفیر سے بچتے بچاتے آخر کار ہم جہاز پر سوار ہو ہی گئے ۔ دورانِ پرواز ہمارے دو عدد نونہلان نے خوب مصروف رکھا ۔ یہ ان کا جہاز کا پہلا سفر تھا ۔ حیرت اور اشتیاق سے سرشار وہ جہاز کی کھڑکی کے باہر اُڑتے بادلوں کو دیکھ رہے تھے ۔ شدید دھند کے وجہ سے جہاز کبھی کبھار ہچکولے کھانے لگتا تو خوشی سے ان کی چیخیں نکل جاتیں ۔وہ جہاز کے جھولوں سے خوب لطف اندازو ہو رہے تھےہو ۔ بچپن بھی کتنا معصوم ہوتا ہے ۔ خطروں سے بے نیاز اور ریا سے پاک ! بچپن کا ہر خوشگوار تجربہ ایک سرشاری کی کیفیت پیدا کر دیتا ہے ۔جیسے جیسے آپ کو شعور آتا جاتا ہے دنیا کی مکاریاں عیاں ہوتی جاتی ہیں ۔ اور پھر خوشیاں بھی پھیکی پھیکی لگتی ہیں ۔

میں دل ہی دل میں حفاظت کے لیے مسنون دعاوں کا ورد کر ہی تھی ۔ کچھ ہی دیر بعد ساتھ خیریت سے ہمارا جہاز کوئٹہ کے بین الاقومی ہوائی اڈے پر اتر گیا تھا ۔ جہاں ہماری میاں صاحب بے چینی سے ہم لوگوں کے منتظر تھے ۔ ان کی کئ ماہ پہلے خضدار میں تعیناتی ہوئ تھی ۔ کوئٹہ کا ائرپورٹ لاہور اور راولپنڈی کے مقابلے میں چھوٹا ہے اور سہولیات بھی کم ہیں ۔ شاید اب کچھ بہتری آگئ ہو ۔ میں آج سے بیس سال پہلے کی بات کر رہی ہوں ۔ پاکستان میں کچھ علاقے ایسے بھی ہیں جن کو جان بوجھ کر پسماندہ رکھا گیا ہے ۔ ان علاقوں میں بلوچستان سرِ فہرست ہے۔ بہرحال اس پر آگے چل کر مزید بات ہو گی ۔کوئٹہ کے خشک اور گرم موسم نے ہمیں پنڈی کے رم جھم سماں کی یاد دلا دی ۔ چاروں طرف نظر دوڑائ تو اونچے اونچے بنجر پہاڑوں میں اپنے آپ کو گھرا پایا ۔ پھر یاد آیا کہ ہی پہاڑ بنجر نہیں ہیں ۔ ان کے سینوں میں قدرت نے معدنیات کے خزانے بھرے ہیں ۔

کوئٹہ میں کیا دیکھا ؟
اندرونِ کوئٹہ کے بازاروں میں گاڑی ٹریفک اور ہجوم میں جگہ بناتی ہوئ جا رہی تھی- ایک افراتفری کا سماں تھا ۔ مردوں کے سروں پر بڑی بڑی پگڑیاں تھیں اور چہرے لمبی داڑھیوں سے سجے تھے ۔ کبھی کبھار کوئ عورت اگر نظر بھی آتی تھی تو وہ ایک بڑی سی چادر یا گول چھتری نما برقعے میں لپٹی ہوتی۔اگر چادر اوڑھی ہوتی تو اس کے چہرے کی ایک آنکھ ہی نظر آتی تھی بعض جگہوں پر رش کی وجہ سے گاڑی رینگنے لگ جاتی ۔ ایسے میں نے کئ مردوں کی نظریں اپنے چہرے پر محسوس کرتے ہوئے چادر سے اپنے چہرے کو چھپا لیا ۔ سچی بات ہے کہ پہلی دفعہ ایک ڈر سا محسوس ہونے لگا ۔ کوئٹہ کے اندرون ِ شہر کے بازاروں میں خوب چہل پہل تھی ۔ لیکن جگہ جگہ گندگی کے ڈھیر بھی نظر آرہے تھے ۔
آخرکار گاڑی کینٹ کے علاقے میں داخل ہوئ ۔ ییہاں پر صفائ اور سکیورٹی کا خاص خیال رکھا گیا تھا ۔ قطار اندر قطار بنگلے بنے ہوۓ تھے - ۔ ہمارا رہائشی بنگلہ بھی اسی علاقے میں تھا ۔ گھر کی بیٹھک فرشی تھی اور کمرے میں چاروں طرف بڑے بڑے گاؤ تکیے لگے ہوئے تھے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد خانساماں کھانا ٹرے میں رکھ کر لے آیا ۔ جو کہ ہم نے رغبت سے کھایا ۔ تھکے تو ہو ئے تھے اس لیے سب ہی جلد سو گئے ۔ اگلے روز میں گھر کو سیٹ کرنے میں مصروف رہی ۔ بچے کھیل کود میں مصروف ہو گئے اور ہمارے شوہر نامدار دفتر کی طرف روانہ ہو گئے۔ یہاں مقامی لوگ باہر کے لوگوں کو پسند نہیں کر تے اس لیے سرکاری افسران کے ساتھ ہر وقت بندوق بردار سیکورٹی گارڈ رہتے ہیں اور کچھ سیکورٹٰی کے لوگ اہل خانہ کی حفاظت پر مامور ہوتے ہیں۔ بلوچستان پاکستان کا پسماندہ ترین صوبہ ہے، یہاں کے سردار کبھی بھی اس صوبے کی ترقی نہیں چاہیں گے ۔ان کے اپنےاہل و عیال دنیا کی ہر آسائش سے ملا مال ہیں لیکن عام عوام غربت کی چکی میں پستے ہیں- ہمارے معاشرے میں عمومی طور پر ناہمواری رش بس گئی ہے ۔ امیروں کے لیے دولت گھر کی باندی ہے اور غریب دو بوند صاف پانی کو ترستے ہیں ۔پورے پاکستان کے مقابلے میں بلوچستان میں غربت اور بے روزگاری سب سے زیادہ ہے۔ بلوچستان کے دیہاتی علاقوں میں بچے بچیاں اور بالخصوص عورتیں اچھی غذا سے بھی دورہیں بلکہ انکے بروقت علاج ومعالجے کیلئے کوئی خاص تدابیر بھی نہیں میسر ہیں ۔دکھ کی بات تو یہ ہے کہ کہ ان حالات میں کو ئی بدلاوا نہیں آتا۔

ر۱ت کو ہمارے میاں صاحب کے ایک دوست نے ہوٹل سرینہ میں رات کے کھانے کا انتظام کیا تھا ۔ بار بی کیو پر بھنے تکے کباب اور بلوچی پلاؤ اور سجی بہت ہی لذیذ تھے ۔ جھلملاتی روشنیوں میں حوض کےکنارے فواروں کا شور بہت بھلا لگ رہا تھا۔جہاں ہم بیٹھے تھے وہیں درختوں کا ایک جھنڈ تھا ۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو سارے درخت سیبوں سے لدے ہوئے تھے۔ ان سیبوں کی خوشبو جنت سے آتی ہوئی محسوس ہو رہی تھی۔ یہی خوشبو ہمارے ساتھی بیشتر جگہوں پر ہمسفر رہی ۔

کوئٹہ کا ہوٹل سرینہ بہت خوبصورت ہے۔ بوفے کا انتظام ایک وسیع سبزہ زار میں تھا ۔میاں صاحب کے دوست کی بیگم سارا وقت تنی تنائی بیٹھی رہیں اور کھانا بھی بمشکل ہی کھا رہی تھیں۔ان سے مسکرا مسکرا کر گفتگو کرنے کی لایعنی کوشش میں ہمارے جبڑے دکھ گئے تھے۔ اس وقت تو میں بہت جز بز ہوئی تھی ۔ مگر آج سوچتی ہوں کہ ہو سکتا ہے کہ وہ خاتون کسی اضطرابی کیفیت میں ہوں-دوسروں کے بارے میں کو ئی حتمی رائے قائم کرنے میں کبھی جلد بازی نہیں کرنی چاہیے۔ چیزیں اور رویے ہمیشہ وہ نہیں ہوتے جو آپ کو سامنے نظر آرہے ہوتے ہیں۔

خضدار
صبح کو ہماری خضدار کی طرف روانگی تھی ۔تحصیل خضدارجنوبی بلوچستان کی طرف واقع ہے۔کوئٹہ سے خضدار شہر تک سڑک کے ذریعے پانچ چھ گھنٹے کا فاصلہ ہے۔ خضدار شہر نیشنل ہائی وے پر واقع ہے جو بلوچستان کے دارلحکومت کوئٹہ شہر سے تقریباً 300 کلومیٹر اور سندھ کے دارلحکومت کراچی سے تقریب300 کلومیٹر پر واقع ہے۔ شہر کے قریب ایک پرانے قلعہ ہےجسے عربوں نے بنا یاتھا ۔ اس قلعے کے کھنڈرات آج بھی موجود ہیں۔اس کے علاوہ آپ کو یہاں خوبصورت آبشاریں بھی ملیں گی۔

جب آپ نیشنل ہائی وے پر سفر کرتے ہیں تو دونو ں جانب پتھر کے اونچے اونچے پہاڑ نظر آتے ہیں ۔یہ پہاڑ قدرتی حسن سے تو محروم ہیں لیکن ان کے سینے بیش بہا معدنیات سے بھرے پڑے ہیں۔ یہاں پر میں بلوچستان کے بارے میں کچھ حقائق ایک فہرست کی شکل میں بتانا چاہتی ہوں تا کہ ہم سوچ بچار کر سکیں کہ من حیث القوم ہم کیا کر سکتے ہیں اس صوبے کی محرومیاں دور کرنے کے لیے:
۱:صوبہ بلوچستان رقبے کے اعتبار سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے۔
۲: تین لاکھ47 ہزارمربع کلو میٹر رقبے پرمحیط پاکستان کایہ بڑا صوبہ زیادہ تربے آب وگیاہ پہاڑوں،تاحد نظر پھیلے ہوئے صحراؤں‘ ریگستانوں اورخشک وبنجر میدانی علاقوں پرمشتمل ہے۔
۳:قابل کاشت اراضی کل رقبے کا صرف6 فیصد بتائی جاتی ہے۔
۴: بلوچستان میں اب تک تقریباََچالیس انتہائی قیمتی زیرزمین معدنیات کے ذخائر دریافت ہوچکے ہیں جو محتاط تخمینوں کے مطابق آئندہ پچاس سے سو سال تک ملک کی ضروریات پوری کر سکتے ہیں اور بیرونی سرمیا کاری کا بیش قیمیت ذریعہ بھی ہیں۔
۵: کچھ اہم معدنیا ت جو بلوچستان میں پائے جاتے ہیں ، ان میں تیل،گیس، سونا،تانبا،یورینیئم، کولٹن، خام لوہا، کوئلہ، انٹی مونی، کرومائٹ، فلورائٹ‘ یاقوت، گندھک ، گریفائٹ ، چونے کاپتھر، کھریامٹی، میگنائٹ، سوپ سٹون، فاسفیٹ، درمیکیولائٹ، جپسم، المونیم، پلاٹینم، سلیکاریت، سلفر، لیتھیئم وغیرہ شامل ہیں ۔
۶: بلوچستان اور وفاق کے درمیان ان معدنیات پر اایک تنازع اول روز سے حق اختیار کا چلا آرہا ہے،۔اسں کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ بلوچستان کے عوام سمجھتے ہیں کہ انہیں وسائل سے ملنے والا قلیل حصہ ہے اور یہی ، محرومی کا احساس قیام پاکستان سے اب تک مختلف ادوار میں 5 شورشوں کا سبب بنا ہے۔ ساحل اور وسائل پر اختیار اور اس کا صوبے اور عوام کی ترقی و بہبود میں مصرف اہم مطالبہ ہے۔ اس کے برعکس فیصلوں، اقدامات اور رویوں نے بداعتمادی اور دوریاں پیدا کی ہیں، نوجوانوں نے بالخصوص گہرا اثر لیا ہے بلکہ ہنوز لے رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ان عنوانات کے تحت کسی بھی سخت تحریک کا حصہ بننا مباح سمجھتے ہیں۔
۷: بلوچستان میں امن وامان کی صورت حال ہ،ہمیشہ سے ہی کشیدہ رہی ہے اور اسی لیے غیرملکی سرمایہ کار ی میں رکاوٹیں کھڑی ہیں ۔
عرض حال یہ ہے کہ ان حالات کو دیکھ کر دل دکھتا ہے اور اس سفرنامے کے لکھنے میں یہ سوچ حاوی رہی ۔ سیبوں ، پہاڑوں اور آبشاروں کی اس زمین میں ایک خوشبو چلتی ہے اور پیغام دیتی ہے کہ :
وطن کی مٹی گواہ رہنا گواہ رہنا
وطن کی مٹی عظیم ہے تو
کاش ہم اپنے وطن کو عظیم بنانے میں کامیاب ہو جائیں۔آمین ۔

ہنہ جھیل اور اوڑک
خضدار میں ہمارا قیام کو ئ ایک ماہ کے لگ بھگ رہا ۔ اس کے بعد میاں صاحب کو دفتری معاملات کی وجہ سے کراچی جانا تھا۔اس دوران دور اور نزدیک سیاحت کے لیے جاتے رہے ۔سب سے یادگار سفر ہنہ جھیل کی طرف تھا ۔کوئٹہ سےلگ بھگ ۱۱ کلو میٹر دور بلند پہاڑیوں کے درمیان گھری یہ ایک مصنوعی جھیل ہے۔جب ہم وہاں پہنچے تو ایسا لگا کہ بھورے اور اونچے پہاڑوں کے درمیان کسی نےپانی سے لبا لب ایک پیالہ رکھ دیا ہو ۔ جیسے آپ کہیں منزل کی تلاش میں بھٹک رہے ہوں اور اچانک سامنے ہنہ جھیل کا خوبصورت منظر آجائے تو فیض احمد فیض کےیہ خوبصورت اشعار یاد آجاتے ہیں :
رات یوں دل میں تری کھوئی ہوئی یاد آئ
جیسے ویرانے میں چپکے سے بہار آجائے
جیسے صحراؤں میں ہولے سے چلے باد نسیم
جیسے بیمار کو بے وجہ قرار آجائے

ماحولیاتی تبدیلوں نے اس جھیل کے حسن کو بگاڑ دیا ہے ۔شدید خشک سالی اور گرمی میں یہاں کا پانی سوکھ بھی جاتا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس سلسلے میں حکومتی توجہ کی ضرورت ہے تاکہ پانی کا یہ بیش بہا خزانہ قائم رہے اور زائد پانی یہاں جمع ہوتا رہے۔ پانی کی گرتی ہوئی سطح سے جہاں سائبیریا کے پرندوں کا پڑاؤ اور سیاحت و تفریح متاثر ہوئے ہیں وہاں آس پاس کے باغات بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس جھیل میں کشتی رانی کی تربیت دی جاتی ہے اور یہاں کشتی رانی کے کئی مقابلے بھی ہوچکے ہیں۔ یہ جھیل درمیان میں سے بہت گہری ہے جس کے سبب یہاں کئی حادثات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ چند برس قبل جھیل میں چلنے والی کشتی میں ضرورت سے زائد افراد بٹھانے کے سبب کشتی الٹ گئی اور پندرہ سے زائد افراد ڈوب کر ہلاک ہو گئے۔ اب فوج کی نگرانی میں ضروری حفاظتی انتظامات کے ساتھ یہاں آنے والوں کو کشتی کی سیر کروائی جاتی ہے۔ جھیل کے قریب نصب لفٹ چئیر کو ایک حادثے کے بعدہٹا دیا گیا تھا۔ہنہ جھیل دراصل اوڑک وادی کاہی حصہ ہے۔اوڑک وادی کے چشموں کا پانی اس جھیل کی طرف لایا جاتا ہے تاکہ پانی کاذخیرہ قائم رہے ۔اوڑک وادی میں کئی باغات ہیں اور ایک پانی کا بند بھی ہے،جسے ولی تنگی ڈیم کہتے ہیں۔

گوادر
کراچی جاتے وقت ہم گوادر بھی رکے۔ اس وقت یہ ساحلی علاقہ بس مچھیروں کی بستی نظر آتا تھا۔اب سنا ہے کہ بہت ذیادہ ترقیاتی کام ہو چکے ہیں۔جب ہم وہاں پہنچے تو پورٹ پر بڑے بڑے بحرے تجارتی جہاز لگے ہوئے تھے۔ گوادر بندرگاہ کی سب سے بڑی اہمیت یہ ہے کہ یہ سمندر کے جس حصے پر واقع ہے وہاں کا پانی گرم ہے جو دنیا کہ بہت ہی کم بندرگاہوں کی یہ خصوصیت ہوتی ہے، گرم پانی والے سمندری حصے پر تمام سال تجارتی جہازوں کی آمد و رفت کو جاری و ساری رہتے ہیں یوں تجارت اور مختلف اشیاء کو براستہ سمندر ترسیل کرنے میں کوئی مشکل نہیں ہوتی ایران اور دبئی پورٹ ورلڈ (متحدہ عرب امارات) کے مفادات گوادر کی بندرگاہ کو مقابلے سے باہر رکھنے میں کوشاں ہیں کیونکے آبنائے ہرمز پر یہ ممالک ایک گیٹ وے کے طور پر کام کرتے ہیں ۔اسی لیے سیپیک معاہدے کے بعد پاکستان میں سیاسی خلفشار کو بڑھاوا دیا جارہاہے۔ایک عالمی سازشی کھیل شروع ہو چکا ہے جس کے تحت بعض طاقتیں پاکستان میں چین کی علمداری ختم کرنا چاہتی ہیں۔عرض حال یہ ہی کہ ہر قوم نے اپنی قسمت خود سنوارنی ہوتی ہے ۱ور قومی رہنماؤں کو اتفاق اور بردباری سے قومی ترقی کے فیصلے کرنے ہوتے ہیں ۔یہ بات ہمیں یاد رکھنی چاہیے کہ بلوچستان کی ترقی کے بغیر پاکستان کی ترقی ممکن نہیں ۔

بس یہی پر ہمارا بلوچستان کا احوال تمام ہوا ۔کچھ اچھی یادیں تھیں ۔کچھ سچے محسوسات ہیں۔کئی بار دل درد سے بھر آیا۔ سیب اور آڑو کے باغات کی خوشبو روح میں رچ بس گئی تھی ہے۔کون کہ سکتا ہے کہ یہ بنجر مٹی اپنی کوکھ سے کتنے بیش بہا خزانے دے سکتی ہے ۔بلوچی سادہ لوح لوگ ہیں اور قدامت ہیں۔نئی نسل آگے بڑھنا چاہتی ہے اور دیگر دنیا سے قدم ملانا کے لیے بے چین ہے ۔ خدا کرے کہ ان کے تمام خواب جو وہ اپنے علاقے کے اور اپنی بہتری کے لیے مدیکھتے ہیں پورے ہو جائیں۔آمین۔




 

Atiya Adil
About the Author: Atiya Adil Read More Articles by Atiya Adil: 19 Articles with 23979 views Pursing just a passion of reading and writing ... View More