پاکستان مسلم لیگ ن نواز شریف کی جماعت ہے ، انہوں نے
اپنے لہوسے اس جماعت کی بنیادوں کو استوار کیا ہے۔ یہ 1985ء کی بات ہے ، اس
وقت میری رہائش گلبرگ تھرڈ لاہور کی کچی آبادی" مکہ کالونی" میں ہوا کرتی
تھی ۔ ان دنوں مکہ کالونی مسائل کا گڑھ تھی ، نہ اس میں سیوریج کی سہولت
تھی ، نہ پینے کا پانی میسر تھا ، سوئی گیس کا تو تصور بھی نہیں تھا ،بائیس
گلیاں کچی تھیں جن کے درمیان میں نالے کی صورت میں گند ہ پانی بہتا تھا ،
موسم برسات میں گلیوں میں اتنی پسلن ہوا کرتی تھی کہ پیدل چلنا بھی مشکل
تھا ۔والٹن ایئرپورٹ سے ملحقہ اس کچی آبادی کا کوئی پرسان حال نہیں تھا،
1985ء میں قومی اور صوبائی الیکشن ہورہے تھے ، الیکشن کے دوران نواز شریف
اس کچی آبادی میں تشریف لائے۔ چند لوگوں نے آبادی کے دیرینہ مسائل کی جانب
نواز شریف کی توجہ دلائی ۔ اس جلسے میں ، میں بھی شریک تھا ۔مجھے اس وقت یہ
دیکھ کر حیرت ہوئی کہ نواز شریف نے بلند آواز میں جلسے میں موجود لوگوں کو
مخاطب کرکے کہا آپ لوگ اپنے مسائل بتاتے جاؤ، میں انہیں حل کرنے پر رضامندی
کا اظہار کرتا جاتا ہوں ۔ یاد رہے کہ اس الیکشن میں مکہ کالونی کے لوگوں نے
نواز شریف کے امیدوار فضل حق کو کو ووٹ دے کر ایم پی اے بنا دیاجب نواز
شریف وزیراعلی پنجاب بنے تو انہوں نے مکہ کالونی کے بائیس گلیوں کو پختہ ،
سیوریج لائن کی تنصیب ،ٹیوب ویل کے بعد تمام گلیوں میں پینے کے پانی کی
لائنیں بچھوائیں۔آج نوازشریف کی محبت اور سرپرستی کی وجہ سے مکہ کالونی کی
زمین اور مکانات کا ریٹ سونے جیسا ہوچکا ہے
،زندگی کی تمام سہولتیں وہاں میسر ہیں۔اسی آبادی کی ہرگلی میں مسلم لیگ ن
کے پرائمری یونٹ بن چکے تھے، اس علاقے سے نواز شریف پارٹی کے امیدواراسحاق
ڈار، لیاقت بلوچ، طارق بانڈے جیسے لوگ بھی کامیاب ہوئے جنہوں نے پورے حلقے
میں اپنے پوسٹر بھی نہیں لگائے اور نہ وہاں جلسے کیے تھے۔جب سے نواز شریف
پہلے جیل میں اور بعد میں علاج کرانے کی غرض سے لندن جا بسے تو مسلم لیگ ن
بھی لاوارث ہو گئی۔ نہ صرف ملک بھر میں پرائمری یونٹ ختم ہوگئے اور مسلم
لیگی کارکن در بدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے رہ گئے ۔ نواز شریف کی قیادت
میں مہینے میں ایک آد ھ بار ہر تحصیل ،ضلع اور ڈویژن کی سطح پر کارکنوں کے
جو کنوینشن کا انعقاد کیا جاتا تھا جس میں ن لیگ کے لیڈر اور کارکن جوش و
خروش سے شریک ہوتے تھے ،وہ سلسلہ بھی یکسر ختم ہوگیا۔سنٹرل کمیٹی ،
کورکمیٹی ، پارلیمانی کمیٹی سمیت جتنی بھی کمیٹیاں تھیں (جن میں چارصوبوں ،
گلگت بلتستان اور آزادکشمیر کے نمائندے بھی شامل تھے ) وہ اپنا وجود کھو
بیٹھیں۔2013ء کے الیکشن میں پنجاب کے تمام اضلاع میں کامیابی کے ساتھ ساتھ
، بلوچستان میں بھی ن لیگ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آچکی تھی لیکن نواز
شریف پاکستان کے وسیع تر مفاد کو پیش نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹر عبدالمالک کی
قیادت میں حکومت بنانے کی اجازت دے دی ۔ نواز شریف کے زیرعتاب آنے کے بعد
شہباز شریف سمیت کسی ن لیگ قائدین نے بلوچستان جانے کی ضرورت محسوس نہیں
کی۔مرکزی قائدین کی عدم توجہ کی وجہ سے ثناء اﷲ زہری اور عبدالقادر بلوچ
سمیت تمام ن لیگی، مسلم لیگ ن کو خیرباد کہہ چکے ہیں بلکہ بلوچستان میں ن
لیگ کا صفایا ہوچکا ہے۔سندھ میں غوث علی شاہ اور جام صادق علی کی قیادت میں
دو مرتبہ ن لیگ کی حکومت رہ چکی ہے۔نواز شریف کے بعد ن لیگ کے کسی قائدکو
وہاں جانے ، سندھ اور کراچی کی عوام کو اپنا بیغام دینے کی ضرورت ہی محسوس
نہیں ہوئی۔ کہنے کو تو شہباز شریف ن لیگ کے صدر ہیں لیکن وہ تنظیمی اعتبار
سے لاہور تک محدود ہوکر رہ چکے ہیں ۔میں اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔
مریم نواز ،نواز شریف کی بیٹی کی حیثیت سے عوام میں مقبول ہیں لیکن نہ وہ
کارکنوں تک پہنچنے کی جستجو رکھتی ہیں اور نہ کارکن ان تک پہنچنے میں
کامیاب ہوسکتے ہیں۔پنجاب کے جس حلقے میں الیکشن ہورہاہو ،وہاں ایک آدھ جلسہ
کرنے ضرور جاتی ہیں۔اﷲ اﷲ خیر سلا۔خیبر پختون خوا میں ن لیگ کے کافی ایم
این اے اور ایم پی اے کامیاب ہوجایا کرتے تھے لیکن گزشتہ دو الیکشن میں وہ
پورا صوبہ ، قبائلی علاقوں سمیت ن لیگی قائدین کے تغافلانہ رویے کی وجہ سے
تحریک انصاف کی آغوش میں جا چکا ہے۔وہاں کے ن لیگی رہنماء اقبال جھگڑا،
سردار مہتاب عباسی ، پیر صابر شاہ پذیرائی نہ ملنے کی وجہ سے منظر سے غیب
ہوچکے ہیں ۔کبھی وہ وقت بھی تھا جب سارے پنجاب میں ن لیگ کا طوطی بولتا تھا
نواز شریف کے منظر سے ہٹنے کے بعد جنوبی پنجاب سمیت آدھے سے زیادہ پنجاب
تحریک انصاف کی گود میں اس لیے جا گرا ہے کہ عمران خان وہاں تک پہنچتے بھی
ہیں اورجلسے کرکے وہاں کی عوام اپنی ذاتی توجہ سے نوازتے ہیں ۔میں یہ بات
دعوی سے کہتا ہوں کہ اگر نواز شریف اور مریم نواز نے ملک گیر سطح پر
کارکنوں کی سرپرستی نہ کی تو مجھے ڈر ہے کہ ن لیگ آہستہ آہستہ سنٹرل پنجاب
میں بھی اپنا وجود کھو بیٹھے گئی ۔اﷲ نہ کرے۔ |