ادھو ٹھاکرے اور نتیش کمار کے فرق نے دکھا دیا کہ سیاسی
تجربہ کیا ہوتا ہے؟ بھارتیہ جنتا پارٹی نے مہاراشٹر کا کھیل بہار میں
دوہرانے کی کوشش کی تو چاروں خانے چت ہوگئی۔ بی جے پی کی حالت جب پتلی ہوئی
تو پہلے عصرِ حاضر کے چانکیہ نے بہار کا دورہ کیا اور حسب عادت نتیش کمار
کو ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی ہوگی مگر دال نہیں گلی ۔ اس کے بعد پارٹی کے
صدر جے پی نڈا کو بہار بھیجا گیا ۔ انہوں نے وہاں جاکر یہ احمقانہ اعلان
کردیا کہ ساری سیاسی جماعتیں ختم ہوجائیں گی اور صرف بی جے پی باقی رہ جائے
گی ۔ اس پیشنگوئی کی کوئی وجہ نہیں بتائی گئی اور جب اس طرح کا اوٹ پٹانگ
دعویٰ بی جے پی والے کرتے ہیں تو اس کے حق میں یہی دلیل ہوتی ہے کہ مودی ہے
تو ممکن ہے ۔ بہار کے اندر یہ جادو کی چھڑی فیل ہوگئی ۔اس بار جادوگر کے
آستین سے خرگوش کے بجائے ایک ایسا سانپ نکل آیا جس نے کمل کے ہوش اڑا
دئیے ۔ فی الحال نتیش کے تیر سے گھائل ہوکر کمل کراہ رہا ہے۔ لالو کے
لالٹین نے پھر ایک بار بی جے پی کے محل کو خاکستر کردیا ہے اوراس سے
مہاراشٹر میں حکومت سازی کی خوشی پر اوس پڑ گئی ہے۔
مہاراشٹر میں بی جے پی سب سے بڑی پارٹی ہونے کے باوجود نائب وزیر اعلیٰ کے
عہدے پر اکتفاء کرنے پر مجبور ہے ۔ بہار میں وہ اپنے سے نصف نشستوں کے مالک
نتیش کمار کو دو سال تک وزیر اعلیٰ کے طور پر برداشت کرتی رہی ۔ بی جے پی
نے پہلےتوجے ڈی یو کے نازو نخرے اٹھائے لیکن جب اس کی پیٹھ میں چھرا
گھونپنے کی کوشش کی تو دھتکار دی گئی۔ اپنا وزیر اعلیٰ بنانے کے چکر میں
اسے نائب وزیر اعلیٰ کے عہدے سے بھی محروم ہونا پڑا۔ اب ہندوستان کے نقشے
مشرق سے لے کر جنوب تک نظر ڈالیں تو گیروا رنگ کہیں نظر نہیں آتا ۔ مغربی
بنگال میں ممتا بنرجی کی ٹی ایم سی نے بی جے پی کی ناک میں دم کررکھا
ہے۔بہار میں نتیش کمار نے ناطہ توڑ لیا ہے۔ اس کے نیچے جھارکھنڈ میں جے ایم
ایم کا وزیر اعلیٰ ہے ۔ بغل میں چھتیس گڑھ ہے جہاں کانگریس کی حکومت ہے ۔
نیچے اڑیسہ کے اندر بیجو جنتا دل کا اقتدار ہے۔ اس کے بغل میں تلنگانہ کے
اندر ٹی آریس کی سرکار ہے اور جنوب میں آندھرا پردیش میں وائی ایس آر
کانگریس کی حکومت ہے۔ سب سے نیچے تمل ناڈو میں ڈی ایم کے اقتدار پر فائز ہے۔
حزب اختلاف سے ملک پاک کرنے والوں کی یہ حالت ہے کہ تمل ناڈو کے ہمسایہ
کیرالہ میں وہ اپنا کھاتہ بھی نہیں کھول سکی اور جو ایک رکن اسمبلی تھا اس
کو بھی گنوادیا۔
بہار کے اندر بی جے پی نے نتیش کمار کا داہنا ہاتھ سمجھے جانے والے آر سی
پی سنگھ کو ایکناتھ شندے بنانے کی کوشش کی لیکن ان کے اڑنے سے قبل ہی نتیش
کمار نے پر کتر دیئے ۔ گزشتہ پارلیمانی انتخاب جے ڈی یو نے بی جے پی کے
ساتھ لڑا ۔ دونوں کو یکساں یعنی 16 ؍16سیٹ ملی لیکن بی جے پی نے جے ڈی یو
کو صرف ایک وزارت کی پیشکش کی۔ اس سے ناراض ہوکر جے ڈی یو نے مودی سرکار
میں شامل ہونے سے انکار کردیا لیکن بی جے پی نے آر سی پی سنگھ کو نتیش
کمار کی مرضی کے خلاف مرکزی وزیر بنادیا ۔ آر سی پی سنگھ کا یہ قدم جے ڈی
یو سے بغاوت کے مترادف تھا لیکن اسے برداشت کرلیا گیا۔ اس سے یہ تو پتہ چل
ہی گیا تھا کہ سنگھ کالی بھیڑ ہے لیکن اس کو ذبح کرنے کے لیے صحیح وقت کا
انتظار کیاگیا ۔ یہ سابق آئی اے ایس افسر اپنے بل بوتے پر چونکہ انتخاب
نہیں جیت سکتا ۔ اس لیے اسے ایوان بالہ میں بھیجاجاتا تھا اور اس کی مدت
کار عنقریب ختم ہونے والی تھی ۔ پچھلے ماہ نتیش کمار نے اسے دوبارہ ٹکٹ سے
محروم کرکے مفلوج کردیا ۔ اس سے پہلے کہ وہ پارٹی کے اندر پیر پھیلاتا اس
پر بدعنوانی کا الزام لگا کر کارروائی شروع کرکےاستعفیٰ دینے پر مجبور کیا
گیا ۔ اب وہ نہ گھر کا ہے نہ گھاٹ کا۔ بی جے پی کے لیے اس بدعنوان کو اپنی
پناہ میں لینا مشکل ہوگیا ہے۔
پچھلے ریاستی انتخاب میں بی جے پی نے چراغ پاسوان کی مدد سے نتیش کمار کو
کمزور کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ وہ چاہتی تھی کہ چراغ پاسوان کے ذریعہ جے ڈی
یو کا نام ونشان مٹا کربہار پر اپنا وزیر اعلیٰ بہار مسلط کردیا جائے لیکن
وہ خواب بکھر گیا ۔ چراغ پاسوان نے نتیش کمار کو کمزور تو کیا مگر خود
کامیاب نہیں ہوسکے ۔ اس لڑائی کا فائدہ آر جے ڈی کو ملا اور وہ سب سے بڑی
پارٹی بن کر ابھری ۔ وہ توکانگریس اپنے چالیس امیدواروں میں سے صرف 16 کو
کامیاب کرسکی ورنہ اسی وقت کمل مرجھا جاتا ۔ اس کے بعد مہاراشٹر کی طرح دل
پر پتھر رکھ کر بادلِ نہ خواستہ نتیش کمار کو وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائزتو
کیا گیا لیکن شیشے میں بال پڑ چکا تھا ۔ نتیش کمار سمجھ گئے تھے کہ بی جے
پی نے ان کے بعد جے ڈی یو پر قبضہ کرنے کی تیاری کرچکی ہے۔ لوہیا کے
سماجوادی نظریہ کے حامل نتیش کمار کی خاطر یہ صورتحال پریشان کن تھی کہ ان
کی سیاسی وراثت بی جے پی کے ہتھے چڑھ جائے ۔ یہ ایسی ہی فطری خواہش ہے کہ
جس کے تحت ہر طوائف اپنی بیٹی کو اپنے پیشے سے دور رکھنے کی کوشش کرتی ہے۔
بی جے پی والے اب بلبلارہے ہیں اور نتیش کمار پر بہار کی عوام کے ساتھ
دھوکہ دہی کا الزام لگا رہے ہیں حالانکہ وہ بھول گئے ہیں 2015میں جے ڈی یو
نے آر جے ڈی کے ساتھ مل کر الیکشن لڑا تھا ۔ اس کے بعد بی جے پی نے نتیش
کمار کو سرجن گھوٹالے کے بہانے بلیک میل کرکے اپنے ساتھ کرلیا ۔ سوال یہ ہے
کہ کیا وہ بہار کے عوام کی بے عزتی نہیں تھی؟ اگر عوام کی رائے کا احترام
اتنا ہی اہم تھا تو اگلے الیکشن تک بی جے پی انتظار کرلیتی لیکن ایسا نہیں
کیا گیا ۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کی تاریخ فریب کاری سے بھری پڑی ہے۔
ہندوتواوادی شیوسینا کی پیٹھ میں خنجر گھونپ کر اس کو توڑنا ۔ اس کے باغی
دھڑے کو خرید کر حکومت بنانا کیا عوام کی رائے سے دھوکہ نہیں ہے۔ شندے گروہ
نے شیوسینا کے نام پر ادھو کی قیادت میں انتخاب لڑا ۔ ڈھائی سال تک اقتدار
کی ملائی کھائی اور پھر بی جے پی سے جاملا اور سرکار بنالی ۔کیا یہ عوام کی
رائے کا احترام ہے ۔ ایسی اناپ شناپ دلیل کو بھلا کون مانے گا ؟ بی جے پی
اگر عوام کو بیوقوف سمجھتی ہے تو یہ اس کی سب سے بڑی غلطی ہے۔
وطن عزیز میں اسی طرح کی فریب کاری کے سبب امیت شاہ کو چانکیہ کے لقب سے
نوازہ گیا۔ پورے ملک میں انہوں نے مخالفین کے ارکان اسمبلی کو توڑ کر حکومت
بنائی ۔ کرناٹک اور مدھیہ پردیش میں کانگریسیوں کو ساتھ لےکر حکومت قائم کی
اور باغیوں کو وزارت سے نوازہ تو گودی میڈیا نے اس کی خوب تعریف و توصیف کی
اور اب وہی نتیش کمار پر ابن الوقتی کا الزام لگا رہا ہے۔ اقتدار کے نشے
میں بی جے پی کو اس بات کا بھی جائزہ لینا چاہیے کہ اس نے اپنے شراکت دار
کے ساتھ کیسی بدسلوکی کی ۔ بی جے پی کے اسپیکر وجئے سنہانے ضابطوں کی خلاف
ورزی بہار حکومت پر اعتراض کیا۔بی جے پی کے کارکنان کو کوویڈ پابندیوں کی
خلاف ورزی پر گرفتار کیے جانے پر وہ نتیش کمار پر برس پڑے۔ بی جے پی کے
صوبائی صدر سنجے جیسوال نے دھمکی دی کہ اگر اگنی پتھ اسکیم کے خلاف احتجاج
کو نہیں روکا گیا تو ٹھیک نہیں ہوگا۔ اس کے ردعمل میں چار دن قبل نتیش کمار
نے بیماری کا بہانہ بناکر نیتی آیوگ کی نشست کا بائیکاٹ کیا ۔ بی جے پی کو
اس ا شارے سے ہوشیار ہوجانا چاہیے تھا لیکن وہ اقتدار کے نشے بدمست ہاتھی
کی مانند اپنے بل پر بلدیاتی انتخاب لڑنے کا خواب دیکھتی رہی ۔
اقتدار کی خاطر یکجا ہونے والے ان ابن الوقت حلیفوں کے درمیان کئی اصولی
اور نظریاتی اختلافات بھی ہیں مثلاً بی جے پی ایک ساتھ مرکزی اور صوبائی
انتخابات کروانا چاہتی ہے جبکہ جنتا دل یو اس کے خلاف ہے۔ یکساں سول کوڈ کے
معاملے میں بھی دونوں کی رائے متضاد ہے۔ این آر سی کا معاملہ ہو یا تین
طلاق کا مسئلہ پر بھی شدید اختلاف رہا ہے۔ نتیش کمار نے بی جے پی کواس سے
قبل تین بار جھٹکا دیا ہے اور ہر مرتبہ اس کی بنیادی وجہ نریندر مودی تھے ۔
2002میں این ڈی اے کے اندر شامل ہونے کے باوجود مسلم کش فسادات کے لیے نتیش
نے مودی کو ذمہ دار ٹھہرایا تھا۔ 2010میں مودی کے سبب نتیش کمار نے پٹنہ
میں بی جے پی انتظامیہ کو دئیے جانے والے عشائیہ کو منسوخ کردیا تھا۔
2014میں مودی کی قیادت کے سبب نتیش کمار نے بی جے پی کے ساتھ 17سال پرانا
الحاق ختم کردیا تھا۔ اس کے باوجود مختلف مجبوریوں کے تحت نتیش کمار نے کسی
طرح بی جے پی کے ساتھ گزارہ کیا مگر جب پانی سر سے اونچا ہوگیا تو انہوں نے
کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ ان کے اس فیصلے نےحزب اختلاف کی خود اعتمادی میں
اضافہ کیا ہے اور اس کا اثر آئندہ صوبائی اختلافات کے ساتھ اگلے قومی
انتخابات پر بھی پڑے گا۔
|